ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
”احسن“۔اس کے لب ہلے۔رات کے دو بج رہے تھے۔کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک کے علاوہ ہر چیز خاموش تھی،لیکن فاطمہ کی آنکھوں میں نیند کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔وہ چپ چاپ چھوٹی چچی کے پورشن میں گئی اور احسن کے کمرے کا دروازہ دھیرے سے کھول دیا۔ اندر قدم رکھتے ہی وہ رک گئی۔ کمرے کی ہر چیز ترتیب سے رکھی ہوئی تھی۔ احسن کی نفاست پسند طبیعت کمرے کی ہر دیوار، ہر گوشے میں جھلک رہی تھی۔ کتابوں کی الماری، میز پر رکھی ہوئی قلم دان، اور بیڈ پر سیدھی پڑی چادر، سب اس کی شخصیت کا آئینہ تھیں۔لیکن اس کی نظر ڈریسنگ پر رکھے شاپر پر جا ٹھہری۔ وہ جلدی سے وہاں گئی، شاپر کو اٹھایا اور اسے کھولنے لگی۔ گفٹ ریپر کے نیچے ایک نفیس باکس چھپا ہوا تھا۔ باکس کھولتے ہی ایک خوبصورت گھڑی اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔گھڑی کی چمک جیسے وقت کے ہر لمحے کی یاد دہانی کرا رہی تھی، اور ہر سیکنڈ کی ٹک ٹک فاطمہ کے دل کے اندر کے درد کو بڑھا رہی تھی۔وہ وہیں فرش پر بیٹھ گئی، اور گھڑی کو گود میں رکھ کر زاروقطار رونے لگی۔کوئی فاطمہ کمال کی وجہ سے تکلیف میں تھا۔یہ احساس ہی کتنا تکلیف دہ تھا۔اور وہ بھی وہ شخص جو اسے عزیز تھا۔
”احسن، تم نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ ہمیشہ میرے لیے کھڑے رہے۔لیکن آج ناجانے تم میری وجہ سے کہاں ہو؟جب تمہیں معلوم ہوگا تم میری وجہ سے کڈنیپ ہوئے ہو،تو کیا تم تب بھی مجھے اپنی بہن مانو گے؟“۔رات کی سیاہی اور گہری ہو گئی،اور کمرے میں اس کی سسکیاں گونجنے لگیں۔یو لگتا تھا کہ چاندنی رات بھی اس کے غم میں شامل ہو گئی تھی۔ ماحول کا ہر ذرہ اس کے دکھ کا گواہ بن گیا تھا،اور گھڑی کی ٹک ٹک گویا وقت کے بےرحم تسلسل کا نوحہ پڑھ رہی تھی۔
عمر اداس صدیوں سے کیا کاٹتی رہی
پیہم سفر،سفر سے سوا کاٹتی رہی
میری بصیرتیں تو مرے دل میں تھیں نہاں
اشکوں کی دھار تو بھی کیا کاٹتی رہی
اظہار کے جنوں نے نہ جینے کبھی دیا
اک پھانس تھی الگ،جو گلا کاٹتی رہی
آتے ہوئے زمانوں سے جب گفتگو ہوئی
میری ہر اک بات ہوا کاٹتی رہی
آنسو مرے نے کتنے گگن رنگ سے بھرے
اک بوند ہر کرن کا گلہ کاٹتی رہی
صدیوں سے میں نہ کاٹ سکا عمر ناتمام
اک پل کی عمر مجھ کو سدا کاٹتی رہی
تکمیل کی طلب نے ادھورا کیا مجھے
لکھا ہر اک شعر مرا کاٹتی رہی
(یاور ماجد)
صبح کا اجالا ہر سمت پھیل چکا تھا۔لیکن روشنی کے اس بہاؤ میں ماحول کے سوگوار سائے برقرار تھے۔ناشتہ کی میز آج ویران پڑی تھی۔ان سب کے چہروں پر گزری رات کے واقع کی تھکن اور دل گرفتگی کی پرچھائیاں تھیں۔چچا اور تایا ہر طرف دوڑ بھاگ کر رہے تھے، کسی سراغ، کسی امید کی تلاش میں،جو احسن تک لے جائے۔ہر گلی،ہر دروازہ کھٹکھٹایا،مگر ہر کوشش ناکام دکھائی دی۔ان کے چہرے پر مایوسی اور بے بسی گہری ہوتی جا رہی تھی۔صبح دوپہر میں ڈھل چکی تھی۔گھر میں چند رشتے دار جمع ہونے لگے تھے۔دادی اور پھوپھی کے پاس بیٹھ کر افسوس کرتے ہوئے۔فاطمہ کمال نیچے نہیں گئی۔وہ جانتی تھی نیچے جائے گی تو بدمزگی لازمی ہے۔آنکھوں میں ڈھیروں اداسی لیے وہ اوپر راہداری میں کھڑی لاؤنج کا منظر دیکھ رہی تھی۔تب ہی اس کی نگاہیں چھت کی جانب جاتی علینہ زاہد پر پڑی۔اس کی آنکھوں میں سختی اتر آئی،تیز قدموں سے اس کے پیچھے گئی۔
دوپہر کی دھندلی ٹیرسٹ پر اتر رہی تھی، لیکن سردی کی شدت ایسی تھی کہ دھوپ کی گرماہٹ بھی بےبس نظر آتی تھی۔ٹیرسٹ کے اطراف نفیس ماربل کی ریلنگ اور کونے میں مہنگے گملے رکھے ہوئے تھے۔دور سامنے باغیچے کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔فاطمہ، گرم چادر میں لپٹی، ریلنگ کے قریب کھڑی علینہ زاہد کے پاس آئی تھی۔
”تم نے کیا ہے نا یہ سب؟“۔فاطمہ کی سرد آواز پر وہ چونک کر اسے دیکھی۔پھر مسکرائی۔کہیں دور کسی کبوتر کی ہلکی سی گٹ گٹ فضا میں گونج رہی تھی۔
”۔میں؟“۔علینہ نے حیرانی کا مصنوعی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی طرف اشارہ کیا اور ہنس دی۔دھوپ اور سردی کی کشمکش نے ہر چیز پر ایک مدھم سا سایہ ڈال دیا تھا۔”میں تو خود سوچ رہی ہوں، مجھے تو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ تم نے تو میرا کام خود ہی آسان کر دیا“۔فاطمہ کی آنکھیں ایک پل کے لیے مزید سخت ہو گئیں۔”یار، تم پہلے بتا دیتیں کہ تم عابد میں انٹرسٹڈ نہیں ہو۔ ہم خواہ مخواہ کے
جھگڑوں میں اپنا وقت ضائع کر رہے تھے۔ خیر، اب بھی وقت ہے، ہم دوست بن سکتے ہیں“۔ اس کے ہونٹوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ تھی۔ فاطمہ نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ اس کے چہرے پر ایک تمسخرانہ ہنسی نمودار ہوئی۔
”دوست؟“۔اس نے ایک سرد نگاہ علینہ پر ڈالی۔”دوستی کا مطلب بھی تم جانتی ہو؟دوست مفاد پرست نہیں ہوتے،علینہ زاہد۔اور تم،تم ایک مفاد پرست عورت ہو۔تم کبھی بھی کسی کی بھی دوست نہیں بن سکتی“۔علینہ کی مسکراہٹ دھیرے دھیرے غائب ہو گئی، اور اس کی آنکھوں میں غصے کی جھلک نظر آنے لگی۔وہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ فاطمہ نے سختی سے بات جاری رکھی۔
”یہ جو تم جن لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ گھومتی ہو، وہ تمہارے دوست نہیں ہیں،صرف وقت گزاری کے ساتھی ہیں، جو وقت اور ضرورت کے ساتھ ہر تھوڑے دن میں بدلتے رہتے ہیں۔جن سے جب تمہاری ضرورت ختم ہوتی ہے،اس کے دوسرے دن تم ان سے رابط ختم کر دیتی ہو“۔ فاطمہ کمال اسے آئینہ دکھا رہی تھی۔حقیقت کا وہ آئینہ جس میں دیکھنے کی وہ تاب نہیں لا پارہی تھی۔علینہ کے چہرے پر سرخی چھا گئی۔”شر اور محبت کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔محبت کے ہزاروں روپ ہوتے ہیں،اور ان میں سے ایک روپ دوستی کا بھی ہے۔ جب تک تمہارے دل میں یہ شر اور خودغرضی رہے گی،محبت داخل نہیں ہوسکے گی۔محبت کا کوئی بھی روپ نہیں“۔علینہ نے غصے سے فاطمہ کی طرف دیکھا۔
”اتنی بدنامی کے بعد بھی تمہاری یہ اکڑ ختم نہیں ہوئی، فاطمہ؟تم کیا ہو؟ سب کے لیے ذلت کا باعث“۔وہ تلملاتی ہوئی بولی۔
”ذلت کا باعث کون ہے،تم یا میں؟ یہ بہت جلد تمہیں معلوم ہو جائے گا۔اور یاد رکھو، اگر تم اس معاملے میں انوالو ہوئی تو تمہیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑوں گی۔جب تک بات میری تھی میں تمہیں نظر انداز کرتی رہی،لیکن تمہاری وجہ سے اگر ماریہ اور احسن کو کوئی نقصان پہنچا پھر میں چھوڑوں گی نہیں“۔فاطمہ کی آنکھوں میں خطرناک حد تک ٹھہراؤ آ گیا۔یہ کہہ کر فاطمہ نے ایک آخری نظر اس پر ڈالی اور باہر نکل گئی۔
دو دن گزر چکا تھا،لیکن احسن کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ گھر کی فضا بوجھل اور بے سکون تھی۔چچی کے طعنے، پھوپھی کے طنز،اور دادی کے تیکھے جملے ہر کونے میں گونج رہے تھے۔ایک ایسا دباؤ تھا جو فاطمہ کے وجود کو اندر سے کھائے جا رہا تھا۔وہ پہلے ہی احسن کی گمشدگی کے صدمے سے نڈھال تھی،اور اوپر سے یہ بے رحم رویے اس کے دل پر مزید بوجھ ڈال رہے تھے۔
آج وہ گلابی جوڑے میں تیار ہوئی،لیکن اس کے زرد چہرے اور مرجھائی آنکھوں نے لباس کی خوبصورتی کو بھی مدھم کر دیا تھا۔وہ آہستہ قدموں سے دروازے کی طرف بڑھی۔
”کہاں جا رہی ہو تم؟“۔دادی سکینہ کی تیز اور گہری نگاہیں فوراً اس پر جمی تھیں۔فاطمہ رک گئی،پلٹ کر انھیں دیکھی۔
”باہر جا رہی ہوں،آدھے گھنٹے تک واپس آ جاؤں گی“۔دھیمی آواز میں وہ بتائی۔دادی نے اسے شک بھری نظروں سے دیکھا،لیکن پھر سر ہلاتے ہوئے جانے کی اجازت دے دی۔ جیسے ہی گاڑی مین گیٹ سے نکلی اور سڑک پر آئی،فاطمہ نے ڈرائیور کو ایک پتہ بتایا۔وہ مسلسل راستہ سمجھا رہی تھی،لیکن پتہ سنتے ہی ڈرائیور نے حیرت سے مڑ کر اسے دیکھا۔
”بی بی، آپ کو معلوم ہے یہ پتہ کس کا ہے؟ کیا گھر میں آپ نے کسی کو بتایا بھی ہے؟ میں آپ کو وہاں نہیں لے جا سکتا“۔ اس کی آواز میں ہچکچاہٹ اور پریشانی تھی۔ فاطمہ نے ایک لمحے کو اسے گھورا۔
”تمہیں جو کہا ہے،وہ کرو۔زیادہ سوال مت کرو“۔اور پھر ٹھہرے ہوئے مگر سخت لہجے میں بولی۔ڈرائیور اب اور زیادہ بےچین ہو گیا۔
”بی بی، اگر گھر والوں کو پتہ چل گیا، تو مجھے نوکری سے نکال دیں گے۔آپ کا جو ہو، ہو، لیکن میری جاب کا کیا ہوگا؟“۔اس بیچارے کو صرف اپنی نوکری کی فکر تھی۔وہ بیچارگی سے فاطمہ کو دیکھ رہا تھا۔
”میں تو نہیں بتاؤں گی،تو کیا تم بتاؤ گے؟“۔ڈرائیور نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا۔ ”تو پھر؟ جب نہ میں اور نہ تم بتاؤ گے،تو کیا جنات انہیں خبر دیں گے؟اب چلو! ورنہ وہ تمہیں نکالیں یا نہ نکالیں، میں ضرور نکال دوں گی“۔فاطمہ کمال کے یہ تیور ڈرائیور نے پہلی بار ملاحظہ کیے تھے۔مجبوراً اس نے گاڑی اس سمت موڑ لی۔