کمرہ دھیمی روشنی میں ڈوبا ہوا تھا۔کھڑکی سے آتی ہوا نے پردوں کو ہلکا سا سرکایا تو مدھم چاندنی کمرے کے فرش پر پھیل گئی۔گہرے نیلے رنگ کے چیسٹر فیلڈ صوفہ پر،کمال مصطفیٰ بیٹھے ہوئے تھے۔لیپ ٹاپ کی اسکرین روشن تھی اور اسکرین پر جی میل کا انٹرفیس دکھائی دے رہا تھا۔
”بابا، میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی“۔باہر درختوں کی سرسراہٹ کمرے کے سکوت میں ایک غیر مرئی ساز پیدا کررہی تھی۔ان میں فاطمہ کی دھیمی آواز بھی شامل ہوگئی۔
”کیوں نہیں کرنا چاہتی؟“۔بابا نے ایک لمحے کے لیے لیپ ٹاپ کی اسکرین سے نظریں اٹھائیں۔
”مجھے اپنی ڈگری مکمل کرنی ہے“۔فاطمہ نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔دونوں انگلیوں کو آپس میں پھنسائے وہ بےچین سی تھی۔
”پڑھائی شادی کے بعد بھی ہو سکتی ہے،فاطمہ۔ ماریہ کے لیے ایک اچھا رشتہ آیا ہے، اور وہ لوگ دو ماہ میں شادی کرنا چاہتے ہیں۔میں اماں کو انکار نہیں کر سکتا“۔وہ سنجیدگی اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔
”لیکن بابا….“اس کے چہرے پر عجیب سی بےبسی چھاگئی۔
”بیٹا اگر اس کے علاؤہ کوئی اور بات ہے تو بتائیں؟اور اگر صرف یہی وجہ ہے تو پریشان نہ ہوں،آپ اپنی ڈگری بھی مکمل کرینگی اور ہاسپٹل کی مینجمنٹ کو بھی ویسے ہی سنبھالیں گی جیسے اب تک کر رہی ہیں۔کوئی آپ کو روکے گا نہیں“۔۔انہوں نے ہتھیلی اس کے سامنے کی تو فاطمہ تھام گئی۔اس کے ہاتھ کو تھامتے نرم سا دباؤ ڈالے تو فاطمہ مدھم سا مسکرا دی۔
”کھڑکی بند کرتے ہوئے جائیے گا“۔فاطمہ سر ہلا کر کھڑکی بند کرنے کے لیے آگے بڑھی۔پھر خاموشی سے ان کے کمرے سے نکل آئی۔کہنے کو جیسے کچھ بچا نہیں تھا۔اب اس کا رخ ماریہ کے کمرے کی جانب تھا۔
ماریہ کے کمرے کا دروازہ دھاڑ سے کھلا۔بیڈ پر لیٹی ہوئی ماریہ چونک کر اٹھ بیٹھی۔کمرے میں خوابیدہ ماحول تھا۔
”ماریہ ابراہیم! تم مجھے پہلے نہیں بتا سکتی تھی؟“۔ فاطمہ کے لہجے میں غصہ تھا،اور آنکھوں میں شکوہ ںھی۔
”کیا بتاتی میں آپ کو؟“۔ماریہ تھکن بھرے لہجے میں سوال کی۔اس کے بیڈ کے ساتھ ایک نرم گدیلہ قالین بچھا تھا۔فاطمہ چلتی ہوئی نرم قالین پہ آکھڑی ہوئی۔
”تمہارا رشتہ آیا ہے اور تم نے مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا؟” فاطمہ کا لہجہ شکایتی تھا۔
”مجھے خود نہیں معلوم تھا، تو آپ کو کیسے بتاتی؟ یہ اچانک جو بم گرا ہے، وہ صرف آپ پر نہیں، مجھ پر بھی گرا ہے“۔فاطمہ نے اسے غور سے دیکھا۔وہ بیڈ پر سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی۔اس کے گہرے سیاہ بال بےترتیبی سے اس کے کندھوں پر گرے ہوئے تھے۔آنکھوں میں تھکن سی تھی۔
”کیا مطلب؟ تمہیں کوئی دیکھنے نہیں آیا؟“۔
”نہیں۔امی نے بتایا کہ پارٹی میں کسی فیملی نے پسند کیا ہے“۔ماریہ نے آہستگی سے جواب دیا۔سائیڈ ٹیبل پر ایک باسی چائے کا کپ پڑا تھا۔جس کی نیم خشک چائے کی تہہ اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ یہاں کچھ وقت پہلے تنہائی کے لمحات گذارے گئے تھے۔
”ماریہ، تم کچھ اپ سیٹ لگ رہی ہو، کیا بات ہے؟“۔فاطمہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئی۔ماریہ نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں، خود کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی، لیکن پھر ایک دم اس کے آنسو بہنے لگے۔
”کچھ نہیں،پوری اپ سیٹ ہوں یار۔مجھے شادی نہیں کرنی“۔
”ادھر دیکھو،ماریہ!میری طرف۔کیا بات ہے؟“اس کا چہرہ اپنی جانب کرتے ہوئے فاطمہ سنجیدگی سے پوچھنے لگی۔
”فاطمہ مجھے نہیں کرنی شادی“۔اب کہ وہ زور سے روتی اس کے کندھے سے لگی۔فاطمہ اس کے ردعمل پر حیران رہ گئی۔
”ماریہ کیا ہوا ہے؟رونا بند کرو۔بتاؤ مجھے؟“۔۔ماریہ نے بھیگی نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔اور ان نگاہوں میں جو تھا وہ فاطمہ کمال کو ساکت کرگیا۔
”آر یو انٹرسٹڈ ان سم ون؟“۔اس کے لبوں سے سرسراتی ہوئی آواز نکلی۔ماریہ لب دانتوں تلے دباتی سر ہلا گئی۔
”اوہ مائی گاڈ!ہو از ہی؟“۔فاطمہ کمال اپنا مسئلہ یکسر بھلا بیٹھی۔ابھی وہ آنکھوں میں فکرمندی لیے ماریہ ابراہیم کو دیکھ رہی تھی۔اس کے مسئلے کو دیکھ رہی تھی۔ابھی اس کے سامنے صرف ماریہ ابراہیم تھی۔اور اس کے آنسو۔
”ارمان شاہد“۔اقرار کے بعد انکشاف کیا گیا۔دوسری جانب فاطمہ کمال کو ایک اور شاک ملا۔
”ارمان؟یو مین ارمان شاہد؟“۔۔اسے مشکل ہوئی تھی اس بات کو پروسس کرنے میں۔بےیقینی سے وہ ماریہ کو دیکھ رہی تھی۔
”تم جانتی ہو ناں؟اس کی فیملی کو یہاں کوئی پسند نہیں کرتا۔پتہ ہے تمہیں اس بارے میں“۔۔ماریہ کچھ نہ بولی۔بس سر جھکائے آنسو بہاتی رہی۔فاطمہ افسوس سے اسے دیکھی۔
”اسے پتہ ہے اس بارے میں؟میرا مطلب ہے کیا وہ بھی تم سے؟“۔.فاطمہ کمال بات ادھوری چھوڑ گئی۔کمرے کی فضا بوجھل ہونے لگی۔
”نہیں اسے نہیں معلوم۔ہماری کبھی ایسی کوئی بات نہیں ہوئی“۔۔
”شکر۔اسے پتہ چلنا بھی نہیں چاہیے۔تم پیچھے ہٹ جاؤ ماریہ۔کیونکہ یہ ناممکن ہے“۔۔گہری سانس بھرتے وہ اسے تلخ حقیقت بتا رہی تھی۔آنکھوں میں ڈھیروں افسوس لیے اسے دیکھا۔کس راستے پر چل نکلی تھی وہ؟
نہیں ہٹ سکتی فاطمہ۔اب پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن نہیں۔یوں بھی یہ خاموش یکطرفہ محبت مجھے اندر سے مار رہی ہے“۔۔وہ اذیت سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
”اسے حاصل کرنا ہے،تو یاد رکھو۔خود کو زخمی کرنا ہوگا۔قدم قدم پہ کانٹے بچھے ہوئے ہیں۔چل لو گی ان کانٹوں پہ؟زخمی کرلو گی خود کو؟“۔اس کی آنکھوں میں سنجیدگی سے دیکھتے وہ استفار کرنے لگی۔
”وہ محبت ہی کیا جس میں زخم نہ ملے؟“۔وہ ہنس دی اذیت سے۔”میں ساری چیزوں کے لیے تیار ہوں۔بس ابھی اس شادی کے لیے نہیں“۔۔وہ ملتجی لہجے میں کہنے لگی۔
”پریشان نہ ہو۔اس کا بھی کچھ سدباب نکالتے ہیں۔اگر ارمان شاہد تمہارا نصیب ہوا تو تمہیں ضرور ملے گا“۔۔اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔
”تھینک یو فاطمہ۔۔تھینک یو سو مچ“۔۔فاطمہ کا ہینڈل پر رکھا ہاتھ ٹھر گیا۔چہرہ گھما کر بیڈ کی جانب دیکھا۔ماریہ اسے ممنون نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
”پاگل مت بنو۔میں ہمیشہ تمہارے لیے موجود رہونگی۔کوئی بھی پریشانی ہو میرے پاس آجانا“۔۔مسکرا کر کہتی وہ باہر نکل آئی۔
اپنے کمرے میں آ کر فاطمہ نے دروازہ بند کیا۔خاموشی میں، وہ دیوار سے ٹیک لگا کر نیچے بیٹھتی چلی گئی۔آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
”کاش! کوئی مجھے بھی تسلی دیتا،میرے دکھوں کو بھی سمجھتا“۔۔اس کی آواز سرگوشی جتنی مدھم تھی۔کچھ وقت قبل مضبوط دکھنے والی فاطمہ کمال،اب بکھر رہی تھی۔چاندنی کی مدھم روشنی اس کے آنسوؤں کے غم کو دیکھ رہی تھی۔بیڈ کے قریب ایک کتاب ادھ کھلی پڑی تھی۔مگر اس وقت فاطمہ کا دل کسی کتاب یا کہانی میں الجھنے کو تیار نہ تھا۔اس وقت وہ اپنی ہی کہانی میں الجھی ہوئی تھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 3
