Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Last Episode 5

وہ اس وقت دلہن بنی اشاذ کے کمرے ميں اسکا انتظار کررہی تھی۔
کچھ دير پہلے ہی ارم اور سيمرہ اسے کمرے ميں چھوڑ کر گئيں تھيں۔ اشاذ ابھی پوری طرح ٹھيک نہيں ہوا تھا۔ مگر جيسے ہی وہ چلنے کے قابل ہوا اس نے رخصتی کا شور مچا ديا۔
اور اس وقت وہ اسکے کمرے ميں اسکی بيوی کی حيثيت سے موجود تھی۔
اس دن ہاسپٹل ميں اشاذ نے اسکے دل سے ہر خدشہ نکال ديا تھا۔
اسی لئے وہ اپنی نئ زندگی کا آغاز بغير خدشے کے دلی آمادگی سے کر رہی تھی۔
کھٹکے کی آواز پر اس کا سر جھکا۔
اشاذ نے قدم کمرے ميں رکھے۔ پہلی بار اس نے ريم کا اس قدر سجا سنورا روپ ديکھا تھا۔ ڈارک بليو اور ڈارک ريڈ لہنگے ميں وہ کوئ اپسرا ہی لگ رہی تھی۔
دروازہ بند کرکے وہ اسکے قريب بيڈ پر بيٹھا۔
“کيسی ہو۔۔ حسين دشمن” اسکی مسکراتی آواز ميں کہے جانے والے الفاظ پر وہ مسکرائے بغير نہ رہ سکی۔ اپنی لمبی خمدار پلکيں اٹھا کر اپنے محبوب شوہر کو ديکھا۔
“ساری زندگی آپ ميرا يون ہی خون جلاتے رہيں گے” پيار بھرا شکوہ کيا۔
“نہيں ساری زندگی تو پيار کروں گا” محبت سے اسکی آنکھوں پر باری باری مہر محبت ثبت کی۔ ان آنکھوں نے ہی پہلی بار اسے اپنا گرويدہ بنايا تھا۔
وہ خود ميں سمٹ گئ۔
“اور پھر تھوڑا تھوڑا خون بھی جلاؤں گا۔ تاکہ تم ميری محبت ملتے ہی خوشی سے پھول کر موٹی نہ ہوجاؤ” وہ جو شرمانے کی تياری کررہی تھی اسکی اگلی بات سن کر اسے گھور کر رہ گئ۔
اشاذ اپنی اذلی چڑانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ اسے ديکھ رہا تھا۔
پھر بليو سوٹ کی جيب سے ايک چھوٹا سا مخمليں کيس نکالا۔
اسے کھول کر اس ميں سے جگر جگر کرتی خوبصورت سی انگوٹھی نکالی۔
ہميشہ کی طرح دھونس بھرے انداز ميں اسکا ہاتھ پکڑ کر اس کی تيسری انگلی ميں پہنا کر محبت سے اس پر ہونٹ رکھے۔
“ميں تو آج يہاں آپ سے اس رشتے کو ختم کرنے کا کہنے آئ تھی” وہ اسے اپنی آمد کا مقصد بتا رہا تھا۔
۔”مجھے آپ سے معافی مانگنی ہے اس سب باتوں کے لئے جو ميں نے آپکے بارے ميں فرض کيں۔۔ لوگوں کی نظر سے آپ کو ديکھا۔ پرکھا۔ اور آپ پر اتنا بڑا بہتان لگايا” سر جھکاۓ وہ اشاذ کو شرمندہ سی سيدھا دل ميں اترتی محسوس ہوئ۔ نظريں انگوٹھی پر جمی ہوئ تھيں۔
“کيا ہم اس بات کو چھوڑ نہيں سکتے۔۔ ميں جانتا ہوں تم نے کم علمی اور کم فہمی ميں وہ سب سوچا” اشاذ نے اسے شرمندہ ہونے سے بچايا۔
“نہيں ۔۔۔ ميں جب تک معافی نہيں مانگ ليتی۔ آپکے ساتھ اپنے رشتے کو لے کر پرسکون نہيں رہ سکوں گی۔ پليز۔۔ مجھے معاف کرديں۔۔” اسکا وہی ہاتھ جو اشاذ نے پکڑ رکھا تھا اسے دونوں ہاتھوں ميں تھامے وہ معافی مانگ رہی تھی۔
“آپ صحيح کہتے تھے۔ کہ ايسے ہی بغير جانے کمنٹس پاس نہيں کرتے۔ مفروضے نہيں گڑھ ليتے۔۔۔ ميں نے اللہ سے بھی بہت معافی مانگی ہے۔ کہ ميں کون ہوتی ہوں خود کو پارسا اور لوگوں کو برا کہنے والی۔ مگر اللہ بھی تو تب تک معاف نہيں کرتا جب تک اس کا وہ بندہ نہ معاف کرے جس کا ہم نے دل دکھايا ہے” اپنی گہری آنکھيں اسکی آنکھوں ميں ڈالے وہ اشاذ کا ضبط آزما رہی تھی۔
“پليز ايک بار کہہ ديں مجھے معاف کرديا” وہ آس آنکھوں ميں لئے اس سے درخواست کررہی تھی۔
“ہاں ميری جان ميں نے معاف کيا۔۔اگر تمہيں ايسے ہی سکون ملتا ہے تو يوں ہی سہی” اسکے ماتھے کا ٹيکہ درست کرتے وہ محبت سے چور لہجے ميں بولا۔
“ليکن دوبارہ يہ بات ہمارے درميان نہيں ہوگی” اسکی بات پر وہ پرسکون سی مسکراہٹ لئے اثبات ميں سر ہلا گئ۔
“اشاذ اگر ہمارے بچوں ميں سے کسی کے۔۔۔۔” وہ اپنا خدشہ ظاہر کر رہی تھی۔
“ميڈم آپ بہت فاسٹ جارہی ہيں” اس کی پريشانی سے اس کا دھيان ہٹانے کے لئے وہ اسے چھيڑنے لگا۔
“اشاذ” وہ ہاتھ کا مکا بنا کر اسکے دائين کندھے پر ہلکا سا مار گئ۔
“آہ” اشاذ نے يکدم کندھا پکڑا۔۔
“سوری ۔۔ سوری۔۔ مجھے ياد نہيں رہا تھا” يہ وہی کندھا تھا جہاں اسے گولی لگی تھی۔
“اچھا يہ وہی کندھا تھا” آہ و بکا روک کر وہ شرارتی انداز ميں بولا۔
“اب آپکے پيٹ ميں مکے ماروں گی” وہ اسے دھمکانے لگی۔ اسکے پيٹ کے زخم ابھی پوری طرح ٹھيک نہيں ہوۓ تھے۔
“دہشتگرد بيوی” وہ مزے سے اسکا نام رکھ رہا تھا۔ پھر يکدم سيدھے ہوتے اسے خود ميں سميٹ ليا۔
“مجھے کوئ فرق نہيں پڑے گا اگر ہمارے بچھے ايسے ہوۓ۔۔ ان فیکٹ ميں اپنی اولاد کو سکھاؤں گا کا کسی بھی کمی کے ساتھ دنيا مين سر اٹھا کر کيسے جيتے ہيں۔ جيسے تمہيں سکھانا ہے۔” اسکے حرف حرف ميں ريم کے لئے محبت ہی محبت تھی۔
اس نے پرسکون ہو کر آنکھيں موند ليں۔
Lovers in the night
Poets trying to write
We don’t know how to rhyme
But, damn, we try
But all I really know
You’re where I wanna go
The part of me that’s you will never die
You look at me and, babe, I wanna catch on fire
ريم اسکے کندھے پر سر رکھے اسکی بوجھل آواز ميں بولے جانےالفاظ کے سحر ميں تھی۔
الفاظ کے سحر سے نکل کر اسکا چہرہ ہاتھوں ميں پکڑے اب وہ اسے محبت کے سحر ميں جکڑ چکا تھا۔


Leave a Comment