Uncategorized

Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 4


آج فاطمہ کمال کی مہندی تھی۔گہری شام کے سائے دھیرے دھیرے لان پر پھیل چکے تھے۔رنگین قمقموں کی روشنیوں اور گیندے کے پھولوں نے فضاء کو خوابناک بنا دیا تھا،ہوا میں تازگی اور پھولوں کی مہک گھلی ہوئی تھی۔جس نے ہر دل کو ایک خوشگوار کیفیت میں مبتلا کر دیا تھا۔ مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا،قہقہوں اور گپ شپ کی آوازیں ماحول میں گھلی ہوئی تھیں۔کمال صاحب، جو حال ہی میں یورپ سے بزنس کے سلسلے میں واپس لوٹے تھے،سفید کاٹن کے لباس کے اوپر بھوری واسکٹ پہنے اپنی باوقار شخصیت کے ساتھ سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ان کی بلند قامت، گہری آواز اور شاندار شخصیت نے ہر کسی کو متاثر کر رکھا تھا۔
”فاطمہ، آپ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی ہیں“۔ماریہ مسکراہٹ لیے اسے دیکھی۔فاطمہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔پیلے اور سنہری رنگ کے فراک میں وہ جگمگا رہی تھی،جیسے صبح کا سورج طلوع ہوتے وقت دھیرے دھیرے اپنے نور سے زمین کو روشن کررہا ہو۔ہلکے میک اپ کے ساتھ وہ کسی شہزادی کی مانند لگ رہی تھی۔ ماریہ کے تعریف کرنے پر اس نے ایک بار پھر آئینے میں خود کو دیکھا۔وہ واقعی حسین لگ رہی تھی۔مگر دل کی بےچینی اسے سکون لینے نہیں دے رہی تھی۔
”ماریہ، پانی لا دو، پلیز“۔ وہ بےچینی سے ڈوپٹہ سنبھالتے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ڈوپٹے کے کنارے موتیوں سے مزین تھے۔
”فاطمہ، آپ ٹھیک تو ہیں؟“۔ماریہ نے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا۔
”ہاں،بس طبیعت کچھ عجیب محسوس ہو رہی ہے“۔فاطمہ نے گلاس لے کر ایک ہی سانس میں پانی پی لیا۔
”تھکن کی وجہ سے۔بس رسم کے لیے تھوڑی دیر نیچے بیٹھ جائیے گا۔پھر واپس روم میں آکر آرام کرلیے گا۔کل بارات بھی ہے“۔ماریہ اس کے ماتھے پر ہلتے جھومر کو ٹھیک کرتے ہوئے نرمی سے بولی۔اسی دوران علیشبہ کمرے میں داخل ہوئی۔علیشبہ زاہد،علینہ زاہد کی چھوٹی بہن۔اور اس سے بالکل مختلف۔
”مامی کہہ رہی ہیں،فاطمہ آپی کو نیچے لے آئیں“۔
”چلیں، چلتے ہیں“۔ماریہ نے فاطمہ کا دوپٹہ سنوارا اور اس کے ساتھ چل دی۔دائیں طرف ماریہ تھی۔بائیں طرف علیشبہ۔لان میں روشنیوں اور خوشبوؤں کا حسین امتزاج تھا۔ان چمکتی روشنیوں کے درمیان وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی۔اس کا لباس اور زیور روشنیوں میں جھلملا رہے تھے۔سہج سہج کر چلتی وہ کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔اسٹیج پر عابد پہلے ہی موجود تھا۔عابد نے آگے بڑھ کر فاطمہ کا ہاتھ تھاما اور اسے اسٹیج پر چڑھنے میں مدد دی۔رسم کا آغاز ہوگیا تھا۔مہمانوں کی آنکھیں خوبصورت سی دلہن سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔سب باری باری آکر رسم کرنے لگے تھے۔
”فاطمہ تم ابھی تک اتنی پتلی ہو؟موٹی نہیں ہونا؟کھانا نہیں کھاتی ہو کیا؟“۔۔دادی سکینہ کی بھانجی جو گاؤں میں رہتی تھیں،وہ رسم کرنے آئی تو ہمیشہ کی طرح شروع ہوگئیں۔فاطمہ نے زبردستی کی مسکراہٹ سجائے انھیں دیکھا۔دلہن نا بنی ہوتی تو ضرور کہتی اسپیشل پاور ہے فاطمہ کمال کے پاس،بنا کھائے زندہ رہتی ہے۔عجیب سوال کرتے ہیں یہ لوگ بھی۔ارے بھئی کھاتی ہوں تو زندہ ہوں ناں۔فاطمہ کمال سر جھٹک گئی۔
”منیبہ بھابھی آپ کی بہو تو بہت پتلی دبلی ہے اب آپ ہی اسے کھلا پلا کر موٹا کریے گا“۔۔اب وہ ہنستے ہوئے تائی(عابد کی ماں)سے مخاطب تھی۔
”اماں ہی کو عابد کے لیے یہ اتنی پسند آئی تھی،اب کیا کرسکتے ہیں“۔۔ان کی مسکراہٹ ان کے لہجے کی کرواہٹ نہیں چھپا سکی۔فاطمہ ضبط سے مٹھیاں بھینچی۔
”اسی وجہ سے تو ہم بدنام ہیں،سب تو یہی سمجھیں گے بن ماں کی بچی کے ساتھ زیادتی ہورہی“۔۔دادی سکینہ نخوت سے گفتگو میں حصہ لی۔
”اچھا خالہ یہ تو وہی سیٹ ہے ناں جو کمال بھائی علینہ کے لیے لائے تھے؟“۔۔فاطمہ جو زیور پہنی ہوئی تھی اس کی طرف اشارہ کرتی وہ سوالیہ انداز میں بولی۔
”ہاں ہاں وہی ہے،رو دھو کر اس نے لے لیا۔کمال کوئی چیز لائے اور یہ ہم میں سے کسی کو لینے دے دے۔۔کبھی نہیں“۔۔دادی سکینہ کا جواب سن کر فاطمہ سن رہ گئی۔یہ سیٹ تو بابا اس کے لیے ہی لائے تھے۔تب دادی نے کہا تھا اتنا قیمتی زیور ہے میرے پاس رکھوادو۔جب پہننا ہو مجھ سے لے لینا۔تو بھلا اب یہ کیا سین تھا؟علینہ کا ذکر کیوں؟لیکن پھر وہ جلد ہی سمجھ گئی۔جھوٹی کہانی سنا کر گاؤں کے رشتےداروں کو تصویریں بھیجی گئی ہونگی۔وہ لب بھینچ کر نظریں جھکا لی۔گفتگو اب بھی جاری تھی۔
ماریہ نے نظر دوڑائی تو اچانک اس کا دل زور سے دھڑکا۔ ارمان شاہد،سیاہ کرتا شلوار میں،اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ کسی مہمان کے ساتھ گفتگو کررہا تھا۔اس کی وجاہت نے ماریہ ابراہیم کو پل بھر کے لیے ساکت کردیا۔دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہوئیں تھی۔دل پہ قابو پاتے اسنے نظریں پھیری۔لیکن شاید ان نظروں کا پیغام پڑھ لیا گیا تھا۔محبت ہمیشہ الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔یہ کبھی ایک نظر،کبھی ایک لمس،اور کبھی ایک خاموش دعا میں جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔
”اچھی لگ رہی ہیں آپ“۔ارمان کی گہری آواز نے ماریہ کو چونکا دیا۔وہ بےساختہ پلٹی۔
”جی؟“۔وہ اپنے گھیر دار گرارے سے الجھتے ہوئے خود بھی الجھی ہوئی تھی۔لیکن اسے سامنے دیکھ کر جیسے سب کچھ رک گیا تھا۔شاید سانسیں بھی۔
”تعریف دوبارہ سننا چاہتی ہیں؟“۔ارمان کے لب مسکرائے اور آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گئی۔
”نن… نہیں، شکریہ“۔وہ خجل ہو گئی۔بےمقصد بالوں کو ٹھیک کرتی ہوئی وہ ارمان شاہد کو کنفیوز سی لیکن پیاری لگی۔
”آپ تعریف نہیں کرتیں؟“۔۔اس کی آنکھوں میں موجود چمک اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر رہی تھی۔
”ایکسکیوز می“۔۔جلدی سے کہتے ہوئے وہ اسٹیج پہ فاطمہ کے پاس چلے گئی۔اس کے جائے فرار پہ وہ ہنس دیا۔محبت کی یہ خاموش کہانی اس مہندی کی چمک اور چہل پہل میں گم ہو گئی،مگر دل کی دھڑکنوں میں ایک نیا باب لکھ چکی تھی۔
”سر، آج فاطمہ کمال کی مہندی ہے“۔مراد دھیمے لہجے میں اطلاع دے رہا تھا۔ کمرے میں شام کے ڈھلتے سائے دھیرے دھیرے پھیل رہے تھے،اور فاز عالم،اپنی کرسی پر جھکا،کتاب کو بہت احتیاط سے پکڑا ہوا تھا۔نرمی سے کچھ لمحے بعد ورق پلٹتا۔
”مجھے معلوم ہے، مراد“۔فاز نے آنکھیں کتاب سے اٹھائے بغیر کہا۔اس کی آواز میں ٹھہراؤ تھا۔مراد ٹھٹک گیا۔
”تو سر، آپ کو کوئی مسئلہ نہیں؟“۔مراد نے بےاختیار حیرانی سے پوچھا۔حیرت اور تجسس اس کے لہجے سے صاف جھلک رہے تھے۔وہ فاز عالم کو بخوبی جانتا تھا، مگر آج یہ شخص، جس کی شخصیت ایک بند کتاب کی مانند تھی، اسے مکمل انجان سا لگ رہا تھا۔
”مسئلہ؟“۔فاز نے کتاب کو احتیاط سے بند کر کے مراد کی طرف دیکھا۔”مجھے مسئلہ کیوں ہوگا؟“۔اس کی نظریں،مراد پر ٹکی تھیں۔وہ نظریں گہری تھیں،جیسے ان میں کئی سمندروں کے راز چھپے ہوں۔
”آپ ان سے محبت…؟“۔جملہ ادھورا چھوڑ دیا گیا، جیسے الفاظ مراد کے لبوں سے پھسل کر کہیں کھو گئے تھے۔
”پوری بات کیا کرو،مراد۔میں ان سے محبت کرتا ہوں۔رائٹ؟“۔اس نے مراد کی بات مکمل کی۔”اگر وہ مجھے ملنی ہوں گی،تو ضرور ملیں گی۔چاہے ان کی بارات ہی کیوں نہ ہو۔اور رہی بات محبت کی تو یہ تم جلد ہی سمجھ جاؤ گے“۔
یہ کہتے ہوئے اس نے کتاب کو نہایت آہستگی سے ریک پر رکھا،جیسے کوئی مقدس چیز ہو، اور پھر اپنے مخصوص سکون سے کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس کی چال میں ایک ایسی خاموش طاقت تھی جو دیکھنے والے کو بےاختیار سحر میں مبتلا کر دیتی تھی۔
مراد وہیں کھڑا رہ گیا،حیرت زدہ۔ کمرے میں شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ہوا پردوں کو آہستگی سے ہلا رہی تھی، اور کہیں دور اذان کی آواز اس خاموشی کو اپنے اندر سمیٹ رہی تھی۔مراد نے اپنے کندھے اچکائے،اور اس کمرے سے نکل گیا۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on