احتشام خاموش ہوا تو سویرا کا قلم بھی رک گیا۔ اس نے سر اٹھا کر احتشام کو دیکھا جس کے چہرے پر رنجیدگی نظر آئی۔ سب بتاتے ہوئے وہ بیتا وقت شدت سے یاد آگیا تھا۔
”جانتے ہو قصہ ختم کیوں نہیں ہوا؟“ سویرا رسان سے گویا ہوئی۔
”کیوں نہیں ہوا؟“
”کیونکہ قصہ ابھی باقی ہے۔“ وہ مسکرائی۔
”شارخ خان کے اسٹائل میں کہیں تو پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔۔۔“ سویرا نے ماحول کا تناؤ کم کرنا چاہا۔ وہ کچھ نہ بولا۔
”شارخ خان کا وہ ڈائلوگ صرف فلم کا ڈائلوگ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ فلموں کی طرح ہماری زندگی میں بھی اینڈ میں سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے، ہیپی اینڈنگ ضرور ہوتی ہے، اور اگر کچھ ٹھیک نہ ہو تو اینڈ نہیں، پکچر ابھی باقی ہے، لیکن ہم قسمت کے سیڈ انٹرویل کو سیڈ اینڈ سمجھ کر اپنی زندگی کا ٹی وی وقت سے پہلے ہی بند کر دیتے ہیں تو پھر ہیپی اینڈنگ کیسے دیکھ سکیں گے بھلا؟“ وہ بہت سادہ لفظوں میں ایسے بات کر رہی تھی جس سے وہ ریلیٹ کر پائے۔
”لیکن کچھ فلموں کا اینڈ بھی ہیپی نہیں ہوتا، ہو سکتا ہے میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو، تو؟“ اس نے سوال اٹھایا۔ مطلب سویرا کی کوشش کم از کم خالی نہیں جا رہی تھی۔
”ہاں لیکن اس کا فیصلہ بھی پوری فلم دیکھنے کے بعد ہی ہوتا ہے ناں؟ تو تمھیں بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا، تب ہی فیصلہ ہوگا۔“ جواب تیار تھا۔ وہ لاجواب ہوگیا۔ سویرا آرام سے مزید گویا ہوئی۔
”تم نے کسی سے ملے، نارمل ہے، تمھیں وہ اچھا لگا، نارمل ہے، وہ تمہیں چھوڑ گیا، نارمل ہے، تمہارا دل ٹوٹا، نارمل ہے، تم نے زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔“
”یہ نارمل نہیں ہے۔“ احتشام خود ہی بول پڑا۔
”میں اُوور ریکٹ کر گیا؟ ہے ناں؟“ اس نے تائید چاہی۔
”نہیں، یہ بھی نارمل ہے۔“ سویرا کا جواب اس کیلئے غیر متوقع تھا۔
”ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے، اسی لیے ہر انسان کا رد عمل ایک ہی مسلے کو لے کر الگ ہوتا ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک ہی آگ پر ایک پیتل کا اور ایک پلاسٹک کا برتن رکھ دیا جائے، اور جب پلاسٹک پگھلنے لگے تو اسے کہا جائے کہ ارے صرف آگ ہی تو لگی ہے، تم اتنی سی بات پر اُوور ریکٹ کرکے پگھل کیوں رہے ہو؟“ سویرا نے مثال کے ذریعے نکتہ واضح کیا۔
احتشام اسے دیکھے گیا جسے لگا کہ پہلی بار کوئی اسے سمجھانے کے بجائے اسے سمجھ رہا ہے۔
”ہم سے کوئی یہ رائے قائم کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ فلاں شخص اُوور ایکٹ کر رہا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہی نہیں کہ اس شخص کے اندر کیا جنگ چل رہی ہے۔“ وہ مزید کہنے لگی۔
”ایسے ہی تم بھی سب سے پہلے لوگوں کی باتوں پر توجہ دینا چھوڑ دو کہ تم بزدل تھے، تم بے وقوف تھے، یہ تھے، وہ تھے، تم جو ہو اسے قبول کرو کہ ہاں میں یہ ہوں، ہاں میں ڈر گیا تھا، ہاں مجھے دکھ ہوا تھا، ہاں مجھے رونا آیا تھا، کیونکہ یہ سب بالکل نارمل ہے، ہمیں یہ سب فیل ہوتا ہے تب ہی تو ہم انسان ہیں ورنہ ہم پتھر ہوتے۔“ سویرا نے سوچنے کیلئے ایک بالکل الگ زاویہ دیا۔
”ہاں ولید کہتا ہے کہ تو کتنا بے وقوف نکلا کہ بے وفا لڑکی کے کیلئے دیوانہ ہوگیا اور پھر اس سے بھی بڑھ کر بزدل ثابت ہوا کہ اسی کے پیچھے جان دینے چلا تھا۔“ احتشام نے دھیرے سے تائید کی۔
”وہ تمہارا دوست ہے ناں اسی لئے فکر میں ایسا کہہ جاتا ہے، لیکن اسے تمہارے ان ایکشنز کے پیچھے کی لاجک نہیں پتا ہے لہٰذا معاف کردو بیچارے کو۔“ اس نے مسکرا کر ماحول کا تناؤ کم کیا۔
”لیکن اب تم لاجک سمجھو، خود کو سمجھو، اور تمہاری لاجک بس اتنی سی ہے کہ تم بہت جلد لوگوں سے اٹیچ ہوجاتے ہو اور انہیں اپنا بیسٹ دیتے ہو۔“
”ہاں، اسی لئے اب میں دوبارہ کبھی کسی سے اٹیچ نہیں ہوں گا۔“ اس نے فیصلہ سنایا۔
”نہیں، ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، تم لوگوں سے جلد گھل مل کر اٹیچ ہوجاتے ہو نو ایشو، انسان کو ایسا ہی ملنسار ہونا چاہئے، صرف ایک غلط تجربے کی وجہ سے تم اپنی شخصیت کی اتنی پیاری عادت مت بدلو بلکہ ایسے ہی انسان دوست رہو، ہاں بس ساتھ ایک عادت اور بھی بنا لو، کہ جب کوئی چلا جائے تو تم بھی اسے let go کر دو۔“ سویرا نے اس کی سوچ کو غلط سمت مڑنے سے روکا۔
”جیسے مزیدار سی کھیر کھاتے ہوئے اچانک منہ میں کڑوا بادام آنے پر ہم صرف بادام تھوکتے ہیں، پوری کھیر اٹھا کر نہیں پھینک دیتے، ایسے ہی تم بھی صرف برے تجربات کو چھوڑ کر آگے بڑھو، دوستی کرنا، رشتے بنانا، محبت کرنا مت چھوڑو، کیونکہ تم زندگی کی یہ ساری مٹھاس ڈیزرو کرتے ہو۔“ وہ بول رہی تھی اور وہ سن رہا تھا۔
”اور تمھیں ایک مزے کی بات بتاؤں؟ تم نے واقعی ابھی یہ سب نہیں چھوڑا ہے، تمہارے اندر اب بھی احساس باقی ہے، تمہارے جذبات مردہ نہیں ہوئے ہیں، اور اس کا ثبوت ہے کہ تم صرف اپنے دوست کیلئے آج یہاں میرے ساتھ بیٹھے ہو، ورنہ کون کسی کیلئے خود کو پیش کرتا ہے؟“ سویرا کی یہ بات اس کا دل چھو گئی۔
”تم سچ میں بہت اچھے انسان ہو احتشام، اور اپنی ان اچھائیوں کو کسی برے تجربے کی نذر مت ہونے دو۔“ اس نے بہت نرمی سے کہا۔
احتشام کا سر بے ساختہ ٹرانس کی کیفیت میں ہلا۔ مطلب سویرا کی باتیں سماعت سے ہو کر دل پر لگنے کے بعد دماغ پر اثر کرنا شروع کر چکی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے