Uncategorized

Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 4


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسٹدی کے اندر ایک ہلکی سی خاموشی طاری تھی۔ دیواروں پر سجی سنہری فریم میں قید پینٹنگز، جن پر ہلکی روشنی پڑ رہی تھی،ماحول کو پراثر بنائے ہوئے تھیں۔ لکڑی کا بھاری میز، جس پر نقشے،طمارکر اور کچھ فائلیں بکھری ہوئی تھیں، کمرے کے مرکز میں تھا۔ایک کونے میں رکھے جاپانی طرز کے بنسائی درخت نے جگہ کو خوبصورتی کے ساتھ بھر دیا تھا۔
”سر،آپ سے ملنے فاطمہ کمال آئی ہیں“۔مراد کی آواز نے کمرے کی سکون کو توڑا۔فاز عالم،جو نقشے پر سرخ مارکر سے دائرہ کھینچ رہا تھا،چونک کر سیدھا ہوا۔اس کے چہرے پر لمحاتی حیرت نمودار ہوئی۔
”فاطمہ؟لیکن کیوں؟یہاں کیسے؟“۔اس کے لہجے میں تعجب واضح تھا۔ مشہور زمانہ گینگسٹر کے مینشن پر ایک لڑکی کا یوں آنا واقعی غیر معمولی بات تھی۔کسی کے پاس بھی پکے ثبوت نہیں تھے کہ وہ غیر قانونی کاموں میں ملوث ہے،لیکن افواہیں ہر جگہ تھیں۔
”پتہ نہیں،سر“۔ مراد نے لاعلمی سے کندھے اچکائے۔
”بٹھاؤ انھیں،میں آتا ہوں“۔فاز نے ایک ہلکی سی سنجیدگی سے کہا۔مراد سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گیا۔فاز نے نقشے کو رول کیا اور نہایت احتیاط سے دراز میں رکھ دیا۔اپنے گہرے کالے کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے،وہ مضبوط اور پر سکون قدموں کے ساتھ سیڑھیاں اترنے لگا۔سیڑھیاں نیم دائرے کی شکل میں نیچے ہال تک جاتی تھیں، جن کی دونوں طرف لکڑی کی باریک کندہ کاری کی گئی ریلنگ تھی۔ان پر ہلکی مدھم روشنی پڑ رہی تھی،جو ماحول کو پراسرار بنائے ہوئے تھی۔
نیچے، فاطمہ کمال صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔کمرے کی نرم اور خاموش روشنی اس کے چہرے کو واضح کر رہی تھی۔ وہ سیاہ شال میں لپٹی، کچھ الجھی اور تھکی تھکی سی لگ رہی تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں غصے کی چمک تھی۔ جیسے ہی فاز قریب آیا، اس نے لمحے بھر کو نظریں اٹھائیں۔ وہ بلاشبہ خوبصورت تھا۔کشادہ ماتھا، گہری آنکھیں، اور مضبوط جبڑا، جیسے کسی قدیم مجسمے کو جان بخش دی گئی ہو۔ لیکن اگلے ہی لمحے، اس کی آنکھوں میں نفرت چھلکنے لگی اور وہ تیزی سے نظریں پھیر گئی۔
”تو میرے غریب خانے میں کیسے آنا ہوا؟“وہ بے فکری سے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”تمہیں مجھ سے مسئلہ تھا نا؟ تو میرے گھر والوں کو کیوں بیچ میں گھسیٹ رہے ہو؟“۔فاطمہ یکدم اٹھ کھڑی ہوئی۔اس کی آواز غصے اور بے بسی کا ملا جلا اظہار کر رہی تھی۔
”دھیمی آواز میں بات کریں“۔اسپاٹ لہجے میں اسے ٹوکتا ہوا وہ خود بھی کھڑا ہوگیا۔
”دھیمی آواز میں بات مہذب لوگوں سے کی جاتی ہے۔تم جیسے گھٹیا شخص سے نہیں“۔فاطمہ کا غصہ اب مزید بڑھ چکا تھا،اور وہ چیخنے لگی۔
”تماشہ مت بنائیں“۔دھیمے مگر سخت لہجے میں اسے پھر ٹوک گیا۔
”تماشہ میں بنا رہی ہوں؟سیریسلی؟ تماشہ تو تم نے میرا بنا دیا ہے۔تم مجھے حاصل نہ کر سکے تو میرے بھائی کو اغوا کر لیا؟“۔آنسو روکنے کے چکر میں اس کی نیلی آنکھوں کے گوشے سرخ ہورہے تھے۔
”میں کیوں اغوا کروں گا؟آپ کو یقیناً غلط فہمی ہوئی ہے“۔ اس نے جلدی سے مراد کو اشارہ کیا،جو تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
”تو کیا تم اس قسم کے برے کام کرنے کے بجائے مصلّے پہ بیٹھ کر دعا مانگتے؟میرے سامنے یوں مہذب انداز میں بات کرنے سے تم مہذب ہر گز نہیں بن جاؤ گے۔تم وہی غنڈہ،بدمعاش اور اوباش رہو گے“۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی،مگر غصہ واضح تھا۔ایک بےنام آنسو،ناجانے کیوں اتنے ضبط کے باوجود بھی باہر آگرا تھا۔
”رونا بند کریں۔یوں چیخنے چلانے سے آپ کو آپ کا بھائی نہیں مل جائے گا۔اور میں تو ایک بدمعاش اور اوباش شخص ہوں،تو آپ کو یہاں بالکل نہیں آنا چاہیے تھا۔بقول آپ کے، اگر میں آپ کے بھائی کو اٹھا سکتا ہوں،تو یقیناً آپ کو بھی“۔وہ قدم بہ قدم آگے بڑھتا ہوا،پراسرار انداز میں اسکے قریب آکر بولا۔فاطمہ پیچھے ہٹی۔ اس کی آنکھوں میں خوف جھلکنے لگا۔
”دور ہٹو“۔اس کی آنکھوں میں خوف واضح تھا۔مگر وہ اسے دبانے کی کوشش کرکے خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کررہی تھی۔
”اتنی بہادری اچھی نہیں،مس کمال۔اب جائیں،اور جاکر پولیس میں رپورٹ درج کروائیں“۔وہ پیچھے ہٹتے ہوئے صوفے پر دوبارہ بیٹھ گیا۔
”تم جیسوں کو پولیس پکڑتی نہیں،جبھی تم غنڈہ گردی پہ اترے ہوئے ہو“۔فاطمہ نے نفرت بھری نگاہ اس پر ڈالی۔
”آپ جا سکتی ہیں“۔اس نے موبائل پر نظریں جما کر اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا۔فاطمہ نے غصے سے پیر پٹختے ہوئے اپنا بیگ اٹھایا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔فاز کی نظریں دروازے تک اس کا تعاقب کرتی رہیں، جب تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔
فاطمہ کمال وائے ڈی کے مینشن سے نکل کر سیدھا اپنے فارم ہاؤس آگئی تھی۔صاف ستھرے اصطبل میں برک موجود تھا۔خاموش اور سکونت بھرا ماحول تھا۔جہاں سبزہ اور کھیتوں کی خوشبو ہر طرف پھیل رہی تھی۔چار بجے کا وقت تھا اور دن کا اجالا دھندلا پڑنے لگا تھا۔اس کے قدموں کی چاپ سرد ہوا میں مدھم گونج رہی تھی۔وہ برک کے پاس آگئی تھی۔خوبصورت بھورے رنگ کا مضبوط گھوڑا آنکھوں میں انس لیے اس سے لاڈ کرنے لگا۔ فاطمہ نے آہستگی سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”کیسے ہو، برک؟“۔اس کی آواز میں تھکن اور محبت کا حسین امتزاج تھا۔ برک نے سر ہلایا،پھر ہنہنیایا۔
”تم جانتے ہو،احسن دو دن سے لاپتہ ہے،اور اس کی وجہ میں ہوں“۔فاطمہ کی آواز کانپ رہی تھی۔”میں کیا کروں، برک؟مجھے سکون نہیں آ رہا۔کیوں ہوا یہ سب؟احسن کیسا ہوگا؟ کہاں ہوگا؟“۔اس کی نیلی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں، جو بنا رکے گالوں پر بہہ رہے تھے۔سرد ہوا میں اس کی اداسی مزید گہری لگ رہی تھی۔برک نے اپنی گردن کو فاطمہ کے کندھے سے رگڑا، جیسے اسے تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کے بھورے رنگ کی چمک میں قدرتی نرمی تھی، جو کسی مہربان دوست کی مانند فاطمہ کے غم کو بانٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”تم جانتے ہو، برک؟ محبت کے ہزاروں روپ ہوتے ہیں،اور فاطمہ کمال تو محبت نبھانا جانتی ہے“۔وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔”احسن اور ماریہ ابراہیم میرے دوست ہیں،اور دوستی بھی محبت کا ہی ایک روپ ہے۔اس لیے میں احسن کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گی“۔وہ اب مضبوط لہجے میں کہ رہی تھی۔برک کے ماتھے پر محبت سے لب رکھ دی۔اسے اصطبل سے نکالتی میدان میں لاتی وہ کچھ دیر کے لیے اپنے غموں کو بھلا گئی تھی۔اس کی پشت پر سوار ہوکر وہ خود کو ہواؤں کے سپرد کرچکی تھی۔پندرہ منٹ کی گھڑ سواری کے بعد وہ واپسی کی راہ لی۔
”السلام علیکم!فارحہ کیسی ہیں آپ؟“۔گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھتی ہوئی وہ فون کان سے لگائی ہوئی تھی۔
”والسلام!تم ٹھیک ہو فاطمہ؟“۔ان کی آواز میں فکرمندی تھی۔
”ٹھیک ہوں میں۔آپ سے کہنا تھا میں کچھ دنوں تک ہاسپٹل نہیں آؤنگی تو میرے پیچھے ساری چیزیں دیکھ لیے گا“۔۔وہ سنجیدگی سے باہر دیکھتے ہوئے کہ رہی تھی۔
”تم بےفکر رہو۔میں دیکھ لونگی۔احسن کا کچھ معلوم ہو؟“۔سب کو شادی پوسٹ پونڈ ہونے کی خبر مل چکی تھی۔
”نہیں کچھ نہیں معلوم ہوا“۔اس کے لہجے میں تکان سی اتر آئی۔
”پریشان مت ہو۔فاطمہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔اللّٰہ سے مدد مانگو وہ تمہاری مدد کرے گا۔مدد اللّٰہ سے مانگنی چاہیے کیونکہ مدد صرف اُسی کی ذات کرسکتی ہے،باقی انسان تو ذریعہ بنتے ہیں“۔۔ان کی آواز کی نرمی ہمیشہ کی طرح فاطمہ کو پرسکون کرگئی۔
”تھینک یو فارحہ“۔۔وہ مدھم سا کہتی فون بند کرگئی۔
”کہاں سے آرہی ہو تم؟“۔وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی، لاؤنج کا منظر اسے روکنے پر مجبور کر گیا۔ایک گہری خاموشی، دیواروں پر آویزاں گھڑی کی ٹِک ٹِک، اور سب کے چہرے سختی سے کسی ناقابل معافی گناہ کے گواہ لگ رہے تھے۔وہ حیران و پریشان، آنکھوں میں سوال لیے، اپنی جگہ ٹھہر گئی۔مگر عابد کی کڑک دار آواز نے اس سکوت کو چیر دیا۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on