لاونج کے بیچوں بیچ صوفے پر بیٹھی پندرہ سالہ علیشبہ کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔
”مما،فاطمہ آپی اب کبھی نہیں آئیں گی؟“۔وہ اپنی ماں سے معصومیت سے پوچھ رہی تھی.
”شکر ادا کرو، جان چھوٹی دوبارہ بلا کے کیا کرنا؟“۔ریحانہ نے ہاتھ میں پکڑے اخروٹ کو چھیلتے ہوئے نخوت سے سر جھٹکا۔ان کے لہجے میں بے نیازی تھی۔
”لیکن مما، وہ تو اتنی اچھی ہیں“۔علیشبہ اپنی ماں کی بات کا برا مناتے ہوئے آہستگی سے بولی۔اس کی آواز میں خفگی اور ناراضگی صاف جھلک رہی تھی۔
”اس گھر میں سب کو بس فاطمہ کی فکر ہے۔ارے،وہ تو خوشی خوشی چلی گئی۔کسی کو میرے بیٹے احسن کا خیال ہی نہیں۔اور تم،علیشبہ،آئندہ اس فاطمہ کا نام مت لینا“۔ریحانہ کے جواب دینے سے پہلے ہی لاونج میں شمائلہ چچی کی گرجدار آواز گونجی۔شمائلہ کے چہرے پر غصہ اور بے بسی نمایاں تھی۔
”کیا ہوگیا ہے شمائلہ؟کیوں بچی پر چیخ رہی ہو؟“۔علیشبہ کا سہما ہوا چہرہ دیکھ کر دادی سکینہ نے کرخت لہجے میں مداخلت کی۔
”بس کریں اماں،بس کردیں۔میرے بیٹے کی تو کسی کو کوئی فکر نہیں۔آپ کو کیا پتا،ناجانے میرے بیٹے کے ساتھ کیا بیت رہی ہوگی؟“۔۔ہاتھ ہلا ہلا کر وہ بدلحاظی سے کہ رہی تھیں۔غم اور غصے کا امتزاج لیے۔
”بھابھی، ہم مانتے ہیں کہ آپ کو صدمہ ہوا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہر کسی پر اپنا غصہ نکالیں۔ یہ اماں ہی ہیں جو احسن کی خیر کی دعائیں مانگ رہی ہیں“۔ریحانہ نے غصے سے اپنے ہاتھ میں پکڑا ڈرائی فروٹ کا پیالہ میز پر پٹخا اور شمائلہ کو گھورتے ہوئے بولی۔
”بس کرو تم دونوں!یہ سب اس فاطمہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ نام تو نیک ہے،لیکن حرکتیں اللّٰہ معافی۔اب اس گھر میں کوئی اس کا نام نہیں لے گا۔بات ختم“۔دادی سکینہ نے دونوں کو جھاڑتے ہوئے حتمی لہجے میں کہا۔ان کی سانسیں پھولنے لگیں تو علیشبہ فوراً دوڑ کر پانی کا گلاس لے آئی اور نانی کو پکڑایا۔
”جتنا اُن کا نام نیک ہے،اتنی ہی وہ بھی۔کتنا ظلم کریں گے آپ لوگ؟وہ معصوم ہیں، پاکیزہ ہیں،بالکل اپنے نام کی طرح۔آپ لوگ اب بھی ان کی کردار کشی کرنے سے باز نہیں آ رہے؟ کیا آپ لوگوں کا دل اتنا سخت ہو چکا ہے؟ مت اتنا گریں کہ بعد میں اٹھ نہ سکیں“۔دادی کی بات سن کر اچانک کچن سے ماریہ باہر آئی۔اس کے چہرے پر دکھ اور غصہ نمایاں تھا۔وہ مضبوط قدموں سے آگے بڑھی اور افسوس بھری نظروں سے سب کو دیکھتے ہوئے بولی۔
”تم،ماریہ؟ تمہیں اپنے بھائی کی ذرا بھی فکر نہیں؟اور اس منحوس لڑکی کی حمایت کر رہی ہو؟کہیں تمہارا بھی فاطمہ جیسا ارادہ تو نہیں؟اگر ایسا ہے تو یاد رکھنا،میں تمہارا گلا دبا دوں گی“۔شمائلہ کے الفاظ زہر کی طرح تھے، اور ان کی نظریں شعلے برسا رہی تھیں۔ماریہ نے بےیقینی سے اپنی ماں کو دیکھا۔
”امی،آپ اپنی بیٹی کے بارے میں ایسا کیسے کہہ سکتی ہیں؟کیسے امی؟کیسے؟“۔ماریہ کی آواز کانپ رہی تھی۔ آنکھوں میں بےیقینی،رنج اور اذیت کے رنگ نمایاں تھے۔دادی سکینہ اور پھوپھی ریحانہ بھی اپنی جگہ دنگ رہ گئی۔
”رہی بات احسن کی، تو اس گھر میں شاید دو لوگ ہی اس سے سچی محبت کرتے ہیں،فاطمہ کمال اور ماریہ ابراہیم۔ اور امی،آپ جو کچھ فاطمہ کے ساتھ کر چکی ہیں،احسن جب واپس آئے گا تو وہ مجھ سے بھی زیادہ آپ سے ناراض ہوگا۔کیونکہ فاطمہ کمال اسے بہت عزیز ہے“۔ یہ کہہ کر ماریہ نے لرزتی سانسوں کو سنبھالا، اور تیز قدموں سے لاونج سے نکل گئی۔شمائلہ چچی نے لب وا کیے۔جیسے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔جیسے وضاحت دینا چاہتی ہوں۔لیکن دے نہ سکی۔
”شمائلہ، تمہیں ماریہ سے یہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا۔ فاطمہ اور ماریہ میں بہت فرق ہے“۔دادی نے شمائلہ کو ملامت بھری نظروں سے دیکھا۔شمائلہ نے نظریں جھکا لیں، جیسے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ہو،مگر زبان خاموش رہی۔
کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی،اور اگلے ہی لمحے وہ اندر آ چکا تھا۔اس کے لیے دستک دینا محض ایک اعلان تھا،اجازت لینا نہیں۔
وہ بک ریک کے پاس کھڑی کتابوں کو ترتیب دے رہی تھی، شاید یونہی مصروف دکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ہاتھ میں ایک کتاب لیے وہ آہستہ سے اس کی طرف مڑی۔سامنے وہ کھڑا تھا۔سیاہ ٹی شرٹ کے اوپر سیاہ جیکٹ،جینز میں ملبوس،بال جیل سے سلیقے سے سیٹ کیے گئے،وہ کہیں جانے کے لیے مکمل تیار تھا۔
”جلدی سے تیار ہو جائیں، میں آپ کو ایک عزیز کے گھر چھوڑوں گا“۔اس کی بھاری سنجیدہ آواز کمرے میں بکھر گئی۔چاند کی مدھم روشنی کھڑکی کے شیشوں سے چھن کر اندر آرہی تھی۔اس کی ٹھنڈی چمک فرش پر بکھری پڑی تھی۔
”کیوں؟تم…تم کہیں مجھے بیچنے تو نہیں والے؟“۔وہ چند لمحے ساکت رہی،پھر بےاختیار بولی۔آواز میں لرزش تھی، نیلی آنکھوں میں خوف کی ہلکی سی جھلک نمودار ہوئی۔
”استغفراللّٰہ، لڑکی! جب بھی کچھ سوچیے گا، فضول ہی سوچیے گا“۔۔بےساختگی سے اس نے کہا تھا،افسوس سے سر ہلاتے ہوئے۔
”نہیں تو،تمہارا کیا خیال ہے،اِن حالات میں میں یہ سوچوں گی کہ تم مجھے کسی عزیز کا کہہ کر اپنے ساتھ ڈنر پر لے کر جاؤ گے؟میں جس طرح یہاں ہوں، اس میں میرے پاس یہی سوچنے کے لیے باقی رہ گیا ہے“۔تلخ مسکراہٹ ہونٹوں کا احاطہ کی۔اس کے لہجے میں زہر گھلا تھا،اور نظروں میں خفگی۔سر جھکاتے ہوئے وہ ہنس دیا۔مختصر سی یہ ہنسی بہت خوبصورت تھی۔اتنی کہ لمحے بھر کو کمرے کی سنگین فضا بدل گئی۔
Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 6
