مغرب کا مدھم اندھیرا چھانے لگا تھا اور فاطمہ کو آج کچھ دیر ہو گئی تھی۔چار بجے تک اُسے گھر پہنچنا تھا، مگر کام میں اتنی گم ہوئی کہ وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ آج سنڈے تھا، زیادہ تر ڈاکٹرز کا آف تھا، صرف ایمرجنسی میں کچھ ڈاکٹرز ہوتے تھے۔ سامان سمیٹ کر بھورے رنگ کا لانگ کوٹ پہنی،سیاہ رنگ کا بیگ کندھے پر ڈالی اور ہاتھ میں فائل تھامے آفس سے باہر نکل آئی۔
کاریڈور میں سنسناہٹ تھی۔ بس چند نرسیں اور وارڈ بوائے نظر آ رہے تھے۔وہ تیز قدموں سے لفٹ کی طرف بڑھ گئی۔ لفٹ میں وہ اکیلی تھی،چہرے پر تھکی ہوئی مگر پُرسکون مسکراہٹ تھی۔چند لمحوں بعد ایک لڑکا اندر داخل ہوا۔ فاطمہ نے اسے نظر انداز کیا اور لفٹ کی ایک طرف کھڑی ہو گئی۔چند لمحے گزرے تھے کہ اچانک، لفٹ رک گئی۔
”یہ لفٹ کو کیا ہوا؟ یہ تو بالکل ٹھیک تھی؟“۔اچانک لفٹ کے رکنے پر فاطمہ گھبرا کر بٹن دباتی گئی۔
”یا اللہ! میں کہاں پھنس گئی؟ یہ چل کیوں نہیں رہی؟“۔ اس کے لہجے میں خوف در آیا۔
”کوئی ہے؟ پلیز کوئی اسے کھولو“۔فاطمہ نے دروازے کو زور زور سے بجایا۔پھر کھولنے کی ناکام کوشش کی۔
”میرے خیال سے کوئی تکنیکی خرابی ہو گئی ہے“۔لڑکے کی آواز پر فاطمہ نے اُسے دیکھا،اور ایک ہلکا سا خوف اس کے دل میں اُتر آیا۔
”مو… موبائل کہاں ہے؟“۔لڑکے کو نظر انداز کرتی وہ خود سے کہتی، کپکپاتے ہاتھوں سے بیگ میں موبائل تلاش کرنا شروع کیا۔
”یہ کیا؟“۔اس کی آنکھوں میں حیرانی تھی،نو سگنلز۔اسکرین کو دیکھتے ہوئے اس کی نیلی آنکھیں بھیگنے لگی۔لیکن اس نے آنسوؤں کو باہر گرنے نہیں دیا۔
”یا اللہ! میں مرنا نہیں چاہتی! مجھے بچا لیں! میں اس لفٹ میں اپنی جان نہیں ہارنا چاہتی“۔وہ تیزی سے آیتہ الکرسی، چاروں قل اور درود شریف پڑھنے لگی۔
”آپ پریشان نہ ہوں، آپ اکیلی نہیں ہیں، میں آپ کے ساتھ ہوں“۔ لڑکا تسلی دینے کو آگے بڑھا،لیکن فاطمہ کی سرد نگاہوں نے اسے اپنے قدم روکنے پر مجبور کر دیا۔اس کے علاؤہ بھی کوئی طاقت تھی،بلکہ وہی طاقت تھی جو اسے فاطمہ کی جانب قدم بڑھانے سے روک گئی تھی۔اللہ کے کلام کی طاقت۔وہ آہستہ آواز میں تلاوت کر رہی تھی۔
کچھ لمحوں بعد لفٹ کا دروازہ کھلا۔ فاطمہ نے نظریں سامنے کی اور پھر آہستہ سے مسکرائی، ایک نم مسکراہٹ۔ وہ مدد کس سے مانگ رہی تھی؟اللہ سے۔تو کیا ایسا ہوتا اس تک مدد ناں پہنچتی؟۔
”الحمداللہ رب العالمین“۔بےاختیار اس کے لبوں سے ادا ہوا۔وہ فوراً باہر کی طرف قدم بڑھائی۔وہ لڑکا اچانک لفٹ کھل جانے پر فوراً سے فاطمہ کے قریب آیا تھا۔لیکن اندر آتے وجود پر جیسے نظر پڑی۔وہ تیزی سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔اس نے فوراً سے لڑکے کی گردن پر دباؤ ڈالتے ہوئے اُسے بے ہوش کر دیا۔فاطمہ حیران سی اس منظر کو دیکھی۔
”آپ ٹھیک ہیں؟“۔اس آواز نے فاطمہ کو چونکا دیا۔
”تم؟“۔اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ بے ساختہ بولی،آج بھی اس کا چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا۔
”جلدی کریں،فوراً پچھلے گیٹ سے نکلیں۔آپ کی گاڑی وہیں ہے“۔اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ عجلت میں گویا ہوا۔
”پچھلے گیٹ سے؟ لیکن کیوں؟“ فاطمہ نے مزید حیرانگی سے اسے دیکھا۔
”فرنٹ ڈور پر رپورٹرز ہیں، وہاں سے نکلنا سیف نہیں ہے“۔ اس کے بتانے پر وہ متفکر ہو کر فوراً اِسے دیکھنے لگی۔
”رپورٹرز؟ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟“۔
”یہ لڑکا جس کے ساتھ آپ لفٹ میں بند ہوئی تھیں، اُس کے ساتھ ایک نئے اسکینڈل کی خبر کے لیے“۔ اُس کے انکشاف پر فاطمہ نے بے ساختہ پیچھے بے ہوش لڑکے کی طرف نظر ڈالی۔
”تو لفٹ میں کئی لوگ ساتھ اُترتے ہیں،اس میں کون سی نئی بات ہے؟“۔فاطمہ نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے، کچھ ناگواری سے کہا۔
”یہ بات آپ جانتی ہیں،لوگ نہیں۔وہ وہی دیکھیں گے جو انہیں دکھایا جائے گا۔اب آپ جلدی جائیں،میرا بندہ انہیں زیادہ دیر تک نہیں روک سکتا“۔۔اس کے نہ ہلنے پر وہ کوفت سے اسے دیکھا۔
”تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں لفٹ میں بند ہوں؟ اور ان رپورٹرز کا؟“۔۔
”آپ کو اپنی جان بچانی ہے یا پھر سوالوں کے جواب جاننے ہیں؟“۔اس کے غصے اور چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر وہ بیزاری سے بولا۔
”تم بھی میرے ساتھ چلو۔میں اکیلی نہیں جاؤں گی“۔اس کے مطالبے پر اس کی سیاہ آنکھیں کچھ بڑی ہوئیں۔
”آپ ایک انجان شخص کو اپنے ساتھ چلنے کا کہہ رہی ہیں؟“۔وہ اسے اچھنبے سے دیکھنے لگا۔
”کچھ ماہ پہلے بھی تم ملے تھے،اور آج بھی تم بچانے آ گئے۔ میں تم سے جانے بغیر یہاں سے جانے والی نہیں،اور تم مجھے یہاں ٹہرنے دو گے نہیں۔“فاطمہ کا لہجہ پُر سکون تھا،اس کی چالاکی پر وہ اسے دیکھ کہ رہ گیا۔
”آپ دوسرا رخ کیوں نہیں دیکھ رہی؟آپ جب کسی مشکل میں ہوتی ہیں،تو میں ہی کیوں آتا ہوں؟ کیا پتہ میں ہی آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہوں؟“۔اس کا لہجہ پراسرار تھا۔اور شاید فاطمہ کمال کو خوفزدہ کرنے کی کوشش۔لیکن فاطمہ کمال ہنس پڑی،اُس کے ہنسنے پر وہ متعجب سا اُسے دیکھنے لگا۔عجیب لڑکی تھی۔
”میں نظروں کو پہچاننا جانتی ہوں“۔فاطمہ کی بات نے اُس کی آنکھوں میں مزید حیرانی بھری۔
”یہ اوور کانفیڈنس نہیں؟“۔وہ طنزیہ انداز میں سوال کرنے لگا۔
”بالکل بھی نہیں“۔فاطمہ کا جواب بے ساختہ تھا۔
”آپ کچھ دیر پہلے لفٹ میں بند ہوئی تھیں،اگر آپ کو یاد ہو؟“۔اس کے سراسر طنزیہ انداز پر فاطمہ نے آنکھوں میں غصہ لیے اُسے گھورا۔
”تم کیا ہر کسی کو یونہی طنز کرتے ہو؟“۔اس کی جانب سے چہرہ پھیر کر سیدھ میں کیے چلنے لگی۔سیاہ بلاک ہیلز کی آواز پر سیاہ آنکھیں اس کے قدموں پر ٹھر گئیں۔پھر تیزی اس نے نظروں کا زاویہ بدل لیا۔
”آپ سے پہلے ایسا کوئی عجوبہ نہیں ملا، جسے یوں کہنے کی ضرورت پڑتی“۔وہ بے نیازی سے کندھے اچکا کر اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہنے لگا۔
”تم مجھے عجوبہ کہہ رہے ہو؟ لوگ مجھے میچور اور کانفیڈنٹ لڑکی کہتے ہیں“۔اس کھلی بعزتی پر غصے و خفگی سے اُسے دیکھنے لگی۔
”لوگوں نے آپ کا دماغ خراب کر دیا ہے۔آپ ایک بیوقوف لڑکی ہیں،جس نے نہ صرف ایک انجان شخص کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا، بلکہ اب اُس کے ساتھ باتیں بھی کر رہی ہے“۔ اس کے صاف اور سیدھے انداز پر فاطمہ تلملائی۔
”تم کہہ رہے تھے کہ میں ابھی کچھ دیر پہلے لفٹ میں بند ہوئی تھی؟“۔اس کے غیر متوقع جواب پر اس نے گردن موڑ کر اُسے دیکھا۔ناسمجھی سے۔
”تم یقیناً یہی پوچھنا چاہ رہے تھے کہ میں خوفزدہ کیوں نہیں ہوں؟“۔وہ مدھم سا مسکرائی۔
”تم سے بات کرکے میں اس خوف کو ہی دور کر رہی ہوں۔ میں تم سے بات اپنے لیے کر رہی ہوں۔ڈسٹریکشن ٹیکنیک“۔اس کا اندازِ جتاتا ہوا تھا۔آخر اس نے فاطمہ کمال کو سمجھ کیا رکھا تھا؟۔
”فاطمہ کمال ہر کسی سے فری نہیں ہوتی اور نہ ہر کسی سے بات کرتی ہے۔اگر میں تم سے بات کر رہی ہوں تو صرف اپنے لیے“۔اس کی آواز بہت سنجیدہ تھی۔وہ خاموشی سے بس سر ہلا گیا۔
”کیا ہوا؟ الفاظ ختم ہوگئے؟“۔اب طنز کرنے کی باری فاطمہ کمال کی تھی۔
”آپ نے مجھے ساتھ چلنے کا کیوں کہا؟“۔اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گی کہ تم مجھے بچانے کیوں آئے؟کیونکہ میں جانتی ہوں تم کبھی بتاؤ گے نہیں“۔فاطمہ کی بات پر اس کی آنکھوں میں ستائش ابھری۔
”اب میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ عقل مند ہیں“۔اس کے اس جواب پر فاطمہ ایک بار پھر سے ہنس دی۔
”لفٹ بند کیسے ہوئی؟جب کہ وہ بالکل ٹھیک تھی؟ اور رپورٹرز یوں اچانک یہاں کیسے آئے؟“۔اب وہ فکرمندی سے استفار کررہی تھی۔
”یہ ٹیبلوئڈ رپورٹرز تھے…“۔اس کی بات پر وہ چونکی۔
”وہ صحافی جو زیادہ تر سنسنی خیز خبروں یا اسکینڈلز پر کام کرتے ہیں؟“۔ فاطمہ کی بات پر وہ اثبات میں سر ہلایا۔
”ہاں، وہی۔ پیسوں کے عوض یہ معلومات یا تصاویر لیک کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔یقیناً ان کو کسی نے پیسے دے کر آپ کے پیچھے بھیجا ہے“۔۔
”لفٹ بھی بند اُسی شخص نے کروائی ہوگی اور اس لڑکے کو بھی اُسی نے بھیجا ہوگا۔” فاطمہ سمجھ کر سر ہلاتی ہوئی کہنے لگی۔
”آپ اتنے ہی مضبوط اعصاب کی مالک ہیں یا پھر میرے سامنے بن رہی ہیں؟“۔وہ ہر بات اتنے عام اور سنجیدہ انداز میں پوچھ رہی تھی کہ وہ چونکے بنا نہ رہ سکا۔
”مجھے تمہارے سامنے ایکٹنگ کر کے کوئی ایوارڈ نہیں ملنا۔ اتنے فضول سوال کی توقع مجھے تم سے نہیں تھی“۔فاطمہ افسوس سے اُسے دیکھ کر بولی۔
”تو کیا آپ نے مجھ سے امیدیں بھی وابستہ کر لی ہیں؟“۔ وہ بغیر شرمندہ ہوئے معنی خیز انداز میں پوچھا۔
”تمہارا کام ختم، اب جاؤ“۔فاطمہ اپنی گاڑی نظر آتے ہی اُسے ہری جھنڈی دکھا دی۔وہ اس کے انداز پر ہنس پڑا۔
”ڈرائیو سیو“۔اس کی پیچھے سے آتی آواز پر فاطمہ مڑی۔ سیاہ بلاک ہیلز میں اُس کے قدم مزید حسین لگ رہے تھے۔
”اگلی دفعہ اگر ملے تو تمہارے چہرے سے یہ نقاب لازمی اتاروں گی۔سوچ سمجھ کر آنا“۔مسکراہٹ دبائے وہ بلند آواز میں بولی۔
”دیکھتے ہیں“۔وہ مسکرا کر ہاتھ ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 3
