“چچی پریشان نہیں ہو۔۔۔میں اسے ڈھونڈ کے لاؤنگا۔”
“مجھے پہلے ہی اس سے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔لیکن سوچا کہ واپس آگیا ہے یہی بات ہے۔ زیادہ کریدنا مناسب نہ سمجھا۔ لیکن اب۔۔۔اسنے حد کردی ہے عارب، اسے کہیں سے ڈھونڈو، میں خود اسے گولی مارونگا۔” نمیر سیال اندر آتے ہی غصے لال چہرہ لیے بولے۔ فرحت بیگم نے بے اختیار پہلو بدلا۔ نمیر اب ایک طرف داؤد سیال کے پاس جاکھڑے ہوۓ۔۔۔فون کال آئی۔
“جی شعیب صاحب! جی پتا کریں۔ وہ ناہنجار کہیں سے مل جاۓ، میں خود اسے جان سے ماردونگا۔ ارے لعنت ہے ایسی اولاد پر۔” غصے سے انکی حالت خراب ہورہی تھی۔
“سکینہ جاؤ بہن کے پاس۔۔۔دیکھو اس، رو رو ہلکان ہورہی ہوگی۔” زلیخہ نے خاموش آنسو بہاتی سکینہ سے کہا۔ ” بچپن کی منگ تھی اسکی، اسی بات کا خیال کرلیتا۔” زلیخہ کی بات پر سکینہ اٹھ کھڑی ہوئ، عارب جو دروبزے کے قریب کھڑا کسی سے فون پر بات کررہا تھا ایک دچٹتی نظر سے اسے دیکھا۔ سکینہ بھی اسے دیکھ کر پلٹ گئی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کچھ دیر قبل ان دونوں کی حیثیت بدلنے والی، کسی اور کی زندگی میں آنے والا طوفان درحقیقت انکی طرف موڑ مڑنے والا تھا۔
قریباً پانچ منٹ گزرے تھے جب سکینہ ہانپتی ہوئی باہر آئی۔ سبھی چپ سادھے بیٹھے تھے، ایک دم اسکی آمد پر اسے دیکھا۔
“دانیہ کمرے میں نہیں ہے۔” وہ سمجھ نہیں پائی کہ یہ بات اسے آہستہ آواز میں، کسی عورت کے کان میں کہنی چاہیے تھی یا سب کے سامنے۔ پریشانی سے کہا تو عارب سمیت سبھی گھر والوں کے پیروں سے جیسے زمین نکل گئی۔
“بیٹا اندر ہی دیکھنا تھا، واشروم۔۔۔واشروم میں ہوگی۔” نمیر سیال کسی اندیکھے خوف کے تحت بولے تھے۔ باقی سب کو جیسے ایک دم ثانپ سونگ گیا تھا۔ زلیخہ تو جیسے مرنے والی ہوگئی تھیں۔ یوں ٹھنڈی پڑ گئی کہ برف ہو۔
“مجھے اندر لے کر چلو۔۔۔ایسے نہیں ہوسکتا۔ میری بیٹی ایسی نہیں ہے۔” مسلسل نفی میں سرہلا کر کہتی وہ سکینہ سے مخاطب تھیں ۔ عارب اس سے قبل ہی کمرے کی طرف بھاگ گیا۔ نمیر اور داؤد بھی ہارے ہوۓ جواریوں کی طرح دانیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ فرحت سب سے آخر میں تھیں۔ اندر پہنچ کر نمیر ، داؤد اپنی سی کوشش کرکے ایک طرف گر سے گئے۔ فرحت بھی سر ہاتھوں میں گراۓ کرسی پر بیٹھی تھیں۔ زلیخہ کی حالت قابلِ رحم ہوتی جارہی تھی۔۔ عارب کھڑکی کی سلائیڈ دھکیلتا واپس آیا تو چہرے پر نامیدی تھی۔ سکینہ اسے ہی دیکھ رہی تھی، اسکے دیکھنے پر عارب نے بے بسی سے نفی میں سرہلایا۔ زلیخہ جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ایک دم اپنا چہرہ پیٹنے لگی۔
“چچی سنبھالیں خود کو۔۔۔” وہ فوراً انکے قریب آکر بیٹھا، اور روتی کرلاتی زلیخہ کو اپنے ساتھ لگایا۔ سکینہ دروازے کے ساتھ لگی بے آواز رورہی تھی۔ نمیر اور داؤد کو تو جیسے ثانپ سونگھ گیا تھا۔ جبکہ فرحت پتھرائی سی سرہاتھوں میں گراۓ بیٹھی تھی۔ عارب سائیڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اٹھانے لگا تو ٹھٹھک کر رک سا گیا۔ لیمپ کے نیچے کچھ سفید سا دکھائی دیا۔ کاغذ کا کونا تھا۔ اسنے نرمی سے چچی کو خود سے الگ کیا اور لیمپ اٹھا کر نیچے سے کاغذ نکالا۔
“کیا ہے یہ؟” نمیر سیال کی گرجدار آواز آئی۔ عارب نے لاعلمی سے ایک نظر انہیں دیکھا۔
“پتا نہیں!” کہتے ہی اسنے کاغذ کھولا۔ سات سطور درج تھیں، اور جیسے جیسے وہ پڑھتا گیا عارب سیال کا چہرہ سفید پڑتا گیا۔ اتنا کہ جیسے کسی نے سفید رنگ پھیر دیا ہو۔
“کیا ہے یہ عارب۔۔۔کیوں ہمیں مارنے پر تلے ہوۓ ہو تم لوگ، ادھر دکھاؤ مجھے!” نمیر سیال اسکے قریب آگئے، اور قریباً کاغذ کھینچتے ہوۓ بولے۔ عارب نے کپکپاتے ہاتھوں کو نیچے کیا، اور ایک نظر دروازے پر کھڑی سکینہ پر ڈالی۔ جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ ایک دم اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ کی لہر دوڑ گئی۔ کہیں کچھ بہت برا مزید ہونے والا تھا، یا ہوچکا تھا۔
سب کے ہاتھوں سے گزرتا ہوا کاغذ اس تک بھی پہنچا، لیکن اس سے قبل ہی وہ جان چکی تھی کہ اس کاغذ میں کچھ خوش آئیند بات ہرگز نہ لکھی گئی تھی، اور جو خلاف تھی وہ یقیناً سکینہ سیال کے خلاف جانے والی تھی۔ اسنے مرے ہوۓ ہاتھوں سے کاغذ کا رخ سیدھا کیا، اور کپکپاتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوۓ پڑھنا شروع کیا۔
“شاید میں یہ قدم نہ اٹھاتی ابا، اماں۔۔۔لیکن آپ سب لوگ غلط ہیں۔۔آپ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ آپ ہمارے ساتھ کیا کرنے جارہے تھے۔ معیز مجھے پسند نہیں کرتا، میں اسے پسند نہیں کرتی اور آپ ذبردستی ہماری شادی کروارہے ہیں۔ لیکن جو ایک دوسری کو پسند کرتے ہیں انکا کیا؟ کیا انہیں جینے کا حق نہیں۔۔۔شاید میں بھی آپ لوگوں کی طرح اس بات سے لاعلم ہی رہتی مگر۔۔۔کچھ دن پہلے میں نے عارب اور سکینہ کو ایک دوسرے سے اظہارِ محبت کرتے ہوۓ سنا تھا، آپ لوگوں کی سختی کی وجہ سے وہ حرام۔۔۔” سکینہ کو لگا اسکا دم گھٹ جاۓ گا۔ اگر اگلی سطر اسنے پڑھی تو وہ مرجاۓ گی۔” وہ حرام کرنے پر مجبور ہیں۔ شاید آپ لوگ میری بات پر یقین نہ کریں۔ لیکن اگر میں گھر سے بھاگنے کی جرات رکھ سکتی ہوں تو یقین کریں سچ بولنا بھی میرے لیے مشکل نہیں ہے۔ ہمیں تو شاید ہی کبھی معافی ملے، لیکن ابا عارب اور سکینہ آپ کے پاس ہیں، انکی قدر کریں۔۔۔اگر وہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں تو انہیں ایک کردیں، اور مزید اللہ کے کہر کو آواز نہ دیں۔ میں جہاں بھی گئی ابا، اس بات کا یقین دلاتی ہوں کہ حرام نہیں کرونگی، کیونکہ میں سکینہ نہیں ہوں۔ ” اور بس یہی تک وہ الفاظ پڑھ سکی۔ کاغذ بے اختیار اسکے ہاتھ سے پھسل گیا۔ بے یقینی سے اپنے سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑے عارب کو دیکھا۔ جس کی اپنی حالت اس سے مختلف نہ تھی۔ سرخ ضبط کرتی آنکھیں، بھنچیں ہوۓ لب، تنی ہوئی رگیں۔۔۔ بیک وقت غصہ، رونا اور بے بسی کا احساس کیا ہوتا ہے عارب سیال کو اس وقت محسوس ہورہا تھا۔ ایک کاغذ نے ان دونوں کو اپنی اپنی جگہ چور بنادیا تھا
__________
Shab E Gham Ki Seher by Zainab Khan Episode 3
