ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
”قبول ہے“۔۔۔یہ الفاظ نہایت دقت سے ادا ہوئے تھے۔اس کی سماعت میں وائے ڈی کی آواز مسلسل گونج رہی تھی۔
“آؤں گا ضرور، لیکن عام مہمان کی حیثیت سے نہیں۔”
اور وہ آیا تھا،اپنے وعدے کے مطابق، لیکن عام مہمان کی حیثیت سے نہیں،دولہے کی حیثیت سے۔
دو دن تک وہ بے تحاشہ روئی تھی، لیکن اس وقت اس کی آنکھوں میں خشک بیابانی تھی۔اس کے احساسات جیسے برف میں بدل گئے تھے،کسی گہرے دکھ کا عکس اب ان میں نہیں تھا۔سفید رنگ کا فراک،جس پر سنہری گوٹا جڑا تھا، اس کی شان میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔سر پر سرخ آنچل سجا کر وہ اپنے نکاح نامے پر دستخط کر رہی تھی۔دل میں تکلیف کی ایک لہر اٹھی تھی۔کتنے ارمان تھے اس کے اپنے نکاح کے بارے میں،اور آج،آج تو اس کے اپنے بابا بھی اس کے قریب نہیں تھے۔نکاح کے بعد دعا کے لیے سب نے ہاتھ اٹھائے،لیکن کسی نے بھی اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا تھا،نہ ہی کسی نے اسے گلے لگایا تھا۔عام طور پر نکاح کے بعد لوگوں میں خوشی کا ہنگامہ ہوتا ہے،لیکن یہاں ہر طرف موت کی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔یہ کیسا نکاح تھا؟
”فاطمہ ابھی میرے ساتھ جائیں گی“۔کمرے کی خاموشی کو مردانہ آواز نے توڑا۔اس نے آنکھیں میچ لیں۔
”ہاں، ہاں لے جاؤ“۔۔۔دادی سکینہ کا غصہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا تھا۔”اس بدکردار لڑکی کو اب مزید برداشت نہیں کریں گے ہم“۔۔۔فاطمہ کی آنکھوں میں بے بسی اور خوف کی شدت تھی، وہ اٹھی پھر اپنے تایا کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
”میں نہیں جاؤں گی“۔۔۔فاطمہ نے گیلی ہوتی سانس کو اندر کھینچا۔”تایا، بابا کو آنے دیں پہلے“۔۔۔اس کی اس آواز میں مضبوط ہونے کے باجود لڑکھڑاگئی۔
”تمہیں اس گھر میں ایک منٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا میں“۔۔تایا نے اسے بری طرح جھڑک دیا۔
”مراد، میڈم کو گاڑی میں بٹھاؤ“۔۔۔مراد کو حکم دیا گیا۔ فاطمہ کمال نے لاونج سے باہر نکلتے ہوئے اپنا حوصلہ مجتمع کیا۔لیکن اس کے دل میں ایک گہرا درد تھا۔
”الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔اب فاطمہ کمال صرف کمال مصطفیٰ کی بیٹی نہیں،میری بیوی بھی ہیں“۔سرد لہجے میں وارننگ دیتے انداز میں کہتا ہوا لمبے ڈنگ بھرتا باہر نکل گیا۔