Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Last Episode 5

کانفرنس ختم ہوتے ہی وہ آفس سے نکل کر باہر کی جانب بڑھا۔ راشد بھی اسکے ہمراہ تھا۔
“سر ارم ميڈم کی طرف چلنا ہے؟” کسی نئے پراجيکٹ کے لئے ارم نے انہيں بلايا تھا۔ اشاذ نے راشد کو يہی کہا تھا کہ کانفرنس ختم ہوتے ہی دونوں وہاں چليں گے۔
راشد اپنی گاڑی کی جانب بڑھنے سے پہلے ويسے ہی اس سے پوچھ بيٹھا۔
“تم چلو ارم کے پاس ۔۔۔ ميں ايک حساب چکتا کر آتا ہوں” مصروف سے انداز ميں کہتا وہ گاڑی کا لاک کھول کر اندر بيٹھا۔ راشد کا کوئ بھی جواب سننے سے پہلے وہ گاڑی آگے بڑھا چکا تھا۔
راشد کو اسکی بات سے کچھ خطرے کی بو محسوس ہوئ۔ اسی لمحے اس نے ارم کا نمبر ملايا۔
“کہاں ہو۔ دونوں۔۔ نکلے نہيں ابھی” اشاذ کے کہنے پر ارم راشد کو معاف کرچکی تھی۔ اور نوکری سے بھی برطرف نہيں کيا تھا۔
مگر اس نے راشد کی اچھی خاصی کلاس لے کر اشاذ کے وہ سب احسان ياد کروا کر اسے رونے پر مجبور کرديا تھا جو وہ وقتا فوقتا راشد پر کرتا رہا تھا۔
“ميم۔۔ مجھے خيريت نہيں لگ رہی۔ اشاذ سر مجھے آپکی جانب آنے کا کہہ کر خود کہيں اور گئے ہيں۔” اور پھر اس نے اشاذ کا آخری جملہ بھی من و عن سنايا۔
“راشد تم فورا اسکا پيچھا کرو۔۔ مجھے لگتا ہے يہ حاکم شاہ کے پاس نہ گيا ہو۔۔ جلدی نکلو” ارم کے کہنے پر وہ فورا اپنی گاڑی اسی راستے پر بڑھا چکا تھا جہاں کچھ دير پہلے اشاذ کی گاڑی گئ تھی۔ کچھ فاصلے سے ہی اس نے اشاذ کی گاڑی کو ٹريس کرليا تھا۔
ارم کا شک درست تھا۔ وہ راستہ حاکم کے ہی گھر کی جانب جاتا تھا۔
کچھ دير بعد اشاذ کی گاڑی حاکم کے گھر کے آگے رکی۔
چوکيدار اسے اچھے سے جانتا تھا لہذا کچھ بھی کہے بغير اسکے لئے دروازہ کھول ديا۔
اور فورا اندر اسکی آمد کی اطلاع بھی دے دی۔
اندر موجود ايک اور ملازم اسے ڈرائنگ روم ميں بٹھا کر اندر کی جانب غائب ہوگيا۔
اشاذ کو زيادہ انتظار نہيں کرنا جب غصے سے بپھرا حاکم اندر آيا۔
“کيا کرنے آئے ہو تم اب يہاں” وہ غصے سے پھٹ پڑا۔
“ديکھنے آيا ہوں کہ شکست کھايا حاکم شاہ کيسا لگتا ہے۔۔ يہ تو ابھی آغاز تھا۔ ابھی جو کيس تم پر اور تمہارے ميڈيا مين موجود چيلوں پر کروں گا۔۔ اسکے لئے تيار رہنا۔۔ اس دشمنی کا آغاز ميرے وارن کرنے کے باوجود تم نے کيا۔ اب اس کا اختتام ميں اپنی مرضی سے کروں گا” وہ دونوں اس وقت آمنے سامنے کھڑے تھے۔ اپنی زچ کرنے والی مسکراہٹ اس پر اچھالتا وہ اسے اور بھڑکا گيا تھا۔
اس سے پہلے کے وہ مڑتا۔ حاکم نے بپھر کر اسکا بازو پکڑ کر رخ اپنی جانب موڑ کر ايک زوردار مکا اسکے منہ پر مارا۔ اشاذ اس حملے کے لئے ہر گز تيار نہيں تھا۔
وہ تيزی سے پيچھے ہوا۔
“تم اس قدر بزدل ہو۔۔ مجھ سے مقابلہ کرنا ہے تو عدالت آؤ۔۔ لوگوں کے سامنے کرو۔۔ يہ کيا کہ بند کمرے ميں مجھ پر ہاتھ اٹھا رہے ہو۔۔ اپنے گھر تو ہر کوئ شير ہوتا ہے مزہ
تو تب ہے جب عدالت ميں مجھ پر ہاتھ اٹھاؤ۔۔ بھرے مجمع ميں” اپنے پھٹے ہونٹ سے خون صاف کرتا ہوا وہ چينلج کرکے بولا۔
“کروں گا وہ بھی کروں گا۔۔۔ تيری بيوی کا تو گھر بھی پتہ چل گيا ہے۔۔ اب تو اگلا وار وہيں سے کروں گا۔۔ پہلے اس کو سہہ لينا” اسکی گھٹيا بات پر وہ جو اب تک تحمل کا مظاہرہ کررہا تھا يکدم حاکم پر پل پڑا۔
“ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ لڑکی کو بھيچ ميں مت لا۔۔ تو نے اس دن بھی بکواس کی تھی آج تو وہ ميری بيوی ہے اور تيری گندی زبان سے ميں اس کا نام نہيں سن سکتا۔۔” دو تين مکے زور زور سے اسکے منہ پر مارے۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئ اور وار کرتا حاکم شاہ نے پينٹ کی جيب مين چھپائ گن نکال کر بے دريغ دو فائر اشاذ پر کئے۔ اسی لمحے راشد بھاگتا ہوا اسکے ڈرائنگ روم ميں آيا۔
حاکم شاہ کو اندازہ تک نہيں تھا کہ کوئ اور وہاں پہنچ سکتا ہے۔ ايک گولی اشاذ کے کندھے اور دسری اسکی پيٹ ميں لگی۔
ارم جو راشد کا فون سنتے ہی حاکم شاہ کے گھر کے لئے نکلی تھی وہ بھی اس وقت وہاں موجود تھی۔ حاکم شاہ اب کی بار رنگے ہاتھوں پکڑا گيا تھا۔
“تجھے تو ميں چھوڑوں گی نہيں۔۔ اگر اشاذ کو کچھ ہوا۔۔ تو ياد رکھنا تجھے بھی ايسے ہی موت کے گھاٹ اتاروں گی” راشد تيزی سے اسے اٹھا کر باہر کی جانب بھاگا۔ ارم بھی اسکے پيچھے تھی۔ مگر جانے سے پہلے اسکے ہاتھ سے چھوٹی گن کو اپنے دوپٹے ميں پکڑ کر تيزی سے نکلی۔ حاکم شاہ کے لئے يہ سب اتنا غير متوقع تھا کہ وہ کچھ سمجھ نہيں پايا کيا ہوا ہے۔
اس نے اس غرض سے اشاذ کو اشتعال دلايا تھا کہ وہ بھی اسے جوابی مارے اور پھر دو گولياں وہ محض اسکے جسم کے ايسے حصے پر مارے جہاں گولی لگنے سے وہ مرے نہيں۔
اور پھر وہ الٹا اشاذ پر کيس کرے کہ وہ اسکے گھر آکر اسے ڈرا دھمکا کر اور مار پيٹ کر گيا ہے۔اور اپنے بچاؤ کے لئے اس نے گولی چلائ۔
مگر سب تدبيريں يوں الٹی پڑ جائيں گی۔ اسے اندازہ تک نہيں تھا اور يہی تو تقدير ہوتی ہے۔ اگر سب تدبيريں ہم اپنے ہاتھوں ميں لے کر اپنے مطابق اور اپنے تابع ہر چيز کو کر ليں تو خدا کی خدائ کيسے ظاہر ہو۔۔ اور يہ تقدير ہی ہے جو ہماری تدبيروں کو الٹ کر ہميں بتاتی ہے کہ اللہ کے ہی ہاتھ ميں سب ہے۔ کسی کی ذلت۔۔ کسی کی عزت۔۔ کسی کی زندگی اور کسی کی موت۔


Leave a Comment