Uncategorized

Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 4


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
”افسوس ہوا “۔ارمان نے دھیرے سے کہا۔احسن کی گمشدگی کی بات ہر جگہ پھیل گئی تھی۔وہ اپنی ماں کے ساتھ ہسپتال آئی ہوئی تھی،جہاں اتفاقاً اُسے ارمان شاہد مل گیا۔اُس کی نظریں ماریہ کے چہرے پر ٹھر سی گئیں۔ ”آنٹی کی طبیعت کیسی ہے؟“۔کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد اُس نے آہستگی سے پوچھا۔وہ دونوں ڈسپنسری کے قریب ہلکے سایہ دار پیڑ کے نیچے کھڑے تھے۔
”بہتر ہیں۔ دوائیاں لینے آئی تھی“۔ماریہ نے اپنی آنکھیں جھکاتے ہوئے سر ہلایا اور شاپر کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ہسپتال کا ماحول اپنی مخصوص اداسی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ڈسپنسری کے قریب ایک بینچ پر بیٹھے مریض اور تیماردار اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔اردگرد کے درختوں کے پتوں پر ہلکی ہوا نے لرزش پیدا کر دی تھی،اور کہیں دور سے اسٹریچر کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔فضا میں جراثیم کش دواؤں کی ہلکی خوشبو رچی ہوئی تھی، جو ہسپتال کی ہر دیوار اور کونے میں موجود تھی۔
”فاطمہ کیسی ہے؟“۔ارمان نے اپنی نظروں میں تجسس اور دکھ سموئے ہوئے سوال کیا۔ماریہ کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا۔
”شادی ہو گئی ہے اُس کی… اُسی شخص کے ساتھ“۔اُس نے گہری سانس لی تھی۔جیسے کوئی بھاری بوجھ ہو سینے پہ۔ یہ سن کر ارمان کے ماتھے پر شکنیں ابھریں۔
”یہ کیا کیا آپ لوگوں لوگوں نے؟فاطمہ ایسی نہیں تھی“.اُس کی آواز میں حیرانی اور افسوس گھل گیا۔ماریہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
”جانتی ہوں،یہ نکاح گھر والوں نے زبردستی کروایا ہے۔ جانتی ہوں،اُس کے ساتھ ظلم ہوا ہے… یہی دکھ مجھے اندر سے بےچین کیے جا رہا ہے“۔۔وہ بےبسی سے بول رہی تھی۔
”آئیے،وہاں بیٹھتے ہیں“۔اس نے لکڑی کی بینچ کے جانب اشارہ کیا۔وہ سر ہلاتی چھوٹے قدم لیتی بینچ تک آئی۔
”پریشان ہیں؟مجھ سے شیئر کر سکتی ہیں“۔اس کی آواز میں نرمی، اعتماد اور گہرائی تھی،جو ماریہ کے دل کو تھوڑا قرار دے گئی۔
”مجھے سمجھ نہیں آ رہا…احسن ناجانے کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟میں جانتی ہوں،فاطمہ کا کوئی قصور نہیں۔ اُنہیں میری ضرورت تھی،لیکن میں اُن سے بات تک نہ کر سکی۔یہ سب کیوں ہوا؟“۔اُس کی آواز بھرا گئی اور وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگی۔
”ماریہ،روئیں مت۔سب ٹھیک ہو جائے گا“۔اُس کی تسلی بھری آواز میں ایک سکون تھا۔ ماریہ نے اچانک اپنے ارد گرد دیکھا۔لوگ آ جا رہے تھے،کچھ بیمار،کچھ پریشان۔وہ اپنی حالت پر شرمندہ سی ہو گئی اور جلدی سے آنسو صاف کرنے لگی۔
”سوری“۔تیزی سے آنسو صاف کرتی،وہ شرمندگی سے گویا ہوئی۔
”یہاں دیکھیں،رونے سے منع اس لیے نہیں کیا کہ لوگ دیکھ کے کیا سوچیں گے۔مججے لوگوں کی پروا نہیں۔آپ رو کر خود کو تکلیف دے رہی ہیں،اس لیے“۔ ماریہ نے اُسے حیرت سے دیکھا۔اُس کی براؤن ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس صاف ستھری شخصیت، ہلکی داڑھی، اور پرسکون انداز اُسے بہت باوقار بنا رہا تھا۔
”کیا آپ احسن کو ڈھونڈ نہیں سکتے؟“۔اُس نے بےحد امید بھری نظروں سے پوچھا۔
”اگر آپکی آنکھوں میں نہیں دیکھتا،تو میرا جواب نہیں ہوتا۔لیکن اب،مجھے اُسے ڈھونڈنا ہوگا،ہر حال میں“۔۔اس کی آواز میں بہت سے جذبات امڈ آئے۔ماریہ ابراہیم نظریں چرا گئی۔وہ سر جھکاتے ہنس دیا۔
”کیوں ہنس رہے ہیں؟“۔بال کو کان کے پیچھے کرتی،وہ کچھ خفگی سے پوچھی۔
”بس ایسے ہی“۔وہ مسکرایا۔اُس کی بےنیازی میں ایک عجیب کشش تھی۔”کچھ اور بھی کہنا ہے؟“۔اسے اپنی جانب تذبذب کے عالم میں دیکھتا پاکر،خود ہی پوچھ کر اسکی مشکل آسان کردی۔
”فاطمہ کی خیریت معلوم کر کے بتا دیں گے؟وہ ٹھیک تو ہے؟“۔وہ ہچکچاتے ہوئے انگلیوں کو آپس میں مڑوڑنے لگی۔
”معلوم کرتا ہوں۔اور کچھ؟“۔ارمان نے تابعداری سے پوچھا۔
”آپ کسی بات سے انکار کیوں نہیں کررہے؟“۔وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔
”کیونکہ مجھے یہ مشکل لگ رہا ہے“۔ارمان نے بےنیازی سے کندھے اچکائے۔
”کیا؟“۔بےساختہ انداز تھا۔
”انکار کرنا“۔وہ لمحے بھر کے لیے رکا اور مسکراتے ہوئے بولا۔
”بہت شکریہ۔اب میں چلتی ہوں“۔وہ تیزی سے کھڑی ہوگئی تھی۔
”شکریہ کی ضرورت نہیں۔ہاں، اگر نمبر دے دینگی تو آسانی ہو گی اطلاع دینے میں“۔اس کے ساتھ وہ بھی کھڑا ہوگیا۔وہ اس کے کندھوں تک آتی تھی۔ماریہ نے نمبر لکھوا دیا۔اُن کی بات ہمیشہ رسمی رہی تھی،لیکن آج کی ملاقات مختلف تھی۔
”کوئی بھی مسئلہ ہو مجھے بتائیے گا“۔ارمان نے سنجیدگی سے کہا،ماریہ ممنون نگاہوں سے اسے دیکھتی سر ہلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔پیچھے کھڑا وہ اسے دیکھتے رہ گیا۔
گھڑی کی سوئیاں دوپہر کے دو بجا رہی تھیں۔کمرے میں خاموشی اس طرح گونج رہی تھی جیسے کسی ویران میدان میں ہوا کی سرسراہٹ سنائی دے۔فاطمہ کمال، مہرون رنگ کے جوڑے میں ملبوس،بیڈ کے کنارے پر بیٹھی ہوئی تھی۔وہ دبیز قالین پر جھکے ہوئے اپنے نازک ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی،جو بےچینی سے اپنی انگلیوں کو مروڑ رہے تھے۔سر پر مہرون شیفون کا ڈوپٹہ بڑی بےترتیبی سے رکھا ہوا تھا،اور اس کی چند بھورے بالوں کی لٹیں ڈوپٹے کی قید سے آزاد ہو کر اس کے رخساروں سے کھیل رہی تھیں۔ بائیں کلائی میں براؤن اسٹریپ والی گھڑی وقت کی گواہ بنی ہوئی تھی۔
کل رات سے لے کر اب تک وہ اس بند کمرے میں تنہائی کے گھنے سائے میں گھری ہوئی تھی۔نہ کچھ کھایا تھا،نہ کوئی بات کی تھی۔صبح ملازمہ ناشتے کی ٹرے لے کر آئی تھی، مگر اس نے اسے واپس بھجوا دیا۔بھوک سے اس کے معدے میں ہلچل ہو رہی تھی،لیکن ناجانے کیوں وہ ضد کی زنجیروں میں خود کو جکڑے بیٹھی تھی۔
کمرے کی کھڑکی کے پار، گہرے نیلے آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے ہوا کے دوش پر تیر رہے تھے۔باغ کے سرسبز درختوں کی شاخیں ہوا کے نرم جھونکوں میں جھول رہی تھیں۔
اچانک دروازے کے کھلنے کی آواز نے فاطمہ کو چونکا دیا۔ وہ تیزی سے پلٹی اور چند لمحوں کے لیے اس کی دھڑکن جیسے رک گئی۔دروازے کے درمیان فاز عالم کھڑا تھا،ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے ہوئے۔وہ دروازہ اپنے پیر سے بند کرتے ہوئے اندر داخل ہوا۔کل رات سے،اب وہ سامنے آیا تھا۔
”کھانا کھا لیں“۔اس نے ٹرے کو سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔اس کی آواز میں ایک عجیب سی سنجیدگی تھی۔

”میں تمہارے حرام کے پیسوں کا کھانا نہیں کھاؤں گی“۔فاطمہ نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور پھنکارتے ہوئے کہا۔
اس کی بات پر فاز عالم ہنس دیا۔
”سیریسلی؟ یہ جس بیڈ پر آپ بیٹھی ہیں، یہ بھی میرے حرام کے پیسوں سے آیا ہے“۔اپنی گہری مسکراہٹ کے ساتھ وہ اسے دیکھنے لگا۔
فاطمہ کمال کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ وہ فوراً بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اسے ناگواری سے دیکھتے ہوئے کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔سورج کی روشنی کھڑکی کے شیشے سے چھن کر اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی،اور وہ روشنی اس کی بےبسی کو مزید نمایاں کر رہی تھی۔
”یہ جس فرش پر آپ کھڑی ہیں،اس پر لگا ماربل بھی میرے حرام کے پیسوں کا ہے“۔فاز عالم نے اس کے زچ چہرے کو دیکھتے ہوئے مزید کہا۔وہ اپنی بات کو دہرانے میں خاص لطف محسوس کر رہا تھا،جبکہ فاطمہ بےچینی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
”یہاں بیٹھنا اور کھڑے ہونا میری مجبوری ہے۔اللہ پاک مجھے معاف کر دیں گے“۔اس کی آواز دھیمی مگر دکھ سے بھری ہوئی تھی۔
”تو کھانا کھانا بھی آپ کی مجبوری ہے۔یقین مانیں، اللہ آپ کو معاف کر دیں گے۔کھا لیجیے، کیونکہ اب آپ کو یہی رہنا ہے“۔فاز عالم نے ایک لمحے کے لیے اس کی بات کو نظرانداز کیا اور کھانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔یہ کہتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے مڑا اور کمرے سے باہر نکل گیا،دروازہ بند ہونے کی آواز کمرے میں دیر تک گونجتی رہی۔
فاطمہ نے پلٹ کر ٹرے کی طرف دیکھا، مگر اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔اس نے اپنی نظریں آسمان پر ڈال دیں۔
”کہاں ہو،احسن؟میرے بھائی؟دیکھو،میری آنکھیں بار بار بھیگ رہی ہیں“۔
اس کے ذہن کے پردوں پر احسن کی وہ آخری بات گونجنے لگی۔
”جب بھی کوئی آپ کو رلانا چاہے گا،تو آپ اپنی آنکھوں میں آنسو لانے سے پہلے مجھے بتائیے گا۔میں اس کا منہ توڑ دوں گا“۔
یہ یاد، یہ الفاظ، اس کے دل میں کسی زخم کی طرح تیر رہے تھے۔وہ کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی، جہاں سورج کی روشنی رفتہ رفتہ مدھم ہو رہی تھی۔اس لمحے، کمرے کی ہر چیز جیسے اس کے دکھ کو خاموشی سے محسوس کر رہی تھی۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on