Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Last Episode 5


“اور پھر اس رات مجھ پر انکشاف ہوا۔ کہ ايک نک چڑھی کی محبت ميں ۔۔ ميں بری طرح غرق ہو چکا ہوں۔ پتہ نہيں تمہيں چڑاتے غصہ دلاتے کب تم اس دل ميں بس گئ۔” اسکی نرم گرم نگاہوں کی تپش پر ريم کو احساس ہوا کہ وہ اب بھی اسکے بيڈ پر بيٹھی ہے۔
اٹھنے لگی کہ اس نے ہولے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ کر اسکی کوشش ناکام کی۔
“مگر ميں۔۔۔۔ ميں مکمل نہيں” اس نے اپنے ہاتھوں کی جانب ديکھا۔ اشاذ کے مکمل ہاتھوں کے نيچےاسکے نامکمل ہاتھ کتنے بھدے لگ رہے تھے۔
آنکھوں سے آنسو لڑی کی صورت گالوں پر بہے۔ جنہيں وہ کب سے روکنے کی کوشش کررہی تھی۔
“پھر وہی بات۔۔ ميں نے تمہيں کيا سمجھايا تھا۔ يہاں کوئ شخص مکمل نہيں۔۔۔ نہ ميں ۔۔ نہ تم ۔۔ تو پھر گلہ کيسا” وہ کتنی آسانی سے اس بات کو فراموش کرگيا تھا جو بچپن سے اب تک اسکے لئے تکليف کا باعث بنی تھيں۔
“تم اتنی خوبصورت ہو۔۔ مگر باتيں بہت بدصورت کرتی ہو” اسکا آنچ ديتا لہجہ۔۔ ريم کا وہاں بيٹھنا محال کرگيا تھا۔
“زندگی ميں کبھی پچھتائيں گے تو نہيں” اسکی محبتوں پر آنسو کيوں کر آنکھوں ميں نہ آتے۔
“پچھتانا ہوتا تو تمہيں زندگی نہ بنا بيٹھتا” وہ کھل کر اپنی محبت کا اظہار کررہا تھا۔
ريم نے جھجھکتے ہوے اسکے کندھے پر ہولے سے سر رکھا۔
اشاذ نے محبت سے اسکے دوپٹے سے ڈھکے سر پر پيار کيا۔
“ميں لوگوں کی نفرت سہہ سہہ کر تھک گئ ہوں” وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کررہی تھی۔
اشاذ تو خود کو ہواؤں ميں محسوس کررہا تھا۔ اسے لگا تھا اسے راہ راست پر لانے کے لئے بہت پاپڑ بيلنے پڑيں گے مگر ہميشہ کی طرح اللہ اس معاملے ميں بھی اس پر مہربان ہوگيا تھا۔
“ميری محبت سے تو نہيں تھکوگی؟” اب يقين دہانی کی باری اشاذ کی تھی۔
اسکے کندھے سے سر اٹھا کر وہ ہولے سے سر نفی ميں ہلا گئ۔
“ميں تو آج يہاں آپ سے اس رشتے کو ختم کرنے کا کہنے آئ تھی” وہ اسے اپنی آمد کا مقصد بتا رہا تھا۔
“تو پھر بہتر ہے کہ ميرے ختم ہونے کی دعا کرو۔۔ کيونکہ جيتے جی تو ميں يہ رشتہ ختم نہيں کرسکتا” اسکے سنجيدہ لہجے پر ريم نے خفگی بھری نظريں اٹھا کر اسے ديکھا۔
“ہاں تو اب نہيں کہہ رہی نا۔۔ ايسی فضول باتيں کرنا ضروری ہيں” وہ دہل کر بولی۔ ابھی تو اسکی زندگی اسے دوبارہ ملی تھی اور وہ پھر سے ايسی باتيں کررہا تھا۔
“ہاں تو تم نے تو بہت خوبصورت بات کی ہے۔۔ سڑيل کہيں کی” اسے گھورا
“اچھا کچھ دير پہلے ميں خوبصورت تھی۔۔ اب سڑيل ہوگئ” وہ آنسو صاف کرتے پنجے تيز کر رہی تھی۔
“تم کتنی لڑاکا ہو۔۔۔ کہانياں تو بہت محبت بھری۔۔ نرم مزاج لکھتی ہو۔۔” وہ مصنوعی خفگی سے بولا۔
“ہاں تو خود ہی تو کہتے ہيں کہ کہانياں اور اصل زندگی مختلف ہوتی ہے” وہ مزے سے اسی کی بات اس پر لوٹا گئ۔
“رخصتی چاہئيے اب تمہاری” وہ کيا بات کررہی تھی اور وہ کہاں پہنچ گيا تھا۔
“پہلے ٹھيک تو ہوجائيں” کچھ دير پہلے جو اس سے لڑ رہی تھی اب آواز کی لرزش اس سے چھپا نہيں سکی۔
“ہاں تو تم پاس ہوگی تو ٹھيک بھی ہو جاؤں گا۔ تمہارا کيا بھروسہ آج جاؤ تو پھر آؤ ہی نا” وہ پھر سے اسکے ارادوں سے اس سے پہلے باخبر ہوچکا تھا۔
“جی نہيں آپ ٹھيک ہوں گے پھر” وہ اپنی بات پر زور دے کر بولی۔
“تم سے کون پوچھ رہا ہے۔۔۔ ميں نے اپنی ساس کے پاس درخواست جمع کروانی ہے اور اگلے دن تم ميرے پاس ہوگی” وہ ہنستے ہوۓ مزے سے بولا۔
ريم نے بھنويں سکيڑيں۔ جانتی تھی سلطانہ واقعی اسے گھر سے جلد نکالنے کے در پہ ہيں۔
“تو ابھی کيوں بتا رہے ہيں۔ جب رخصتی کروانے کے لئے آتے تو کہہ ديتے کہ ريم اٹھو آج تمہيں رخصت کروانے آيا ہوں” وہ منہ بنا کر بولی۔
“يہی کروں گا” اسکی آنکھوں ميں صاف شرارت ناچ رہی تھی۔
“ويسے تو ابھی بھی رخصتی کروائ جاسکتی ہے” اس کا لہجہ گھمبير ہوا۔
“جی نہيں” وہ ايک ہی جست ميں اس سے دور ہوئ۔
“فکر نہيں کرو۔۔ آج ان پٹيوں نے جکڑ رکھا ہے۔۔ لہذا تم آج ريليکس رہو” اسکے دور ہونے پر وہ معنی خيزی سے بولا۔
“کوئ آپ کو سلانے کی دوائ نہيں ہے” وہ لرزتے لہجے پر بمشکل قابو پا کر بولی۔
گال اسکی باتون سے دہک رہے تھے۔
“بيمار کے ماتھے پر محبت سے ہاتھ ہی رکھ لو۔۔ کيا پتہ اس لمس سے ہی نيند آجاۓ” وہ آنکھوں ميں خمار لئے اسے ديکھ رہا تھا۔
“نرس کو بلاتی ہوں۔ وہی آپکی طبيعت صحيح سے چیک کرے گی” اسکی بات پر وہ جاندار مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ اس کا گھبرايا روپ ديکھ رہا تھا۔ اسی لمحے دروازے پر دستک دے کر طلحہ اندر آيا۔
“ميرا خيال ہے سيز فائر ہوچکا ہے” وہ بھی انکے درميان تلخی کو جانتا تھا۔
“ابو کہاں گئے؟” اسے اکيلا اندر آتے ديکھ کر وہ حيرانی سے بولی۔
“وہ تو کب کے چلے گئے۔ کوئ ضروری کال آگئ تھی۔ مين نے کہا بھابھی کو ميں چھوڑ دوں گا” طلحہ کی بات پر وہ ہکا بقا رہ گئ۔
“ديکھ لو۔۔ انکل کو ميرا خيال آگيا” وہ شرارتی لہجے ميں بولا۔
“کوئ نيند کی دوائ نہيں۔۔ انہيں ديں ۔۔ سوئيں يہ” وہ اسکے مسلسل تنگ کرنے سے اکتا کر طلحہ سے بولی۔ دونوں قہقہہ لگا اٹھے۔
“مجھے سلا دو گی مگر جذبات نہيں سوئيں گے” طلحہ کے سامنے ايسی ذومعنی بات پر وہ محض اسے گھور کر رہ گئ۔


Leave a Comment