Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Last Episode 5

“آئم شور تمہيں گھر بہت پسند آئے گا” رخصتی سے دو دن بعد ہی وہ ريم کو لئے اسلام آباد آچکا تھا۔ گاڑی نے انہيں ائير پورٹ سے پک کيا تھا اور اس وقت وہ ريم کے ہمراہ اپنے نئے گھر ميں جارہا تھا۔ جب اس نے گھر خريدا تھا اسکے اگلے دن ہی سب کچھ اتنا گڑبڑ ہوگيا تھا کہ اسے اپنے نئے گھر جانے اور اسے ديکھنے کا موقع ہی نہيں ملا۔
ہاسپٹل ميں ہی تھوڑی حالت بہتر ہوتے وہ ايک انٹيرئير ڈيکوريٹر کو گھر ڈيکوريٹ کرنے کا کہہ چکا تھا۔
کل ہی اس کا فون آيا کہ گھر مکمل ہوچکا ہے۔ اور اسی وقت اس نے اپنی اور ریم کی اگلے دن کی ٹکٹس بک کروا ليں۔
گھر يقينا بے حد خوبصورت تھا۔ مگر اسکے آس پاس کا علاقہ تو ريم کو بے حد پسند آيا تھا۔ گھر کے بالکل پيچھے مارگلہ کے پہاڑ تھے۔
اسکے چہرے پر خوشی ديکھ کر ہی وہ سمجھ گيا کے اسے گھر بے حد اچھا لگا ہے۔
پورا گھر ہی بے حد خوبصورت تھا۔
“ہاں جی تو اب جب جب دل کرے گا يہاں آؤ گی” وہ جو اپنے روم کی کھڑکی سے مارگلہ کے پہاڑوں کو يک ٹک ديکھ رہی تھی۔ اپنے قريب کھڑے اشاذ کی بات سن کر حيرت سے مسکرائ۔
“آپ کو ياد ہے” اپنی ہی بات دہراۓ جانے پر وہ واقعی حيران ہوئ تھی۔
“ہاں نا تب ہی سے تو دل تم پر بے ایمان ہوچکا تھا” اسے بازوؤں کے گھيرے ميں لے کر ٹھوڑی اسکے سر پر رکھی۔ ريم کی پشت اسکے سينے سے لگی تھی۔
اب دونوں کا رخ پہاڑوں کی جانب تھا۔
“تھينک يو اشاذ” وہ تشکر بھرے لہجے ميں بولی۔
اشاذ نے اس کا رخ اپنی جانب موڑا۔
“مجھے زندگی کی خوبصورتيوں سے روشناس کرانے کے لئے۔” اسکے لہجے ميں سرخوشی تھی۔
“پاگل” ہنس کر اسے خود ميں بھينچا۔
“ايک بات کہوں مانيں گے” وہ جو اس ميں گم ہورہا تھا اسکی بات پر ہنکارا بھر کر رہ گيا۔
“کہو”
“آ۔۔ آپ نانا کو اور اپنے والدين کو معاف کرديں” وہ جھجھکتے ہوۓ بولی۔
“نانا کو تو اسی دن معاف کرديا تھا جب وہ تم سے نکاح پر بلا چوں چراں مان گۓ تھے” اسے کندھوں سے تھام کر اسکا رخ اپنے سامنے کرتے ہوۓ بولا۔
“ہاں مگر والدين کو شايد نہ کرسکوں۔۔ تم اس تکليف کا اندازہ نہيں لگا سکتی جس سے وہ مجھے اور سميرہ کو دوچار کرکے اپنی زندگی سے خوشياں کشيد کرنے نکلے تھے۔” وہ اسے تکليف نہيں دينا چاہتی تھی ہاں مگر يہ موضوع ہر بار اسکی تکليف دو چند کرجاتا تھا۔
“ميں بہت تو نہيں مگر کچھ اندازہ کرسکتی ہوں۔ ليکن کيا ہی اچھا ہو۔ اگر ہم انکے کئے کا اختيار اللہ کے ہی ہاتھ ميں رہنے ديں۔ وہی انکے لئے جزا و سزا تجويز کرے۔ ہم بس خود سرخرو ہوجائيں۔۔ اور يہ سرخروئ معاف کرکے ہی مل سکے گی۔
ميں آپ کو مجبور نہيں کروں گی کہ آپ ان سے مليں۔ مگر وہ جب بھی رابطہ کريں۔ تو اب آپ نے ان سے بات کرلينی ہے۔ بہت خوش اخلاقی سے نہيں۔۔ مگر بس سلام دعا ميں بھی کيا حرج ہے۔ ہميں تو اللہ کی خوشنودی چاہئيے نا۔۔ لوگوں سے کيا مطلب” وہ اشاذ کی ہی زبان بول رہی تھی۔
اور اسی ميں اس کو قائل کررہی تھی۔ وہ ہولے سے مسکرايا۔ اسکے بال مٹھی ميں جکڑ کر انک نرمی محسوس کی۔
“تمہيں کتنے گر آگئے ہيں نا۔۔ مجھے قائل کرنے کے” محبت پاش نظروں سے اسکے صبيح چہرے کو ديکھا۔
“آخر آپ کر رنگ تو چڑھنا تھا” وہ ايک مان سے گردن اٹھا کر بولی۔
اشاذ نے محبت سے لب اسکی پيشانی پر رکھ دئيے۔
“ٹھيک ہے جيسے تم کہو” اسکے کان ميں گنگنا کر اسے اور مان بخشا۔


Leave a Comment