رات ميں بس اپنے اپنے کمروں ميں پہنچ کر وہ سب صرف کھانا کھانے کے لئے ہال ميں اکٹھے ہوئے اور پھر آرام کی غرض سے کمروں ميں چلے گئے۔
اگلے دن اس انٹرنيشنل ايکٹر نے آنا تھا۔
اگلے دن صبح ميں اشاذ ڈرائيور کے ساتھ اس ايکٹر کو ائير پورٹ پر لينے جاچکا تھا۔
جبکہ ريم سميرہ کے ساتھ ہوٹل کے پچھلی جانب بنے خوبصورت منظر کو ديکھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے پہنچ چکی تھی۔
“تم اتنی ہی خاموش رہتی ہو يا مجھ سے پہلی بار ملنے کی وجہ سے ہو” سميرہ کب سے خود ہی بول رہی تھی۔ اور مسکرا کر بس ہاں ہوں ميں جواب دے ديتی۔
“نہيں ميں بے تکلف ہونے ميں بہت وقت ليتی ہوں” صاف گوئ سے اسے بتا کر سامنے موجود پہاڑوں اور اسکے اوپر بادلوں کا سنگم ديکھنے لگی۔
“آؤ تمہيں مارگلہ کا يہ ٹريک دکھاؤں” وہ اسے لئے ايک خوبصورت سی سڑک پر لے آئ۔ دونوں فٹ پاتھ پہ چلتی باتيں کرنے لگيں۔ اردگرد خوشگوار سی ٹھنڈک اور جابجا سبزے نے اس ماحول کو بے حد خوبصورت بنا رکھا تھا۔ ہر سڑک کے آخر ميں پہاڑوں کا منظر بہت ہی دلفريب لگ رہا تھا۔
“اشاذ کی بہت خواہش ہے کہ يہاں ہم اپنا گھر ليں۔ وہ اس بار آيا بھی اسی نيت سے ہے۔ اور مجھے بھی اسی لئے لايا ہے کہ يہ کام اس بار کرکے ہی جانا ہے” اسکے بازو ميں ہاتھ ڈالے وہ اسے اشاذ کے ارادے بتا رہی تھی۔
“آپکے پيرنٹس؟” ريم نے بات سے بات نکالنے کے لئے ويسے ہی پوچھا۔
سميرہ کی مسکان يکدم سمٹی۔ ريم کو اپنا سوال اس لمحے بے حد غلط لگا۔
“وہ دونوں اپنی اپنی زندگيوں ميں مگن ہيں۔۔ بہت عرصے پہلے انہوں نے ڈيوارس لی اور پھر اپنے اپنے نئے ساتھيوں اور نئے بچوں کے ساتھ خوش ہيں” سميرہ کے لہجے ميں نا چاہتے ہوۓ بھی تلخی سمٹ آئ۔
“آئم سوری” ريم کو کچھ سمجھ نہيں آيا کيا کہے۔
Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Episode 3 Online Reading
