”فاریہ،آپ مجھے میرا لیپ ٹاپ اسٹدی سے کمرے میں لادیں“۔۔ ہاشم صاحب فاریہ سے مخاطب ہوئے تو وہ سر ہلاتی ہوئی چلی گئی،ہاشم ارتضیٰ بھی وہاں سے جاچکے تھے۔ڈرائنگ روم میں اب صرف وہ دونوں تھے۔
”آپ مجھے وِش نہیں کریں گی؟“۔ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے گہری نگاہوں سے فاطمہ کو دیکھا۔
”قتل یا پھر اغواء کرنے جا رہے ہوگے“۔فاطمہ نے تندہی سے اسے دیکھا۔”اب اس کے لیے میں ان کی طرح پروٹوکول تو دینے سے رہی“۔تنفر سے سر جھٹکی۔
”ٹھیک کہہ رہی ہیں“۔فاز کی آواز میں سنجیدگی تھی،اور اس کا لہجہ اتنا پُرعزم تھا کہ فاطمہ نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کے قریب آئی،اور چہرے پر خوف کی لکیریں واضح ہو گئیں۔
”تم واقعی قتل کرنے جا رہے ہو؟“۔اس کی آواز دھیمی تھی۔بےیقین سی۔نیلی آنکھیں نم تھیں،جو ان کے درمیان کسی خلیج کی طرح پھیل رہا تھا۔ فاز نے افسوس سے اسے دیکھا، وہ خود بھی اس صورتحال میں بے بس تھا۔
”آپ رات یہی ٹھریں گی۔ کچھ پتہ نہیں میں کتنی دیر میں واپس آؤں گا۔پریشان نہیں ہوئیے گا“۔اس نے بات بدل دی، مگر اس کے اندر ایک عجیب سا خلا تھا جو ان الفاظ کے ذریعے بھی پر نہ ہو سکا۔
”کب آؤ گے؟“۔اس کی زبان سے کچھ الفاظ پھسل گئے۔کب،کیسے،کیوں؟لیکن وہ پوچھ بیٹھی تھی۔
”فاطمہ“۔اس نے گہری سانس بھری۔“یو آر سیف۔ڈونٹ بی افریڈ۔جانا ضروری نہیں ہوتا تو کبھی نہیں چھوڑتا یہاں“۔ وہ نرم لہجے میں کہہ رہا تھا۔اس کے خوف کو زائل کرنے کو۔
”آپ کی کلائی آج کچھ ادھوری سی لگ رہی ہے۔یہ پہن لیجیے گا“۔اس نے جیب سے ایک پیکٹ نکالا اور اس کا ہاتھ تھام کر،ہتھیلی میں رکھ دیا۔وہ۔حق دق سی اس سارے عمل کو دیکھ رہی تھی۔اس کا دماغ گومگوں کی حالت میں تھا۔ وہ اسے نہیں سمجھ پا رہی تھی۔
”خدا حافظ“۔اس نے ہلکا سا اس کا ہاتھ دبا کر چھوڑا،پھر قدموں کی آواز سنائی دی،اور وہ وہاں سے نکل گیا۔
پیکٹ کھولتے ہوئے فاطمہ نے اس میں سے بلیک بیلٹ والی گھڑی نکالی۔یہ گھڑی اس کی اپنی ہی تھی۔شاید اس دن وائے ڈی کے گھر پہ رہ گئی تھی جب وہ احسن کی وجہ سے اس کے گھر میں آئی تھی۔اس کا لاک مسئلہ کررہا تھا لیکن وہ پھر بھی پہن چکی تھی اور تب ہی شاید وہ یہی گڑ گئی تھی۔وہ گھڑی اسے مما نے دی تھی۔یہ کہ کر کسی بہت عزیز شخص نے اس کے لیے بھجوایا ہے۔وہ گھڑی پہننا چھوڑ دی تھی۔جب اس کی زندگی کی گھڑی رک گئی تھی،تو پھر وہ ان گھڑیوں کا کیا کرتی؟وہ اسے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھی اور ایک خاموش درد سے آنکھوں میں نمکین پانی آ گیا۔اس کی آنکھوں کے گوشے میں ایک باندھی ہوئی یاد تھی جو کبھی بھی جھیل کا پانی بن کر بہنے لگتی۔
”حد ہوتی ہے یار، گھڑی سے بھی نکل کر آگے آؤ، جب دیکھو گھڑی“۔عابد کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔وہ ہر بار یہی کہتا تھا۔اگر فاطمہ کو گھڑی پسند تھی۔تو وہ اس کی پسند کا احترام کیوں نہیں کرتا تھا؟۔مگر آج،جب یہ گھڑی اس کے ہاتھ میں تھی،فاطمہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے یہ گھڑی ایک وعدہ ہے،ایک رشتہ ہے،جسے وہ کسی طور توڑ نہیں سکتی۔
”تم واقعی اتنے اچھے ہو؟ ہو بھی تو، میرے لیے نا بنو۔ مشکل مت کھڑی کرو میرے لیے“۔ وہ سسکی تھی،اور اس کی آواز میں گہرا دکھ تھا۔فاز کے تصور سے وہ مخاطب تھی۔ناجانے کیوں لیکن وہ اس گھڑی کو اپنی کلائی کی زینت بنا چکی تھی۔اس گھڑی کا لاک بھی شاید صحیح کروایا گیا تھا۔
”فاطمہ!“۔فاریہ ہاشم کی پکار پر اس نے جلدی سے آنسو صاف کیے۔
”آجاؤ، کمرے میں چلتے ہیں“۔فاریہ نے نرم لہجے میں کہا، فاطمہ نے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی۔پھر دونوں ایک ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
یہ جو زندگی کی کتاب ہے
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
کہیں ایک حسین خواب ہے
کہیں جان لیوا عذاب ہے
کبھی کھولیا،کبھی پالیا
کبھی رولیا،کبھی گالیا
کہیں رحمتوں کی ہیں بارشیں
کہیں تشنگی بےحساب ہے
کہیں چھاؤں ہے،کہیں دھوپ ہے
کہیں اور ہی کوئی روپ ہے
کہیں چھین لیتی ہے ہر خوشی
کہیں مہربان بےحساب ہے
یہ جو زندگی کی کتاب ہے
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
(انتخاب)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رات اپنی پوری شدت کے ساتھ پہاڑوں پر سایہ فگن تھی۔
گہری سیاہ رات، خاموش پہاڑ، اور چٹانوں کے درمیان پانچ سائے اپنی موجودگی کا نشان تک چھوڑے بغیر حرکت کر رہے تھے۔ان کے چہرے سیاہ ماسک میں چھپے تھے،لباس بھی گہری رات کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔چمکتے ہتھیار ان کے مہارت یافتہ ہاتھوں میں جگمگا رہے تھے۔چاند بادلوں کے پیچھے چھپ کر جیسے ان سائے نما وجودوں کو مزید چھپنے میں مدد دے رہا تھا۔
ان کے آگے صرف پتھریلے راستے اور بے رحم چٹانیں تھیں۔ اگر قدم غلطی سے بھی پھسلتا تو انجام صرف ایک تھا۔ گہری کھائیوں میں گم ہو جانا۔مگر یہ لوگ ماہر تھے،ہر پتھر پر گرفت مضبوط،ہر حرکت محتاط تھی۔وہ سائے کی طرح اندھیرے میں گھل مل رہے تھے۔
”لوکیشن اس پہاڑ کی ہے“۔سب سے آگے چلنے والے نے ہاتھ کے اشارے سے نشاندہی کی۔اس کی آواز دھیمی مگر مضبوط تھی۔سب نے خاموشی سے سر ہلایا اور اس کے پیچھے چلنے لگے۔راستہ دشوار تھا۔اونچے نیچے پتھروں پر توازن برقرار رکھنا آسان نہیں تھا،مگر ان کے قدم کسی ماہر شکاری کی طرح ہلکے اور درست تھے۔اچانک،جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی۔پانچ لوگ بیک وقت الرٹ ہوگئے۔سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سب چٹانوں کی اوٹ میں چلے گئے، اپنی گنز تھامے،انگلیاں ٹریگر پر،آنکھیں شبے کے اندھیرے کو چیرنے کے لیے تیار۔ایک لمحہ، دو لمحے۔۔۔پھر اچانک ایک گلہری جھاڑی سے نکلی اور پھرتی سے بھاگ گئی۔
”کم آن،کم آ ہیڈ“۔سب سے آگے والے نے کمانڈ دی،اور وہ دوبارہ حرکت میں آ گئے۔کچھ ہی دیر میں وہ مطلوبہ پہاڑ تک پہنچ چکے تھے۔
”یہ پتھر ہٹانا ہوگا، تب ہی اندر جا سکتے ہیں“۔ہیڈ نے دو ساتھیوں کو اشارہ کیا۔طاقتور ہاتھوں نے بھاری پتھر کو جنبش دی۔تھوڑی دیر کی مشقت کے بعد پتھر ایک طرف سرک چکا تھا،اور سامنے ایک تاریک سرنگ منہ کھولے کھڑی تھی۔ہیڈ نے اندر جھانک کر جائزہ لیا،پھر باہر آ کر ہاتھ جھاڑا۔
”جگہ کم ہے،صرف بیٹھ کر ہی جا سکتے ہیں۔یہ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں“۔رات کے سناٹے میں جنگلی جانوروں کی آوازیں اور سرسراہٹیں اب بھی ماحول کا حصہ تھیں،مگر ان پانچ سائے پر ان میں سے کوئی بھی چیز اثر انداز نہیں ہو رہی تھی۔
”اے اور زی، سامنے والے حصے پر نظر رکھو،کوئی آتا دکھے تو شوٹ کر دینا۔ایف تم یہاں باہر انتظار کرو گے۔باقی،اے آئی اور ایچ تم دونوں میرے ساتھ آؤ“۔
”اوکے، سر“۔کمانڈ ملتے ہی سب اپنی پوزیشن سنبھال چکے تھے۔اندر جانا آسان نہیں تھا۔سرنگ اتنی تنگ تھی کہ صرف بیٹھ کر،گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھا جا سکتا تھا مگر ان کے چہروں پر کوئی جھجک،کوئی خوف نہیں تھا۔صرف ایک عزم تھا۔کچھ ہی دیر میں،اندھیرے کے اندر روشنی کا ایک ہلکا سا دائرہ نظر آیا۔یہ ایک غار تھی۔وہ تینوں ایک ساتھ اندر کودے۔اور جیسے ہی وہ نیچے اترے، ایک کونے میں دبکی ہوئی پانچ لڑکیاں لرزتے وجود کے ساتھ ان کی طرف دیکھنے لگیں۔خوف اور امید کے امتزاج سے بھری آنکھوں کے ساتھ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
”آپ فاز کے گھر میں کب تک اسٹے کریں گی؟“۔چمکتی اسکرین کی روشنی میں نظریں جمی ہوئی تھیں،اسکرولنگ کرتے ہوئے،بے پروا سا لہجہ میں سرسری سا سوال کیا گیا۔ فاطمہ نے چونک کر اسے دیکھا،جیسے وہ کسی اور ہی دنیا میں تھی اور یہ سوال اسے اچانک حقیقت میں واپس کھینچ لایا ہو۔
”اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی میں“۔چند لمحے کی خاموشی کے بعد اس نے اپنی الجھن چھپاتے ہوئے عام سے انداز میں کہا۔
”بس وہ خیر خیریت سے واپس آجائیں۔جب بھی وہ اس طرح جاتے ہیں،میرا دل بری طرح خوفزدہ رہتا ہے۔جب تک وہ صحیح سلامت واپس نہ آجائیں،سکون نہیں ملتا“۔ موبائل کی اسکرین پر نظریں ٹکائے وہ دھیمے لہجے میں بولی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے لہجے کی لرزش،اس کے الفاظ کی گہرائی،فاطمہ کے دل کے اندر کہرام برپا کر رہی تھی۔وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔گہری جانچتی نگاہوں سے۔
”بہت فکر کرتی ہو؟“۔فاطمہ نے نرمی سے پوچھا،مگر اس کی آنکھوں میں سوال کہیں زیادہ گہرے تھے۔
”خود سے بھی زیادہ۔بہت اہم ہیں وہ میرے لیے“۔نظریں اٹھا کر فاطمہ کو دیکھتے ہوئے بولی۔فاطمہ نے بغور دیکھا۔اس کی آنکھوں میں جھلملاتے جگنو کو۔وہ چمک جو کسی اپنے کے لیے جلتی ہے،کسی اپنے کے لیے راستہ دکھاتی ہے۔
خاموشی گہری ہوگئی تھی۔فاطمہ نے آہستہ سے اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب بند کردی۔اس کے دل و دماغ میں ایک طوفان اٹھ رہا تھا۔دل کچھ اور کہہ رہا تھا،دماغ کسی اور سمت کھینچ رہا تھا۔مگر پھر،وہ بول ہی پڑی۔
”ہمارے نکاح میں کیوں نہیں آئی تھی؟“۔سوال عام تھا، مگر اس کے کہنے کا انداز عام نہیں تھا۔
”کس کا نکاح؟“۔فاریہ کی انگلیاں جو موبائل پر چل رہی تھیں،رک گئیں۔آنکھوں میں حیرت اتری،جیسے اس نے کچھ غلط سن لیا تھا۔
”میرا اور فاز کا“۔سادگی اور معصومیت سے وہ فاریہ کو دیکھ رہی تھی۔
”واٹ؟ لیکن وہ تو کہتے تھے کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتے“۔فاریہ کو زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔اس کی آنکھوں میں وہ جگنو اچانک بجھ گئے۔چمک مدھم پڑ گئی۔
”واقعی؟لیکن وہ تو کہتا ہے کہ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے“۔فاطمہ نے نظریں جھکائیں،پھر اٹھا کر اسے دیکھا،اور ایک ایسا وار کیا جو سیدھا دل پر لگا۔سکون سے، آہستگی سے، مگر جڑوں تک ہلا دینے والے الفاظ۔۔کچھ غلط بیانی سے یہاں کام لیا گیا تھا۔
”محبت؟“۔فاریہ کے لب کپکپائے،وہ جیسے کچھ کہنا چاہ رہی تھی،مگر الفاظ ساتھ چھوڑ گئے۔آنکھوں میں بےیقینی،قدموں میں لڑکھڑاہٹ،اور پھر وہ اچانک پلٹی اور بھاگتی چلی گئی۔
فاطمہ اسے جاتا دیکھتی رہی،ایک لمحے کے لیے دل میں کسک ہوئی،افسوس ہوا،مگر پھر وہ سرد تاثرات لیے کھڑکی کی طرف پلٹی۔ہوا میں عجیب سی خاموشی تھی۔
”فاز عالم،اگر ایسا ہے تو پھر…ایسے ہی سہی“۔وہ سرگوشی میں خود سے بولی۔
”کون ہو تم؟ پلیز ہمیں جانے دو“۔خوف سے کانپتی،آنکھوں میں بے بسی کے سائے لیے وہ سب روتے ہوئے التجا کر رہی تھیں۔کراچی میں اغوا کے بڑھتے کیسز کی ایک اور گونج، ایک اور چیخ تھی جو یہاں دب چکی تھی۔یہ پانچ لڑکیاں مختلف راستوں سے آئی تھیں۔کچھ اپنی معصومیت میں میٹھی باتوں کے جال میں الجھ کر،تو کچھ زبردستی چھینی گئی آزادی کا نوحہ بن کر۔اندھیرے میں ایستادہ سیاہ پوش شخص نے ایک بےتاثر نگاہ ان پر ڈالی۔
”آپ آزاد ہونے والی ہیں“۔اس کی پتھریلی آواز غار میں ارتعاش پیدا کر گئی۔”جو کہوں،خاموشی سے کریں۔اس راستے سے باہر نکلیں، فوراً“۔اس کا انداز ایسا تھا کہ کسی کو سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر،وہ سب اس کے حکم پر عمل کرنے لگیں۔ان کے کپڑے مٹی میں اٹے ہوئے تھے۔
”تیزی سے نکلیں یہاں سے“۔وہ انہیں راستہ دکھاتا خود غار کے آخری کونوں کو چیک کرنے لگا۔چار لڑکیاں نکل چکی تھیں،آخری ابھی دروازے کے قریب تھی کہ اس کے کان میں موجود ایئربڈ میں “اے” کی گھمبیر آواز گونجی۔
”سر، دو کو میں نے شوٹ کر دیا، لیکن ایک بچ گیا ہے۔ وہ اندر آ رہا ہے“۔ایک لمحے میں اس کے چہرے کے تاثرات سخت ہو گئے۔تیزی سے لڑکیوں کی طرف دیکھا۔وہ سب غار سے باہر جا چکی تھیں۔
”تم دونوں فوراً انہیں لے کر یہاں سے نکلو اور لڑکیوں کو بحفاظت لے کر پہنچو“۔وہ اپنے ساتھ موجود دو جوانوں کی طرف مڑا،لہجہ حکم دینے والا تھا۔
”لیکن سر، آپ…“ ایک نے ہچکچاتے ہوئے اس کے زخمی بازو کی طرف دیکھا، جو پہلے ہی گولی کا زخم سہہ چکا تھا۔
”آئی سیڈ گو،ہری اپ“۔وہ سپاٹ انداز میں بولا،اور دونوں سر ہلاتے وہاں سے روانہ ہو گئے۔اب وہ اکیلا رہ گیا تھا۔
غار کے اندھیرے میں، وہ ایک طرف دیوار کے ساتھ چپ ہو کر کھڑا ہو گیا،سانسیں ہموار،نظریں شکار کی تلاش میں، اور انگلیاں ٹریگر پر سختی سے جمائی ہوئی۔چند ثانیے ہی گزرے تھے کہ اس کا ہدف اندر داخل ہوا۔محتاط، چوکنا،مگر لاعلم کہ وہ پہلے ہی کسی کے نشانے پر ہے۔