Uncategorized

Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 4


”ماریہ! کہاں تھیں تم؟“۔فاطمہ نے دھیمی مگر تشویش بھری میں پوچھا۔چہرہ گلاب کی طرح دمک رہا تھا، مگر آنکھوں میں ایسی اداسی جھلک رہی تھی۔ کسی اندیشے کی غمازی کرتی ہوئیں،اداس آنکھیں۔
”میں… میں یہیں مہمانوں سے مل رہی تھی“۔ماریہ ہچکچا سی گئی۔اسے لگا فاطمہ نے ارمان اور اسے دیکھ لیا ہے۔
”احسن کہاں ہے؟“۔فاطمہ نے سوال کرتے ہوئے آس پاس نگاہ دوڑائی۔اس کی آواز میں اب ایک واضح اضطراب شامل ہو چکا تھا۔”مجھے کب سے نظر نہیں آ رہا“۔۔ماریہ نے بھی بےاختیار چاروں طرف دیکھا۔ محفل میں ہر طرف روشنیوں کا جھرمٹ تھا،خوشبوئیں ہوا میں تیر رہی تھیں، اور ہلکی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مہمان۔لیکن احسن کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔
”یہیں ہوگا، یا شاید کسی کام سے گیا ہو۔رکو، میں بابا سے پوچھتی ہوں“۔ماریہ نے اسے تسلی دی اور تیز قدموں سے اسٹیج سے اتر کر عالم ابراہیم کے پاس پہنچی۔
”بابا، احسن کہاں ہے؟“۔
”احسن؟“۔عالم ابراہیم چونک سے گئے۔”کیا مطلب، وہ ابھی تک نہیں آیا؟“۔۔
”بابا، وہ کہیں گیا تھا؟“۔ماریہ کے سوال میں اب ایک گہری تشویش جھلکنے لگی۔
”ہاں،وہ اپنے دوست شایان کو لینے نکلا تھا۔لیکن یہ تو گھنٹہ پہلے کی بات ہے۔میں مہمانوں میں مصروف ہو کر بھول ہی گیا“۔عالم ابراہیم کی آواز میں فکرمندی شامل ہو چکی تھی۔
”کال کرو اسے“۔بابا کے کہنے پر ماریہ نے عجلت اپنا موبائل نکال کر احسن کا نمبر ڈائل کیا۔فون کان سے لگاتے ہی اس کے دل کی دھڑکنیں جیسے بےقابو ہو گئیں۔
”نمبر بند جا رہا ہے، بابا“۔
”شایان کا نمبر ہے تمہارے پاس؟“۔ابراہیم صاحب نے جلدی سے پوچھا۔
”ایک منٹ، دیکھتی ہوں… ہاں، ہے“۔ماریہ نے کانٹیکٹ لسٹ میں جلدی سے نمبر تلاش کیا اور شایان کو کال ملائی۔
”السلام علیکم، شایان بھائی، احسن سے بات کروائیں“
ماریہ نے تیزی سے کہا،مگر شایان کی بات سن کر اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔”کیا؟ آپ کہہ رہے ہیں وہ آیا ہی نہیں؟ لیکن وہ تو گھنٹہ پہلے آپ کو لینے نکلا تھا“۔
”کیا کہ رہا تھا وہ؟“۔۔کال بند ہوتے ہی ابراہیم صاحب بولے.
”بابا، وہ تو شایان بھائی کے پاس پہنچا ہی نہیں۔اس کا فون بھی بند جا رہا ہے“۔فون بند کرتے ہی ماریہ نے بےچینی سے عالم ابراہیم کی طرف دیکھا۔”پلیز بابا معلوم کروائیں“۔۔ماریہ ابراہیم کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ابراہیم صاحب پریشانی کے عالم میں بڑے دونوں بھائی کے پاس پہنچے۔
یہ خبر لمحوں میں گھر کے ہر گوشے میں پھیل گئی۔جو چند لمحے پہلے ہنسی اور خوشبوؤں سے مہکتا ہوا تھا، وہ اب خاموشی کی گہری چادر اوڑھ چکا تھا۔ہر چہرے پر فکر اور بےیقینی کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔پروگرام کا اختتام کرکے مہمانوں کو رخصت کردیا گیا۔
”کہاں چلا گیا میرا بچہ؟ میرا احسن“۔چچی کی ہچکیاں لاؤنج کی خاموشی کو چیر رہی تھیں۔ان کے آنسو بےاختیار بہہ رہے تھے،اور ان کی نظریں دروازے پر جیسے کسی معجزے کی منتظر تھیں۔
”چچی، حوصلہ کریں۔ہم سب اسے ڈھونڈ لینگے“۔ عابد نے تسلی دینے کی ناکام کوشش کی۔روتے ہوئے ان کے ہاتھ بےاختیار دل پہ جارہے تھے۔تائی انھیں سنبھالنے کی کوشش کررہی تھیں۔
کمال صاحب، اچانک لاؤنج میں تیز قدموں سے داخل ہوئے، غصے اور پریشانی کے آثار سے بھرے ہوئے تھے۔
”یہ سب کیا بکواس ہے؟ایسا کیسے ہو سکتا ہے“۔ ان کی گرجدار آواز نے سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔
”اماں،ابھی جو بزنس ڈیل کرکے آیا تھا،پارٹی واپس لے رہی ہے۔نہیں گیا تو کڑوروں کا نقصان ہو جائے گا“۔فکرمندی سے سکینہ بیگم کے آگے رکتے ہوئے اطلاع دی۔پھر عابد کی جانب مڑے۔
”عابد،احسن کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کرو۔میں تم سے رابطے میں رہوں گا“۔عابد نے سر ہلایا۔پھر کمال مصطفیٰ مہندی کے جوڑے میں ملبوس فاطمہ کمال کے پاس آئے۔اسے خود سے لگا کر سر پر بوسا دیا۔کچھ تسلی بھرے جملے۔اور پھر الوداعیہ کلمات کہتے ہوئے چلے گئے۔
گھر میں جو روشنیوں کی جھلکیاں تھیں، وہ اب جیسے غم کی گہری دھند میں بدل چکی تھیں۔ ہر کوئی اپنی جگہ دم بخود تھا۔
”شادی ہوتی ہے تو خوشیاں آتی ہیں۔یہ ہم پر کیسا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔کیسی نحوست ہے“۔دادی سکینہ اور پھوپھی ریحانہ نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فاطمہ کو نشانہ بنایا۔ان کی طنزیہ نظروں نے فاطمہ کو اندر تک زخمی کر دیا۔
رات کا گہرا سکوت پورے بنگلے پر دبیز کمبل کی مانند چھا چکا تھا۔گھڑی کی سوئیاں موت کے پروں کی طرح خاموشی سے حرکت میں تھیں۔رات کا ایک بج چکا تھا، اور احسن کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔گھر کی فضاء پر ایک غیرمرئی خوف کے سائے منڈلا رہے تھے،جیسے کسی نادیدہ بلاء نے سب کے دلوں میں وسوسے بھر دیے ہوں۔
کمال صاحب بارہ بجے ہی پولیس کو ابتدائی اطلاع دے کر جا چکے تھے،مگر قانون کی اپنی چالیں تھیں۔چوبیس گھنٹے کی شرط سب پر مثلِ کوہِ گراں تھی،لیکن کمال صاحب کی حیثیت اور معاملے کی نزاکت کے باعث پولیس نے ابتدائی تحقیقات شروع کر دی تھیں۔پھر ایک ایک کرکے سب لوگ اپنے کمروں میں دبے قدموں لوٹ گئے۔
”تم نے ایسا کیوں کیا؟“۔خود کلامی کی گئی۔چوڑیوں کی کھنک ایک لمحے کو فضا میں گونجی۔اور پھر دوسرے ہی لمحے،فاطمہ کمال نے غصے سے انھیں اتار کر پھینک دیں۔اس کے ہاتھ، جن میں چند لمحے پہلے زیورات چمک رہے تھے،اب اس کے کنگن اور چوڑیاں زمین پر بے ترتیبی سے بکھری پڑی تھیں۔
”میں جانتی ہوں۔تم مجھے نہیں حاصل کر سکے تو میرے بھائی کو اغوا کر لیا۔گھٹیا انسان،نفرت ہے مجھے تم سے“۔
یہ الفاظ نہیں، بلکہ آتشیں شعلے تھے جو اس کے دل کی گہرائیوں سے نکل کر فضا میں بھڑک رہے تھے۔وہ وائے ڈی کے تصور سے مخاطب تھی۔اس کی مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں،آنکھوں میں آنسو اور دل میں آگ تھی۔۔اس نے زرتاج ڈوپٹے کو جھٹکے سے کھینچ کر پھینک دیا۔بال کھینچائے،لیکن اُسے پرواہ نہیں تھی۔
زمین پر گرتی ہوئی بےحال سی وہ دیوار سے ٹیک لگا گئی۔ اس کے آنسو تیز بارش کے قطروں کی طرح بہہ رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی اس کی گھٹی ہوئی سسکیاں کمرے کی خاموشی کو چیر رہی تھیں۔
”احسن!میرے بھائی،مجھے معاف کر دینا۔ یہ سب میری ہی وجہ سے ہوا۔میری وجہ سے تم اس شخص کے ہاتھ لگے“۔
وہ زمین پر بے بس پڑی،اپنی بے گناہی کے باوجود خود کو قصوروار ٹھہراتی رہی۔اچانک کل رات کا واقعہ اس کی آنکھوں میں ایک دھندلے خواب کی طرح صاف نظر آنے لگا۔

گزشتہ رات۔فلیش بیک۔

فاطمہ کمال شام کی گہری ہوتی روشنیوں کے بیج لان میں ٹہل رہی تھی۔سرد ہوا کے جھونکے اس کے بالوں سے الجھ رہے تھے اور چاندنی روشنی میں ہر چیز کسی خواب جیسی لگ رہی تھی۔مگر اس کے دل کے اندر شور مچا ہوا تھا۔ بےچینی کے عالم میں وہ گھاس پر دھیرے دھیرے قدم رکھتی رہی۔ہر قدم اس کے دل میں ایک سوال جگا رہا تھا، ہر جھونکا اسے کسی ان دیکھے خوف کی یاد دلا رہا تھا۔ اچانک گیٹ کے کُھلنے کی آواز نے اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔احسن ابراہیم کی گاڑی اندر داخل ہو رہی تھی۔ ہیڈلائٹس کی روشنی نے لان کے گھنے درختوں پر سایہ ڈال دیا۔
”احسن!کیا ہوا تمہیں؟“۔اسے پکارتی ہوئی قریب آئی،اور پھر اس کے پریشان چہرے کو دیکھ کر وہ فکرمندی سے پوچھی۔
”مجھے کیا ہونا ہے؟“۔وہ ہنس کر بولا۔اس کی ہنسی میں اندر تک اتر جانے والا خالی پن تھا۔
”یہ کیا ہے تمہارے ہاتھ میں؟“. فاطمہ کی نظریں اس کے ہاتھ میں موجود شاپنگ بیگ پر تھیں۔
”یہ؟“. احسن نے شاپر کو ہوا میں بلند کیا۔”یہ آپ کے لیے خریدا ہوں۔آپ کی شادی پر تحفہ دوں گا“۔وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھا
”تو ابھی دے دو ناں“۔فاطمہ نے ہاتھ بڑھایا،مگر احسن نے جلدی سے شاپر پیچھے کر لیا۔
”آں ہاں ابھی نہیں۔آپ کی رخصتی پر دوں گا۔آپ کا بھائی اپنی بہن کو ایک یادگار تحفہ کے ساتھ رخصت کرنا چاہتا ہے“۔احسن ابرہیم کا لہجہ پرخلوص محبت میں ڈوبا ہوا تھا۔
”تم مجھے جذباتی کررہے ہو احسن“۔بھیگتی آنکھوں کو بمشکل روکتی ہوئی بولی۔
”ارے یار آپ رو رہی ہیں؟آپ روتے ہوئے اچھی نہیں لگتیں“۔وہ شرارتی مسکراہٹ لیے کہنے لگا تو فاطمہ دھیرے سے ہنس دی۔”اور ایک بات یاد رکھیے گا۔کوئی بھی مسئلہ ہو مجھے لازمی بتائیے گا۔دو سال آپ سے چھوٹا ہوں،لیکن ہوں تو آپ کا بھائی ناں؟اور بھائی تو محافظ ہوتے ہیں۔کوئی اگر آپکو رلائے تو آپ اپنی آنکھوں میں آنسو لانے سے پہلے مجھے بتائیے گا میں اس کا منہ توڑ دوں گا“۔احسن ابراہیم فرطِ جذبات سے کہ رہا تھا۔اس وسیع و عریض بنگلے میں اپنوں کا احساس صرف ماریہ اور احسن ابراہیم کے وجود سے ہی تو ہوتا تھا۔
”تم جذباتی ہورہے ہو؟“۔نم نگاہوں سے اسے دیکھتی وہ مسکرائی.
”ہاں شاید،بہن کو رخصت کرنے کے خیال سے“۔اس نے سر ہلاتے اعتراف کیا۔
”میری رخصتی پہ اتنا اداس ہورہے ہو۔تو سگی بہن کی رخصتی پر کیا دریا بہاؤ گے؟“۔۔وہ مسکراتے ہوئے اسے چھیڑی۔ماریہ ابراہیم پر اسے رشک ہوا۔
”آئیندہ یہ بات نہیں کریے گا۔یو بوتھ آر ایکول فار می“۔وہ خفگی سے کہتا ہوا اس کے ساتھ اندرونی حصے کی جانب آیا۔
”اچھا ناں اداس کیوں ہوتے ہو؟میں کون سا سات سمندر پار جارہی ہوں؟اسی گھر میں اپنے پورشن سے اس پورشن میں شفٹ ہونا ہے“۔۔اس کے ساتھ چلتی ہوئی اس کا موڈ بحال کرنے لگی۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on