Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Last Episode 5

اگلے دن اشاذ نے خود تصويريں اخبار والوں کو بھيجيں۔۔
حاکم شاہ اپنا سارا پلين فلاپ ديکھ کر بگڑ چکا تھا۔
اخبار کے فرنٹ پيج پر اشاذ اور ريم کی نکاح کی تصويريں ديکھ کر وہ بلبلا اٹھا۔
وہ جو اسے ايک دنيا ميں بدنام کرنا چاہتا تھا۔
آج لوگوں سے مبارکباديں اور نيک تمنائيں سميٹ رہا تھا۔
“تم نے پورا ايک دن ضائع کرديا ہے” اسکے اسی دوست کا فون تھا جسے اس نے نمبر ٹريس کرنے کے لئے ديا تھا۔
“پہلے تو نکاح کی مبارک وصول کرو۔۔ اور ميں حيران ہوں کہ يہ نمبر کس کے زير استعمال ہے۔۔ يقينا جان کر تم بھی حيران ہوگے” اشاذ اسکی بات سن کر چونکا۔
“یہ نمبر حاکم شاہ کے زير اسعتمال ہے۔۔ تمہيں کچھ سکرين شاٹس بھی بھيج رہا ہوں۔ اور کال کی ريکارڈنگز بھی” اسکی بات پر وہ جتنا حيران ہوتا کم تھا۔
وہ سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ راشد يہ سب کرے گا۔ اس نے ہر لمحہ ہر مقام پر اس کا ساتھ ديا تھا۔ ہميشہ فنائنشلی اسے سپورٹ کيا تھا۔
تمام ريکارڈنگز سننے کے بعد اس کا اشتعال کم ہونے ميں نہيں آرہا تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے ارم کو فون کيا۔
“کيسے ہو دلہے مياں” وہ شوخ لہجے ميں بولی۔
“راشد اس وقت کہاں ہے۔۔ ميں اسے فون کر رہا ہوں وہ فون نہيں اٹھا رہا” اسکی بات کے مقابلے ميں اس کا سنجيدہ لہجہ ارم کو بری طرح کھٹکا۔
“کيا ہوا ہے سب خير ہے؟”
“وہ اس وقت سيٹ پر ہوگا۔ تم کتنی دير تک آرہے ہو۔۔ ويسے بھی آج شوٹنگ کا آخری دن ہے” ارم کی بات پروہ ہنکارا بھر کر رہ گيا وہ سب کے سامنے اسے ذليل نہيں کرنا چاہتا تھا۔
مگر اسے چھوڑنا بھی نہيں چاہتا تھا۔

ميں آرہا ہوں” فون بند کرکے وہ تيزی سے تيار ہوا۔
سيٹ پر پہنچ کر پہلے اس نے تحمل سے ساری شوٹنگ پوری کروائ۔
رات ميں دس بجے کے قريب وہ سب فارغ ہوۓ۔ بہت سے ٹيکنيشنز اور کريو کے لوگ جاچکے تھے۔
اشاذ نے راشد کو ارم کے آفس ميں آنے کا اشارہ کيا۔
“جی سر”
“يار يہ کچھ چيزيں تمہيں بھيج رہا ہوں۔ بہت دلچسپ ہيں سنو ذرا” صوفے پر اسے اپنے برابر بٹھاتے ہوۓ کہا۔
پھر موبائل سے وہ سب ريکارڈنگز اسے واٹس ايپ کيں۔
راشد نے بڑے اشتياق سے ايک ريکارڈنگ پلے کی۔
مگر اپنی اور حاکم شاہ کی گفتگو سن کر اسکے چہرے پر ايک رنگ آرہا تھا ايک جا رہا تھا۔
اشاذ ايک بازو صوفے کی پشت پر رکھے۔ بڑے غور سے اسکے تاثرات جانچ رہا تھا۔
“يہ تم نے کيوں کيا؟” اسکے ہاتھ سے موبائل ليتے وہ اسکے نزديک ہوا۔۔
آنکھوں ميں انتہائ اجنبی تاثر تھا۔
“کيا ميری تمہارے ساتھ کبھی کوئ دشمنی رہی ہے؟” اسکے سوال پر وہ تھوگ نگل کر سر نفی ميں ہلا گيا۔
“کتنے پيسے دئيے تھے جاکم نے تمہيں؟” اسکے اگلے سوال پر اسے اپنا گلا اور بھی خشک لگا۔
“سر وہ۔۔” اس سے پہلے کہ وہ کوئ بات بناتا اشاذ اس کی بات کاٹ گيا۔
“اماؤنٹ بتاؤ” وہ چلايا۔ راشد کو اپنی خير نظر نہيں آرہی تھی۔
يکدم اسکی گردن اشاذ کے ہاتھ کے شکنجے ميں آچکی تھی۔
“ميں تو اذل سے بدنام ہوں۔۔ مگر اس معصوم لڑکی کے ساتھ تم نے کيا کيا ہے جانتے ہو” اسکی گردن کو جھٹکا دے کر وہ ايک ايک لفظ چبا کر بولا۔
“معاف ۔۔ معاف کرديں سر” اسکے آگے ہاتھ جوڑے۔
“اب کل ميں پريس کانفرنس کروں گا۔ جس ميں تم يہ بات مانو گے کہ تم نے حاکم شاہ کے کہنے پر يہ سب کيا۔۔ اور ميرا اور ريم کا آپس ميں کوئ ريليشن شپ والا چکر نہيں تھا۔” اس نے تب تک راشد کی گردن نہيں چھوڑی جب تک وہ اشاذ کی بات نہيں مان گيا۔
“اور آئندہ کسی کی ماں، بہن اور بيٹی کی عزت کی قيمت لگاتے ہوۓ يہ سوچ لينا کہ تم بھی بيٹی اور بہن والے ہو۔” جھٹکے سے اسکی گردن چھوڑی


Leave a Comment