ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاخر کی آواز نے اسے جیل کے کمرے سے حال میں لاپٹخا۔
”اب تمہیں یقین ہوگیا ہوگا کہ وہ کوئی آسان ہدف نہیں ہے؟“۔فاخر نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”وہ اس لڑکی کو حاصل کرنا چاہتا تھا،کسی اور مقصد کے لیے،لیکن وہ اس کی کمزوری نہیں تھی۔ہم نے تمہارے کہنے پر یقین کر لیا کہ وہ اس عورت کی محبت میں مبتلا ہے“۔۔شاہد عباسی سنجیدگی سے گویا ہوئی۔
”اب کی بار سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا۔ یہ تمہارے بس کی بات نہیں“۔۔
”انسان کبھی نہ کبھی تو مات کھاتا ہے، اور وہ بھی کھائے گا“۔۔زوہیب انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔
”کر لو شوق پورا، لیکن یاد رکھو، اب کی بار ہم تمہیں بچانے نہیں آئیں گے“۔۔فاخر سلمان طنزیہ اسے دیکھے۔
فاطمہ کا دل ایک گہرے سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ماریہ اس کے قریب بیٹھی، اس کی حالت دیکھ کر بےچینی سے سوال کر رہی تھی۔
”فاطمہ، آپ ٹھیک ہیں نا؟“۔اس کی آواز میں محبت اور فکر تھی۔
”میں ٹھیک ہوسکتی ہوں کیا؟“۔یہ سوال خود میں ایک کرب تھا۔اس کی آنکھوں میں نمی اور گہری تھکن تھی
”میں پھوپھی دادی کے رویے کے بارے میں نہیں پوچھ رہی، آپ اُس گھر میں ٹھیک ہیں؟ وہ آپ پہ ظلم تو نہیں کرتا نا؟“۔ماریہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے، پوری حساسیت سے کہہ رہی تھی۔
”ظلم؟“۔وہ ایک لمحے کے لیے گم ہو گئی۔”ایک ہفتہ گزر گیا ہے لیکن اسنے کچھ کہا ہی نہیں۔سمجھ ہی نہیں آتا وہ مجھے کیوں حاصل کرنا چاہتا تھا؟اُس گھر میں مجھے ہر چیز میسر ہے، اگر کچھ نہیں تو وہ رشتے ہیں“۔۔اس کی آواز میں ایک غمگین سرگوشی تھی
”وہ کون سا یہاں آپ کو میسر ہیں؟ یہ سب آپ کو اس گھر میں دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔آپ جو کچھ بتائی ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ آپ کچھ دن وہی رہیں فاطمہ۔مجھے لگتا ہے آپ وہاں محفوظ رہیں گی“۔۔ماریہ کی آنکھوں میں غم اور اضطراب تھا۔
”محفوظ؟“۔فاطمہ کی آواز میں ایک دلخراش درد تھا۔”کیا میں ایک گینگسٹر کے ساتھ محفوظ ہو سکتی ہوں؟کیا پوری دنیا میں وہ شخص ہی میرا نصیب تھا؟“۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے تھے،وہ ایک ادھورے خواب کی طرح بیٹھی تھی۔
”آپ کے پاس ابھی کوئی آپشن نہیں ہے سوائے وہاں رہنے کے۔ جب تک تایا ابو نہیں آ جاتے، آپ وہاں رہیں۔پھر ہم کچھ کریں گے“۔۔وہ سمجھداری سے کہ رہی تھی
”بابا؟ ان کی مرضی سے تو ہوا ہے سب۔ میں بے قصور تھی۔ اگر قصوروار بھی ہوتی تو میرا گناہ اتنا بڑا نہیں تھا کہ انھوں نے میری زندگی ایک گینگسٹر کے ساتھ جوڑ دی“۔ اس کے لہجے میں شکایت اور مایوسی کی کرچیاں تھیں۔
”تایا ابو سے بدگمان مت ہو فاطمہ۔ کیا آپ کی اور ان کی اب تک بات ہوئی ہے؟ نہیں ناں؟ تو پہلے بات کریں ان سے، پھر کوئی رائے قائم کرنا۔آپ یہاں سے اپنی ضروری چیزیں لے لیں،تب تک میں آتی ہوں“۔۔اس کی آواز میں نرمی تھی۔
ماریہ نے اس کی حالت کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے، اسے گلے لگا لیا ۔”پریشان مت ہوں،سب ٹھیک ہو جائے گا“۔ اس کی باتوں میں ایک حوصلہ تھا جس نے فاطمہ کی بے بسی کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ لفاطمہ کا دل ان الفاظ کے زیر اثر تھا، اور وہ دھیمی چال سے اٹھ کر کمرے میں چلنے لگی۔ اس کے قدم خود بخود الماری کے پاس جا کر رکے۔ وہاں رکھی ہر چیز، ہر لباس جیسے ایک غمگین یاد کی گواہی دے رہا تھا۔
فاطمہ نے الماری کے دروازے کھولے، اور اندر لٹکے ہوئے بے شمار کپڑوں کو چھو کر ایک ایک یاد کو زندہ کر لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بے آواز بہنے لگے تھے۔
”بابا آئی ایم مسنگ یو۔آئی نیڈ یو بابا۔جلدی آجائیں“۔ اس کی بلو میکسی میں ساری محبت کا عکس تھا۔وہ مزید اندر بڑھتی گئی اور ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آئی۔ ہر رنگ کی گھڑی،ہر ڈیزائن کی گھڑی، اور ان سب گھڑیوں میں وہ دو لال رنگ کی بیلٹ والی گھڑیاں عابد کی دی ہوئی تھیں۔ ان گھڑیوں کے ساتھ وہ لمحے جڑے ہوئے تھے جو ایک یاد بن چکے تھے۔
”اتنی ساری گھڑیوں کے ہوتے ہوئے بھی میری زندگی کی گھڑی رک گئی ہے۔یہ ساری چل رہی ہیں لیکن میں رک گئی ہوں۔فاطمہ کمال رک گئی ہے“۔ اس نے آئینے میں اپنی بھیگی ہوئی آنکھوں کو دیکھا۔”میرے ساتھ ہی کیوں ہوا یہ؟“۔آئینے میں نظر آتے اپنے عکس سے پوچھا۔اس نے دونوں ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے، اور پھر ایک دم اپنی طاقت سے ساری چیزوں کو دھکیل دیا۔ شیشے کا شوپیز ٹوٹ کر زمین پر بکھر گیا، اور فاطمہ کے ہاتھ زخمی ہوگئے۔۔
”فاطمہ!آپ….“ماریہ تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی،ہاتھ میں پکڑا باکس بیڈ پر اچھالا پھر تیزی سے اس کے پاس آئی، اور اس کے ہاتھ کو صاف کرنے لگی۔ لیکن پھر اچانک رکی اور فاطمہ کی طرف دیکھا، جو بے تاثراتی کے ساتھ بیٹھی تھی۔
”یار کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ کیوں کر رہی ہیں ایسا؟“۔ماریہ بےبسی سے بھیگی آنکھیں لیے اسے دیکھی
”ماریہ پریشان مت ہو۔آئی ایم اوکے“۔فاطمہ کی آواز میں ایک کمزوری تھی، لیکن اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔اس کی آنکھوں میں ماریہ کے لیے شکرگزاری تھی۔
”اپنی حالت دیکھ رہی ہیں؟ کیسے پریشان نہ ہوں؟ ادھر دکھائیں اسے“۔غصے سے اس کا تھامتی وہ پائیوڈین لگاتی جا رہی تھی۔
”تھینک یو ماریہ“۔بینڈیج ہوتے ہی فاطمہ نے تشکر سے اسے دیکھا۔”مجھے اب جانا چاہیے۔کافی وقت ہوگیا ہے“۔وہ اپنے کپڑے سیدھے کرتے ہوئے کھڑی ہوئی۔ماریہ سر ہلا گئی۔
”اپنا بہت خیال رکھیے گا اور آئندہ اس طرح کی حرکت مت کریے گا۔۔اور ہان یہ اپنے ساتھ لے کے جائیں“۔ماریہ نے ایک سنہری رنگ کے ڈبے کا حوالہ دیتے ہوئے اسے پکڑایا۔
”میں یہ کیسے؟“۔فاطمہ کی آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔
”احسن یہ آپ کی شادی پہ دینے والا تھا نا؟ اور اب آپ کی شادی ہوگئی ہے۔ وہ ہوتا تو آپ کو دیتا، خیر وہ نہیں، میں تو ہوں نا“۔ماریہ کی آواز میں گہری اداسی تھی۔
”میری وجہ سے نہیں جانے کہاں ہے وہ؟“۔ڈھیروں ملال لیے وہ آنکھیں بند کرگئیں۔
”مجھے یقین ہے فاطمہ، وہ واپس آئے گا ہمارے پاس“۔ماریہ نے اس کے ہاتھ کو تھامتے ہوئے کہا۔
”خدا حافظ ماریہ“۔فاطمہ نے ماریہ کو گلے لگایا، پھر کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا پرس اٹھایا اور چپ چاپ باہر نکل گئی۔
اس کے قدم لاؤنج کی طرف بڑھتے گئے، پھر پورچ کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے کسی کی طرف نہیں دیکھا، بس تیز تیز قدم اٹھاتی چلی گئی۔اس کے دل کی دھڑکن ایک پراسرار سکوت میں بدل چکی تھی۔
جاری ہے