Uncategorized

Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 4


”یہ تم کس لہجے میں پوچھ رہے ہو؟“۔اس نے بیگ کی اسٹریپ پر گرفت مضبوط کرلی اور سرد نگاہوں سے عابد کو دیکھا۔
”جو پوچھا ہے وہ بتاؤ۔ کہاں گئی تھی تم؟“۔ عابد کا تیز دھار لہجہ اسے ناگوار گزرا۔وہ ایک پل کو رک گئی۔گہری سانس بھری۔
”میں دادی کو بتا کر گئی تھی“۔۔دادی سکینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے دھیمی آواز میں بتایا،مگر اگلے ہی لمحے دادی کے لفظوں نے اس کے وجود کو زمین میں گاڑ دیا۔
”تم نے کہا تھا تم باہر جا رہی ہو،یہ نہیں بتایا تھا کہ تم اپنے عاشق سے ملنے جارہی ہو“۔دادی کے یہ الفاظ کسی بجلی کی کوند سے کم نہ تھے۔لاؤنج کا ماحول اب گویا شعلہ بن گیا۔ اس کے گال ایک لمحے کو زرد پڑ گئے۔آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اور دل،دل گویا دھڑکنا بھول گیا۔
”نن… نہیں! آپ لوگ غلط سمجھ رہے ہیں“۔وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے وضاحت دینے لگی۔آنکھوں میں ابلتے آنسوں کو زبردستی روک لیا۔آج پہلی بار تھا جو وہ لڑکھڑائی تھی کیونکہ آج وہ خود وائے ڈی کے گھر گئی تھی۔
”بند کرو اپنی بکواس!تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔یو آر آ چیٹر“۔ عابد کی آواز کی گھن گرج نے اسے ساکت کردیا۔
”تم غلط سمجھ رہے ہو“۔پلکوں کی جھیل پر نمی جم رہی تھی۔مگر وہ مضبوطی سے کھڑی رہی۔اس نے امید بھری نظروں سے عابد کی طرف دیکھا،مگر وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ ایک سرد بےاعتنائی، ایک سخت ٹھوکر، جو کسی کو ختم کرنے کے لیے کافی ہو۔
کیا وہ واقعی اس کا لائف پارٹنر بننے جارہا تھا؟جو اس پہ اعتبار ہی نہیں کررہا تھا؟جو اسے سمجھنا ہی نہیں چاہ رہا تھا؟کیا وہ واقعی فاطمہ کمال کے قابل تھا؟۔سوال کی گونج نے اس کے دل و دماغ کو بھردیا۔دیواروں پر آویزاں تصاویر اس کے کردار پر گویا گواہی دے رہی تھیں۔فانوس کی روشنی اس کی آنکھوں میں چبھ رہی تھی، اور ہر چہرہ کٹہرے میں کھڑے ایک مجرم کو سزا سنانے کے لیے بےچین نظر آ رہا تھا۔
”تو پھر وہاں تم کیا کرنے گئی تھی؟“۔عابد کے لہجے میں نفرت کی برف جمی ہوئی تھی۔وہ اپنے اردگرد دیکھنے لگی۔ تایا کی نظروں میں بےرحم تفتیش،چچی کے چہرے پر جلن اور شک، اور ماریہ کی نظریں جو کہیں اور جھکائے کھڑی تھیں۔
”مجھے…اس نے یونیورسٹی میں روکا تھا۔میں نے اس کی بات سے انکار کیا تھا۔پھر وہ دوبارہ نہیں آیا،مگر مہندی کی رات…احسن کا غائب ہونا…مجھے لگا کہ وہی ہے۔ اس لیے میں گئی تھی کہ وہ احسن کو چھوڑ دے“۔اس نے دھیمی آواز میں بات مکمل کی۔ہر لفظ جیسے پتھر بن کر اس کے اندر گررہا تھا۔نیلی آنکھیں نم تھیں،مگر آنسوں اب تک پلکوں کے اس پار قید تھے۔
”کہانی مت بناؤ۔سیدھی طرح کہو کہ تم عابد کے بجائے اس سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔اور شادی رکوانے کے لیے تم نے میرے بھتیجے کو غائب کروا دیا“۔پھوپھی ریحانہ نے آگے بڑھ کر زہر میں بجھے الفاظ کہے۔
”تمہیں شرم نہیں آئی؟وہ تمہیں بہنوں کی طرح چاہتا تھا اور تم؟“۔۔چچی اس پر چیخی تھی۔لاؤنج کی فضا اور گھٹن زدہ ہوگئی۔اس کی سانسیں بھاری ہونے لگیں،اور دل میں بےبسی کا بوجھ بڑھتا گیا۔
”ماریہ، اپنی ماں کو کمرے میں لے جاؤ“۔ابراہیم مصطفیٰ کے حکم پر وہ سر ہلاتی حکم بجا لائی۔
”بھائی ہی کریں گے تمہارا فیصلہ۔پہلے ہی کم کیا اسکینڈل بنے تھے اب یہ؟خاندان بھر میں ذلیل کرواتی رہو“۔۔تایا نے غصے میں کہا پھر چچا کو لیے باہر چلے گئے۔باقی سب ایک ایک کرکے لاونج سے نکلنے لگے،سوائے دادی سکینہ کے،جو اب تک خاموش کھڑی تھیں،آگے بڑھیں اور اس کے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔
”دا… دی“۔وہ بےیقینی کے عالم میں دادی کو دیکھنے لگی۔ہاتھ بےاختیار گال پر گیا،لاؤنج دھندلا ہوگیا۔ایک پل کے لیے وہ لمحے کو سمجھ نہ پائی۔
”کمرے سے باہر ایک قدم بھی مت نکالنا،جاؤ“۔دادی کی گرجدار آواز نے اس کی باقی ہمت بھی چھین لی۔وہ شاک تھی۔بےیقین تھی۔بھاگتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف لپکی۔ دروازے بند کرتے ہی وہ زمین پر گر پڑی۔کمرے میں اندھیرا تھا،مگر یہ اندھیرا اس کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کے آگے کچھ بھی نہ تھا۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی،اپنے آنسووں کو روکنے کی ہمت نہ رہی۔آنکھوں میں قید آنسو بےاختیار بہنے لگے۔اتنی ذلت،اتنی بعزتی؟۔
”مر جاؤ تم،مر جاؤ وائے ڈی“۔وہ ہاتھ زمین پر مارتی،وائے ڈی کو کوستی،اپنی بےبسی کی گہرائی میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ دیواروں نے سب دیکھا۔مگر تسلی دینے والا کوئی نہیں تھا۔صرف ایک زخمی دل اور بہتے آنسو،جو اس کے دکھ کی گواہی دے رہے تھے۔

دکھ کی شب ہے طویل اور خواب سہانے دھندلے ہیں،
دل کے زخم پر مرہم لگے، پر بھر نہ سکے،
آنکھیں کہتی ہیں خاموش قصے، پر الفاظ تھم گئے،
یہ درد وہ تحفہ ہے جو محبت دے کر بھی چھین لے۔
”فاطمہ، مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی“۔اس جملے کا درد فاطمہ کے دل میں گہرائی سے جا کر اُتر گیا تھا۔غم و اندوہ میں غرق،روتے روتے اسے یہ بھی اندازہ نہیں ہوا کہ ایک گھنٹہ اس کی اس حالت میں گزر چکا تھا۔فون کی بیل بجی،اور جیسے ہی اس کی آواز سنائی دی، وہ ہوش میں آئی۔”بابا کالنگ”دیکھ کر فوراً اس نے فون اٹھایا۔
””با..با؟“۔اس نے بےیقینی سے کہا،حقیقت سے ٹوٹا ہوا سوال تھا۔”آ…پ کو مجھ پہ یقین نہیں؟“۔اس کا دل جیسے ٹوٹ کر باہر آ گیا۔
”یقین تھا،جب ہی آپ کو ہر قسم کی آزادی دی تھی،لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ آپ میرے یقین کو اس طرح توڑیں گی“۔وہ افسوس سے گویا ہوئے،اور فاطمہ کی آنکھوں میں گہرا دکھ اتر آیا۔آج سے پہلے جو اسکینڈل بنیں،بابا نے اس کا ساتھ دیا تھا۔لیکن کیا وائے ڈی کے گھر جانا اس کی اتنی بڑی غلطی تھی کہ بابا پوری بات سنیں بغیر اسے سزا سنا رہے تھے؟۔
”آپ کو مجھ پہ یقین نہیں،بلکہ اپنی ماں، بہن اور بھائی کی باتوں پہ یقین ہے، بابا“۔وہ تیز آواز میں،روتے ہوئے بولی۔
”فاطمہ، اپنا لہجہ درست رکھیے“۔انھوں نے سختی سے کہا، جیسے یہ الفاظ اس کے دل پر تیز چھری کی طرح لگے۔
”آپ نے صرف ان کی بات سنی اور یقین کر لیا،آپ کو مجھ سے بھی پوچھنا چاہیے تھا۔لیکن ٹھیک ہے،میں اپنے کردار کی صفائی اب مزید کسی کو نہیں دوں گی“۔آنسو صاف کرتی وہ مضبوط دو ٹوک لہجے میں بولی۔
”فاطمہ…“۔انھوں نے کچھ اور کہنے کی کوشش کی،لیکن اس نے بیچ میں ہی بات کاٹ دی۔”آپ چاہتے ہیں کہ میں ویسا ہی کروں جیسا آپ کی اماں چاہتی ہیں؟تو بے فکر ہو جائیں، اب میں وہی کروں گی“۔اپنی بات مکمل کرتے ہوئے، اس نے کال کاٹ دی۔
”محبت کے ہزاروں روپ ہوتے ہیں“۔اس کے لب دھیرے سے ہلے،خود کلامی کے انداز میں۔”ایک روپ کو پہلے بھی نبھایا تھا،آج بھی نبھاؤں گی،قربانی کی محبت…“۔خالی نگاہوں سے وہ زمین کو تک رہی تھی۔یہ وہ محبت تھی جو کسی دوسرے کی خوشی کے لیے اپنی خوشی قربان کرنے پر مبنی تھی۔وہ بابا کی خوشی کے لیے اپنی خوشی قربان کردے گی۔
اس کی آنکھیں پھر سے بھیگی تھیں۔احسن کا اغواء،بابا کا رویہ،وائے ڈی کا اس کی زندگی میں آنا،عابد کی اونچی آوازیں،دادی کا تھپڑ،ہر لمحہ اس کے دل پر گہرا اثر چھوڑ رہا تھا۔کوئی بھی نہیں تھا جو اس کے دکھ میں شریک ہوتا، کوئی بھی نہیں تھا جو اس کا یقین کرتا۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on