Uncategorized

Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 4


اسے ایک ہفتے ہوگیا تھا مینشن آئے۔دن کے آخری پہر کا سکوت مینشن کی وسیع دیواروں میں ٹھہرا ہوا تھا، جیسے وقت نے تھوڑی دیر کے لیے سانس روک لی ہو۔ فاطمہ کمال بڑے ہال میں کھڑی تھی، جہاں دیواروں پر لگی بھاری پینٹنگز اور چھت سے جھولتا خوبصورت فانوس اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔ مگر فاطمہ کے چہرے پر جو بےچینی تھی، وہ اس سجے سنورے ماحول کو بھی بےجان بنا رہی تھی۔
”تمہارے سر کدھر ہیں؟“۔فاطمہ کا لہجہ کڑا تھا، اس کی آنکھوں میں عجیب سی تپش تھی جو اندر ہی اندر بھڑک رہی تھی۔ فاطمہ کمال اس مینشن کے لیے پہلے کی طرح کی نرم گو،معصوم لڑکی نہیں تھی۔اس کا تلخ رویہ ملازموں کو کھٹک رہا تھا،مگر وہ کہنے کی جرات نہ رکھتے تھے۔
”میم، وہ سر میٹنگ میں بزی ہین“۔ملازمہ نے ہوئے جواب دیا۔فاطمہ کی ہونٹوں پر ایک تلخ ہنسی بکھری۔
”میٹنگ؟یہ کہو کہ حرام کاموں کی پلیننگ میں مصروف ہے“۔اس کے الفاظ تیر کی طرح نکلے اور ماحول میں گونجنے لگے۔
”آپ تو حلال کاموں کی پلیننگ کرتی ہیں نا،فاطمہ کمال۔ بس یہی دھیان رکھیے کہ کہیں کوئی حرام کام سرزد نہ ہو جائے“۔پیچھے سے برف سی ٹھنڈی آواز آئی۔
اس آواز نے فاطمہ کو ساکت کر دیا۔ وہ ٹھٹک گئی، جیسے ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ہو۔اگلے ہی لمحے اس نے خود کو سنبھالا اور گردن موڑ کر دیکھا۔ملازمہ جا چکی تھی،اور دروازے پر فاز عالم کھڑا تھا،اپنی مخصوص پراسرار سنجیدگی کے ساتھ۔
”میں تمہاری جیسی نہیں ہوں۔نہ کبھی حرام کاموں کو چھوا ہے،نہ آئندہ کبھی ایسا ہوگا“۔فاطمہ نے تنی ہوئی گردن اور ناگواری سے کہا۔اس کی آنکھوں میں اپنے اصولوں کا غرور تھا۔فاز عالم کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔
”ہاں، آپ تو صوم و صلوٰۃ کی پابند، پرہیزگار فاطمہ کمال ہیں، اور کہاں میں، جو گناہوں کے دلدل میں ڈوبا ہوا ہوں“۔۔
”بالکل، تمہارا اور میرا کوئی مقابلہ ہی نہیں“۔۔فاطمہ نے گردن اور بھی اونچی کر لی.فاز عالم کو اٹھی ہوئی گردن اچھی نہیں لگی۔اس کی مغروریت کو نظرانداز کرتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھائے۔
”بالکل ٹھیک کہا۔آپ کا اور میرا کوئی لیول نہیں“۔وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہوا اوپر چڑھنے لگا۔
”رکو! مجھے تم سے بات کرنی ہے“۔فاطمہ نے بلند آواز میں کہا اور اس کے پیچھے لپکی۔فاز عالم سیڑھیوں کے درمیانی حصے میں رک گیا۔دونوں کے درمیان صرف ایک سیڑھی کا فاصلہ رہ گیا تھا۔
”جو بھی کہنا ہے،کمرے میں آ کر کہیے“۔اس نے اپنی مخصوص ٹھنڈی سنجیدگی کے ساتھ کہا اور باقی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔فاطمہ نے غصے سے پیر پٹخا اور اس کے پیچھے چل پڑی۔کمرے میں داخل ہو کر اس نے زور سے دروازہ بند کیا،جس کی آواز کمرے میں گونج اٹھی۔فاز عالم،جو دراز سے ایک فائل نکال رہا تھا،اس شور پر رک کر اسے دیکھنے لگا۔پھر دوبارہ گردن جھکا لی۔
”مجھے اپنے گھر جانا ہے“۔فاطمہ نے اپنی جگہ پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔اس کے لہجے میں ہٹ دھرمی اور آنکھوں میں ضد تھی۔
”آپ اپنے گھر میں ہی ہیں“۔اس نے بنا سر اٹھائے آرام سے کہا۔فاطمہ نے دانت بھینچ لیے۔
”مصطفیٰ ہاؤس جانا ہے مجھے“۔اس نے لفظوں کو چبا چبا کر کہا۔ فاز عالم نے اپنی مسکراہٹ چھپائی،جو اس کے لبوں تک آتے آتے رک گئی۔
”تو جائیں، کس نے منع کیا ہے؟“۔وہ اب بھی فائل پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔
”تم کچھ کرو گے نہیں؟ کسی کو نقصان نہیں پہنچاؤ گے؟“۔ فاطمہ نے خوف اور شک میں ڈوبی آواز میں کہا۔
”اس صورت میں، جب آپ شام تک واپس لوٹ آئیں گی“۔۔فائل بند کرتے ہوئے پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ ہوا۔ فاطمہ کے ہاتھ مٹھیاں بن گئے۔پچھلے ایک ہفتے میں وہ کئی بار فرار کی کوشش کر چکی تھی،اور ہر بار ناکامی کا سامنا کیا تھا۔آج،اس نے سیدھا فاز عالم سے بات کرنا بہتر سمجھا تھا۔
”تم دنیا کے سب سے برے مرد ہو۔تم قاتل ہو،صرف انسانوں کے نہیں،بلکہ ان کے سکون اور خوشیوں کے بھی“۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے چلائی۔
”کیا آپ جانتی ہیں کسی گینگسٹر کی تحویل میں رہنا کیسا ہوتا ہے؟ ایک ایک لمحہ خوف میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ سانس رک رک کر آتی ہے، نیند خواب بن جاتی ہے۔مگر آپ؟ کیا آپ نے غور کیا ہے کہ آپ کو کوئی خوف لاحق نہیں۔آپ ہر قسم کے خوف سے آزاد،یہاں کھڑے ہو کر مجھ سے اونچی آواز میں بدتمیزی کر رہی ہیں۔نہیں سوچی ہونگی نہ تو سوچیے گا۔ورنہ میں آپ کو سوچنے پر مجبور کردوں گا“۔فاز عالم نے اس کی طرف قدم بڑھایا اور برف سی ٹھنڈی آواز میں گویا ہوا۔فاطمہ کے قدم جیسے زمین میں جم گئے۔ وہ اپنی بات ختم کر کے کمرے سے نکل گیا۔ کمرے کی بھاری خاموشی میں صرف فاطمہ کی تیز سانسیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی،اور اس لمحے، پہلی بار، اس نے خوف کا وہ سایہ اپنے دل میں سرسراتے ہوئے محسوس کیا۔
لاؤنج کی خاموش فضا میں اچانک ہلکی ہلکی چاپ گونجنے لگی۔مضبوط قدموں کی چاپ،جیسے کسی نے اپنے ارادوں کو زمین پر نقش کر دیا ہو۔فاطمہ کمال، پستہ رنگ کی فراک اور ہم رنگ ٹراؤزر پہنے،کندھے پر گلابی اور پستہ رنگ کا ہلکا سا دوپٹہ ڈالے،دروازے سے اندر داخل ہوئی۔اس کے لمبے بھورے بال کھلے تھے،حسب معمول بو لگایا ہوا تھا۔اور ہونٹوں پر گلابی لپ اسٹک کی چمک نمایاں تھی۔اس کے قدموں میں خوداعتمادی تھی۔
لاؤنج میں موجود ہر آنکھ اسے دیکھ کر ٹھٹک گئی۔وہ فاطمہ کو اس روپ میں دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ لمحوں میں حیرانی غصے میں بدل گئی۔
”تم… تم یہاں کیا کر رہی ہو؟“۔دادی سکینہ کی کرخت آواز لاؤنج کی خاموشی کو چیر گئی۔
”میکے آئی ہوں،دادی۔کیا مجھے بیٹھنے کا نہیں کہیں گی؟ بلکہ کہیں گی بھی کیوں؟اپنے ہی گھر میں کیا کوئی دوسرا بیٹھنے کا کہے گا؟“۔اس کے لہجے میں ایک معصوم طنز چھپا تھا،اور وہ آرام سے صوفے پر بیٹھ گئی۔
”تمہاری جرات کیسے ہوئی؟ابھی اسی وقت کھڑی ہو اور دفع ہو جاؤ اپنی منحوس شکل لے کر“۔چچی ہانپتے ہوئے غصے سے چلائیں۔ماریہ نے فوراً آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیا اور بیٹھایا۔چچی کے چہرے پر کمزوری کے آثار نمایاں تھے، لیکن غصہ اب بھی ان کی آنکھوں میں دہک رہا تھا۔
”کیوں آئی ہو؟چاہتی کیا ہو تم؟ تم جیسی بدکردار لڑکی کی اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔کر لی ہے اپنی پسند کی شادی؟اب رہو وہیں،کیوں ہماری جان عذاب میں ڈالنے آگئی ہو؟“۔پھوپھی ریحانہ کا زہر بھرا لہجہ کمرے کی فضا کو مزید بوجھل کر گیا۔یہ لفظ “بدکردار” فاطمہ کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہوا۔اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، اور وہ صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”میں نے کی ہے اپنی پسند سے شادی؟ یا آپ لوگوں نے زبردستی کروائی ہے؟“ اس کی آواز کانپ رہی تھی، لیکن اس میں جو طاقت تھی، وہ سب کو چپ کرا گئی۔
”مام سے تمیز سے بات کرو فاطمہ“۔علینہ تیز لہجے میں بولی۔
”تم مجھے تمیز نہ سکھاؤ تو بہتر ہے“۔ایک کاٹ دار نگاہ اس پر ڈالی تو وہ اچانک ہی پیچھے ہوگئی۔احسن کی کڈنیپنگ میں علینہ کا ہاتھ نہیں تھا۔اس لیے فاطمہ کمال فلوقت اسے چھوڑ دی تھی۔
”ہم پر الزام لگاتی ہو، لڑکی؟ خود ناجانے کیا کیا کرتی رہی ہو، اور اب ہمیں قصوروار ٹھہرا رہی ہو؟اس گھر کو عذاب میں ڈال دیا۔احسن ابھی تک لاپتہ ہے،اور اپنے بابا کے سامنے اچھی بننے کے لیے ڈرامے کیے جا رہی ہو“۔۔دادی سکینہ برہمی سے بولی۔
فاطمہ نے ایک گہری سانس لی، اپنی آنکھوں میں موجود نمی کو روکنے کی کوشش کی، اور دادی کے قریب جا کر ان کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
”اچھے لوگوں کو اچھا بننے کی اداکاری نہیں کرنی پڑتی۔ جیسے آپ لوگوں کو کرنی پڑتی ہے،میرے بابا کے سامنے۔آج بتا ہی دیں، کیوں کرتی ہیں مجھ سے اتنی نفرت؟“۔
”جاننا چاہتی ہو؟ تو سنو۔ سوتیلی ہو تم۔ اس گھر میں تمہارے باپ کے علاوہ تمہارا کوئی سگا رشتہ نہیں ہے۔ ماریہ اور احسن بھی نہیں۔یہی وجہ ہے۔اب یہ بات جان گئی ہو، تو یہاں سے چلی جاؤ،اور پلٹ کر کبھی مت آنا“۔دادی سکینہ نے ایک لمحے کے لیے اسے گھورا، پھر تلخ لہجے میں تلخ داستان سنادی۔دادی کے الفاظ کسی زہر کی طرح فاطمہ کی رگوں میں اتر گئے۔اس کے قدم لڑکھڑائے، مآنکھیں دھندلا گئیں،اور لگا کہ لاؤنج کی چھت اس پر آ گری ہو۔یوں لگا اب وہ اس ملبے سے خود کو نکال نہیں پائے گی۔
”آپ؟ آپ لوگ؟ ماریہ، تم…“۔ اس کے ہونٹوں سے بےربط الفاظ نکلے۔ آواز لرز رہی تھی، جیسے دل کی گہرائیوں سے چیخ رہی ہو۔ماریہ قریب آتے اسے اپنے ساتھ لگائی تھی۔کئی آنسو اس کے کندھے بھیگو گئے۔لاؤنج میں موجود ہر دل سخت تھا۔ کوئی بھی ان کے آنسوؤں سے متاثر نہ ہوا۔
”یہ ڈرامہ بند کرو اور جتنی جلدی ممکن ہو، یہاں سے نکل جاؤ“۔تائی کی کرخت آواز گونجی۔ فاطمہ نے آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کی۔ مگر اس کے دل میں طوفان برپا تھا۔
”بس کر دیں آپ لوگ۔کس مٹی کے بنے ہیں؟ اتنے بےرحم، اتنے ظالم؟ آپ لوگوں سے تو اللّٰہ حساب لے گا“۔۔وہ خود بھی اس حقیقت سے انجان تھی۔برادشت سے باہر ہوا تو چیخ پڑی۔
”ماریہ، درمیان میں مت بولو“۔چچی نے اسے گھوری، لیکن ماریہ نے ان کی بات کو نظرانداز کر دیا۔
”آپ لوگ چاہتے ہیں نا کہ یہ یہاں سے چلی جائے؟ یہ چلی جائیں گی۔آدھا گھنٹہ دیں، صرف آدھا گھنٹہ“۔ماریہ نے سرد لہجے میں کہا اور فاطمہ کا ہاتھ تھام کر اسے اس کے پورشن کی طرف لے گئی۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on