Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Last Episode 5

تين دن ہوگۓ تھے اسے ہاسپٹل ميں۔۔ سب اس کو ديکھنے آئے تھے نہيں آئ تھی تو ريم نہيں آئ تھی۔
وہ اسکا سامنا نہيں کرنا چاہتی تھی۔ سلطانہ نے نجانے کيا کيا واسطے دے کر اسکا مقام اشاذ کی نظروں ميں گرا ديا تھا۔
“سب ہو آئے ہيں تم بيوی ہو اسکی تمہيں جانا چاہئے۔۔ آج تمہارے ابو سے کہتی ہوں تمہيں لے جائيں” سلطانہ نے اسکی کوئ بات سنے بنا حکم جاری کيا۔
“ہاں مجھے جانا ہے ايک آخری بار اس سے ملنے” کچھ سوچ کر وہ راضی ہوگئ۔
جس وقت وہ ہاسپٹل پہنچی طلحہ کے علاوہ اور کوئ موجود نہيں تھا اس نے شکر کا سانس ليا۔
وہ اس وقت ارم اور سميرہ کا سامنا نہيں کرنا چاہتی تھی۔
فون پر ايک دو بار ارم سے ہی اشاذ کی طبيعت کا سرسری سا پوچھا تھا۔ مگر سميرہ کو تو اتنا بھی فون نہيں کيا تھا۔
“کيسی ہيں بھابھی” طلحہ اسے فخر کے ساتھ کمرے ميں آتا ديکھ کر خوشدلی سے بولا۔
وہ لفظ بھابھی پر جزبز ہوئ۔
اشاذ بيڈ پر ليٹے کچھ حيران نظروں سے اسے ديکھ رہا تھا۔ تين دن سے نہ وہ آئ تھی نہ کوئ فون کرکے انسانيت کے ہی ناطے اس کا نہيں پوچھا تھا۔
اسے تو اميد ہی نہيں تھی کہ وہ آئے گی۔
“جی ٹھیک ہے” اشاذ کی گہری نظروں سے گھبراتے وہ بس اتنا ہی کہ سکی۔
“اور انکل آپ سنائيں” اب وہ فخر صاحب کی جانب متوجہ تھا۔
“بالکل ٹھيک بيٹا۔۔۔ريم بيٹا پھول دو اشاذ کو” فخر نے اسے بکے ہاتھ ميں ہی تھامے ديکھ کر سرزنش کی۔
“جی جی” وہ يکدم بوکھلائ۔ اشاذ کو دینے کی بجائے اسکے سائيڈ پر رکھے ٹيبل پر رکھ دئيے۔
“کيسے ہو بيٹا” وہ جو ريم کو ديکھنے ميں محو تھا۔ فخر کی بات پر يکدم نظروں کا زاويہ بدلا
“الحمداللہ انکل اس وقت کافی بہتر محسوس کررہا ہوں” اسکی آواز کی گھمبيرتا ريم کا دھڑکن تيز کرگئ۔
“انکل ايک منٹ بات سنئے گا” طلحہ فخر کو لئے کمرے سے باہر جا چکا تھا۔ وہ ان دونوں کو اکيلے بات کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہتا تھا۔
“ميرا خيال ہے تم ميری خيريت پوچھنے آئ ہو۔۔ يا زبردستی لائ گئ ہو” اس کی آواز ميں ہلکی سے نقاہت تھی۔ مگر لہجہ ہميشہ والی شوخی لئے ہوۓ تھا۔
“کيسے ہيں آپ” اسکے دائيں جانب موجود صوفے پر بيٹھ کر وہ بس ايک نظر اسے ديکھ کر نظريں جھکا چکی تھی۔
اسکی آنکھوں سے پھوٹتی روشنی کا وہ مقابلہ نہيں کرسکتی تھی۔
“پاس آکر زخموں کو چيک کرلو۔۔ اندازہ ہوجاۓ گا کيسا ہوں۔۔ اور کتنی ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔ ويسے تو تم اميد کررہی ہو گی کے مر ہی جاتا تو بہتر تھا۔ تمہاری جان تو چھوٹتی۔ افسوس ميں بچ گيا۔” اسکے بے باک انداز پر وہ ہاتھون کو مروڑنے لگی۔ مگر آخری جملوں پر ايک شکوہ کناں نظر اس پر ڈالی۔
“مجھے آپ کا شکريہ ادا کرنا تھا” وہ اصل مدعے پر آئ۔
وہ حيران ہوا۔
“آپ نے جس طرح اس دن پريس کانفرنس بلا کر مجھ پر لگے بدنامی کے داغ کو دھويا تھا۔ميں اسکے لئے شکر گزار ہوں” وہ نظريں جھکاۓ اپنی ہی کہے جارہی تھی۔
“اچھا پھر ۔۔” اس کا لہجہ يکدم سپاٹ ہوا۔
ريم نے کچھ چونک کر اسے ديکھا۔ جس کے چہرے پر اب پتھريلے تاثرات تھے۔
“اور آپ نے امی کے واسطے دينے پر جيسے مجھ سے نکاح کرکے عزت دی۔۔ اسکے لئے
بھی بے حد شکريہ” وہ نہيں جانتی تھی کہ اسکے يہ الفاظ اشاذ کو کس تکليف سے دوچار کررہے ہيں۔
“تم کبھی بھی اپنی فرضی دنيا سے باہر آہی نہيں سکتيں” وہ ملامت کرتے لہجے ميں گويا ہوا۔
“تو کيا يہ جھوٹ ہےکہ انکے کہنے پر آپ نے يہ نکاح نہيں کيا” وہ نظريں اٹھا کر بولی۔
“ہاں يہ ٹھيک ہے کہ انہوں نے کہا۔۔ مگر مين اس سے بہت پہلے تمہيں اپنانے کا فيصلہ کرچکا تھا” اشاذ نے ايک بار پھر اپنی پوزيشن کلئير کی۔
“اوہ پليز۔۔۔ ” وہ کسی صورت يقين کرنے کو تيار نہيں تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا۔۔ نرس اس کا لنچ گرم کرکے لائ۔
لنچ کيا تھا سوپ تھا۔
ريم کو کمرے ميں دیکھ کر وہ خوشی سے پھولے نہيں سما رہی تھی۔
“ميں آپ کی بہت بڑی فين ہوں” اشاذ کا سوپ والا باؤل جلدی سے سائيڈ ٹيبل پر رکھ کر وہ ريم کی جانب بڑھی۔ اسکے لئے يہ پہلا اتفاق تھا کہ کوئ فين اس سے يوں مل کر اسے بوکھلا دے۔ وہ نرس تو يکدم اسکے ساتھ لگ کر اس کا ہاتھ تھامے چٹا چٹ اسے پيار کرگئ۔
اسکی غير ہوتی حالت ديکھ کر اشاذ کا قہقہہ لگانے کو جی چاہا۔
“افف آپکے ڈرامے۔۔ کيا کمال الفاظ اور کيا کمال ان کا چناؤ ہوتا ہے” اس نے گھبرا کر اشاذ کو ديکھا جو دلچسپی سے اسکی اڑی رنگت دیکھ رہا تھا۔
“سسٹر۔۔ آپ پليز تھوڑی دير بعد آجائيے گا۔۔ انکے تو ڈرامے ختم ہونے نہيں۔۔ لہذا آپ وہ بعد مين آکر بھی ملاحظہ کرسکتی ہيں۔ مجھے اس وقت بھوک لگی ہے” اشاذ کی دہائياں دينے پر اس نرس نے بمشکل ريم کو چھوڑا۔ مگر اسکی بات ميں چھپے بہت سے طنز ريم اچھے سے سمجھ گئ تھی۔
“اوہ سوری سر۔۔ وہ بس ميم کو ديکھ کر ميں ذرا جذباتی ہوگئ” وہ سر پر ہاتھ مارتی اپنی کوتاہی بتانے لگی۔
“وہ اپنے ساتھ کسی کا بھی جذباتی ہونا پسند نہيں کرتيں” وہ بات نرس سے کررہا تھا مگر طنز کے تير ريم پر چلا رہا تھا۔
وہ نرس فورا اشاذ کی جانب بڑھ کر اسے اٹھا کر بٹھانے لگی۔
“آپ آج رہنے ديں۔۔ اب ميری بيگم آيا کريں گی تو يہ ہی يہ سب کام کريں گی۔۔ کيوں ريم ” وہ جو کچھ دير پہلے سنبھلی تھی۔ اشاذ کی بات پر پھر سے بوکھلا گئ۔
۔ اسکا داياں کندھا جہاں گولی لگی تھی اس جانب والا ہاتھ وہ نہيں ہلا سکتا تھا۔ اور اسی ہاتھ سے کھانا ہوتا تھا۔ لہذا کوئ نہ کوئ اسے کھلاتا تھا۔ وہ خود سے نہيں کھا سکتا تھا۔
“جی”
“جی۔۔ مجھے اٹھاؤ اور لنچ کرواؤ” اسکے حکم پر وہ نرس کے سامنے کڑوے گھونٹ بھر کر رہ گئ۔
نرس وہيں موجود ان کو مسکراتی آنکھوں سے ديکھ رہی تھی۔
“کوئ شوٹنگ ہورہی ہے يہاں” جيسے ہی ريم اسکے قريب آکر اسے کندھوں سے اٹھا کر بٹھانے لگی۔ اشاذ نرس کو وہيں براجمان ديکھ کر کسی قدر ناگواری سے بولا۔
“نہيں نہيں وہ۔۔ ” وہ بے چاری شرمندہ ہو کر تيزی سے باہر نکل گئ۔
“اتنے پيسے ان کو کس بات کے دے رہے ہيں۔ اگر خدمتيں ہم سے کروانی ہيں” اسکی اتنی قربت سے وہ بوکھلا گئ تھی۔ غصے سے اس پر چڑھائ کی۔
اتنے ڈيل ڈول والے اشاذ کو اٹھا کر بٹھانا کسی جان جوکھم سے کم نہيں تھا۔
اشاذ اسکی حالت سے حظ اٹھا رہا تھا۔
“چلو کچھ احسان ميں نے تم پر کيا۔ اب کچھ احسان تم مجھ پر کرکے بدلہ چکا دو” اسے نظروں کی گرفت ميں ليٹے بولا۔
اس حالت مين بھی اسے تنگ کرنے سے باز نہيں آرہا تھا۔
“سوپ پلاؤ” اسے واپس صوفے پر بيٹھتا ديکھ کر رعب دار انداز ميں بولا۔
وہ دانت پيس کر رہ گئ۔
“زہر نہ پلا دوں” منہ ہی منہ ميں بڑبڑائ۔ مگر وہ بڑبڑاہٹ اشاذ تک بخوبی پہنچ گئ۔
کرسی گھسيٹ کر اسکے قريب بيٹھی مگر کرسی بيڈ سے چھوٹی تھی۔ اس پر بيٹھ کر وہ نہيں پلا سکتی تھی۔
آخر ہولے سے اسکے بيڈ پر ٹک گئ۔
ہاتھ ميں سوپ کا پيالہ پکڑ رکھا تھا۔ ڈراموں ميں ايسے رومينٹک سين لکھنا کتنا آسان تھا مگر حقيقت ميں ان کا سامنا کرنا ۔۔۔ کس قدر مشکل۔
ريم کو اب اندازہ ہوا تھا۔
“کيا مسئلہ ہے” وہ جو مسلسل اسے گھور رہا تھا اور مسکرا رہا تھا ريم کو غصہ دلا گيا۔
“زہر اس ہاسپٹل ميں نہيں ملتا۔ افسوس تمہاری يہ تمنا ادھوری رہ گئ” اس پر چوٹ کی۔
Take my mind
And take my pain
Like an empty bottle takes the rain
And heal
And take my past
And take my sense
Like an empty sail takes the wind
And heal
Take a heart
And take a hand
Like an ocean takes the dirty sand
And heal,
اسے اپنے قريب بيٹھے ديکھ کر وہ جيسے اپنی کچھ ادھوری خواہشيں اسے بتا رہا تھا۔
“اس کو بھی لگاتے ہيں” ٹيبل پر سوپ کے نيچے جو نيپکن پڑا تھا اشاذ نے اسکی جانب اشارہ کيا
ريم نے زچ ہوکر نيپکن اٹھايا۔ اسکے گريبان کی جانب ديکھا۔
ٹی شرٹ کے گلے ميں نيپکن پھنسايا۔ اسکی انگلياں اسکے سينے سے مس ہوئيں۔ ريم کی ريڑھ کی ہڈی ميں سنسنی سی دوڑ گئ۔
“تم اور تم سے محبت ۔۔۔ ميری زندگی کا سب سے بڑا سچ ہے” وہ جو خاموشی سے کپکپاتے ہاتھوں سے اسے سوپ پلانے ميں مگن تھی۔ مگر اسکی آنکھوں ميں ديکھنے کی ہمت خود ميں نہيں رکھتی تھی۔
دھڑکتے دل سے اسکی خمار آلود آواز سننے لگی۔
“ميں نے تم پر نہيں شايد خود پر احسان کيا ہے” وہ مسلسل اسکی لرزتی پلکوں کو فوکس ميں رکھے ہوۓ تھا۔
“محبت بہت تکليف ديتی ہے۔ يہ ميں نے پہلی بار تب جانا جب ميری ماں نے ہم پر ايک اجنبی شخص کو فوقيت دی۔ لوگ کہتے ہيں محبت کی سب سے خالص شکل ماں ہوتی ہے۔ مگر ميں کہتا ہوں محبت کی سب سے خالص شکل وہ ہوتی ہے جس ميں احساس ہو۔۔ جس ميں درد اور تکليف نہ ملے۔ جس ميں دوسرے کے لئے اپنے احساسات اور جذبات کی قربانی دی جاۓ۔
پھر محبت کی خالص شکل بنتی ہے۔ اور وہ کسی رشتے ميں بھی ہو سکتی ہے۔” ريم کو آج پھر اسے سننا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ وہ کچھ دير کو رکا تو ريم نے پل بھر کو اسکا خوبصورت چہرہ ديکھا۔ کچھ لوگوں کے اندر کی خوبصورتی انہيں اور بھی خوبصورت بنا ديتی ہے۔
اس وقت اشاذ کی گندمی رنگت بھی اسے چمکتی ہوئ محسوس ہورہی تھی۔
“اور دوسری بار اس درد کو ميں نے تب سہا جب تم نے نکاح والے دن مجھے شرابی اور زانی بولا۔” اسکی بات پر وہ سر جھکا گئ۔
“ريم تم نے مجھے ويسے ہی سمجھا جيسے لوگوں نے مجھے تمہارے سامنے پيش کيا۔ آج اگر لوگ تمہيں ويسا ہی سمجھ رہے ہيں جيسے اس ميڈيا نے تمہيں انکے سامنے پيش کيا تو تمہيں برا کيوں لگا۔ تمہيں يہ سب الزام اپنی ذات پر تازيانے کی طرح برستے کيوں لگے؟” اشاذ کے سوال اسے شديد شرمندگی سے دوچار کر رہے تھے۔
“ماں باپ کے جانے کے بعد ميں نے دنيا کی اس قدر باتيں سنی ہيں ريم کے مجھے اب دنيا کی باتوں کا ڈر ختم ہوگيا ہے۔ ميرے لئے يہی بہت ہے کہ اللہ ميرے قريب ہے۔ اس نے ستر ماؤں والی اپنی محبت کا احساس مجھے ہر قدم پر دلايا ہے۔
ميں اسے پيارا تھا اسی لئے اس نے ايک بار نہيں بار بار مجھے حرام موت سے بچايا۔ ميں ڈپريشن کی اس اسٹيج پر تھا کہ اگر ميں پاگل ہوجاتا تو کوئ اچنبھے کی بات نہيں تھی۔ اس نے اس وقت ميں بھی ميری صلاحيتوں کو نکھارا۔ اس نے اس انڈسٹری کی ہر گندگی سے مجھے محفوظ رکھا۔ ميں يہ نہيں کہتا ميں بہت اچھا مسلمان ہوں۔
مگر اس نے پھر بھی مجھ سے محبت کی۔ تو ميرے لئے اسکی محبت ہی کافی تھی۔ وہ مجھے جانتا ہے کہ ميں زانی اور شرابی نہيں۔ ميں نے کبھی کسی ايکٹرس کا فائدہ نہيں اٹھايا۔” وہ چند پل کو رکا
ريم نے دھيان ہی نہيں ديا کہ وہ سوپ کب کا ختم کرچکا ہے مگر وہ پھر بھی اسکے بيڈ پر براجمان ہے۔
“تم جانتی ہو اس انڈسٹری ميں ايک رول کے لئے ان ايکٹرسز اور ماڈلز کو نجانے کتنی بار اپنی عزت سے ہاتھ دھونے پڑتے ہيں۔ ہر کوئ ميرے ساتھ کيوں کام کرنا چاہتا ہے؟ اسی لئے کہ ميں نے کبھی کسی کی عزت پر ہاتھ نہيں ڈالا۔ ميں ان سے صرف پروفيشنل تعلق رکھتا ہوں۔ اسی لئے ہر کوئ ميرے ساتھ کام کرنے کی خواہش مند ہوتی ہے” اسکے انکشاف ريم کو جھنجھوڑ کر رکھ گئۓ تھے۔
“اور يہی بات بہت سے لوگوں کو ہضم نہيں ہوتی اور وہ مجھے نيچا دکھانے کے در پہ رہتے ہيں جيسے حاکم شاہ”
اور پھر اس نے حاکم شاہ کے ساتھ ہونے والی لڑائ کی اصل حقيقت بتائ۔
“ميں نہيں جانتا مجھے اس رات اسکے منہ سے تمہارا نام سن کر کيا ہوا۔ مگر ميرا بس نہيں چل رہا تھا کہ اسکا کيا حشر کردوں” وہ دانت پر دانت جمائے بولا۔


Leave a Comment