Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Last Episode 5

جس لمحے اسے ارم کا فون آيا وہ کتنی ہی دير ساکت رہ گئ۔
نکاح والے دن اسے دی جانے والی بددعا ياد آئ۔
اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ۔۔۔ اسے زچ کرنےوالی مسکراہٹ۔۔محبت سے ٹکٹکی باندھے ديکھنا۔۔ اور وہ لمس۔۔۔۔
جہاں اس لمحے آنسو گررہے تھے۔ اس نے بے اختيار ہاتھ کی پشت دائيں گال پر رکھ کر جيسے اس لمس کو وہاں پھر سے جگايا۔
“تم کب ميرے دل کو اچھے لگنے لگے۔۔ مجھے پتہ ہی نہيں چلا۔۔ مگر ميں اس محرومی کا کيا کروں۔۔ يہ مجھے مکمل تمہارا ہونے نہيں ديتی” وہ خود سے مخاطب تھی۔
سلطانہ اور فخر تو اسکے گولياں لگنے اور ہاسپٹل پہنچنے کی خبر سنتے ہی گھر سے نکل پڑے تھے۔ مگر وہ بہت خواہش کے باوجود نہيں گئ تھی۔
بس اللہ سے دعاگو تھی اسے بچالے۔
ہاں وہ شرمندہ تھی۔۔
ہاں وہ اپنے الفاظ پر اب قائم نہيں رہ سکتی تھی۔
ہاں وہ حقيقت جان گئ تھی۔۔۔
وہ اجنبی ہونے کے باوجود اسکی ذات کی ہر پرت کو پڑھ گيا تھا۔ کس قدر باريک بينی سے اس کا جائزہ ليا تھا۔
وہ واقعی اپنے مفروضوں کی دنيا ميں رہنے والی۔ دوسروں کی نظروں سے لوگوں کو پرکھنے والی ايک عام انسان نکلی تھی۔
وہ تو اس لمحے جانی تھی کہ وہ شخص کتنا مختلف تھا۔ وہ اب جانی تھی کہ اسے شديد ناپسند کرنے کے باوجود اس کا دل اسکی جانب کيوں ہمکتا تھا۔
وہ بار بار ارم سے رابطہ کرکے اسکی خيريت معلوم کررہی تھی۔
اور شام ميں جس لمحے ارم نے اسکے ہوش ميں آنے کا بتايا اسے لگا ہر جانب ايک ٹہراؤ۔۔ ايک سکون آگيا ہے۔
اسکے اندر باہر وہ شخص اس حد تک اپنی چھاپ بٹھا چکا تھا کہ اسکے دور ہونے کے خيال سے ہی زندگی اور سانسيں تنگ ہونے لگيں تھيں۔
موبائل کھول کر وہ تصوير نکالی جو سميرہ نے ان دونوں کی مونال ميں کھڑے باتيں کرتے اس رات کھينچی تھی۔
اسی رات سميرہ نے اسے وہ تصوير بھيج دی تھی۔
جس ميں وہ غصے بھری نظروں سے اسے ديکھ رہی ہے اور وہ جگمگاتی نظروں سے اسے مسکراتے ديکھ رہا ہے۔ يکدم اسے کيا ہوا روتے ہوۓ اشاذ کی تصوير پر اپنے کپکپاتے لب رکھ دئيے۔


Leave a Comment