(جب بے چینی ختم نہ ہوئی، تو وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آگیا۔ لندن کی سرد، ہڈیوں میں گھسنے والی ہواؤں نے ایک پل کو اسے ہلا کر رکھ دیا تھا)
ہرگز نہیں، وہ ایک مفلوج رشتہ نہیں نبھا سکتا تھا۔ بات اگر محض ان دونوں کی ہوتی تو شاید وہ سکینہ کیلئیے اپنے دل میں گنجائش نکالنے کی کوشش کرتا۔ یہ گنجائش بھی ولیمے کی دن سے ممکن ہوئی تھی۔ جب سنہری لہنگے میں اسے پہلی بار اتنا تیار ہوا دیکھا تھا۔ ناچاہتے ہوۓ بھی اسکا دل سکینہ کی طرف مائل ہوا تھا۔ یہ نرمی کسی محبت کے پیشِ نظر ہرگز نہ تھی، وہ ایک مرد تھا اور اسی نظر سے ناچاہتے ہوۓ بھی سکینہ کےحسن سے ٹھٹھکا تھا۔ نکاح والے دن تو بیزاری ہی ایسی تھی کہ وہ اس پر توجہ ہی نہ دے پایا تھا۔ لیکن ولیمے پر عارب سیال صحیح معنوں میں چونکا تھا۔
مگر ایک تو وہ جینی کے عشق میں سر سے پیر تک غرق تھا، دوسرا سکینہ خود اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کرچکی تھی۔ اب ایسی صورتحال میں وہ کیا کرتا۔ کئی لمحے وہ تیز برفباری میں گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگاۓ کھڑا رہا۔ اپنے اندر کی کسافت کو ختم کرنے کی کوشش میں وہ یہ بھول چکا تھا کہ لندن کی ٹھٹھرادینے والی سردی اسکی ہڈیوں کو جھنجھوڑ رہی تھی۔ اگر یاد تھا تو صرف اتنا کہ وہ بے چین تھا اور اسے اپنی بے چینی کسی طریقے ختم کرنی تھی۔ کئی گھنٹے یونہی کھڑے کھڑے جب ٹانگیں شل ہونے لگیں تو اندر آکر بیٹھا۔ اسکے ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے، چہرہ بلکل سفید پڑ چکا تھا۔ ناک غیر معمولی انداز میں بہہ رہی تھی۔ اور آنکھیں۔۔۔آنکھوں سے نجانے آنسو بہہ رہے تھے یا سردی کے باعث پانی۔
سوچیں اسے ذہنی طور پر مفلوج کررہی تھیں۔ آنکھوں کو مسلتے اسنے گاڑی کے اندر نسب ایل ای ڈی کی طرف دیکھا۔ رات کے تین بج رہے تھے۔ وہ جیسے ہوش میں آیا۔ یکایک اسکا چہرہ نظروں کے سامنے آیا تھا۔ اپنی پرواہ کیے بغیر اسنے اگنیشن میں چابی گھمائی۔
“ وہ بیووقوف لڑکی نجانے رو رو کر اپنا کیا حال کرچکی ہو۔”بڑبڑاتے ہوۓ اسنے گاڑی ریورس کی، اور تیزی سے اپنے گھر کی جانب مڑا۔ قریباً دو گھنٹے بعد وہ گھر پہنچا تھا۔ ہال بلکل سنسان تھا۔ اس سے قبل کے وہ آگے بڑھتا، پاؤں بری طرح کسی چیز سے ٹکرایا۔ غصے سے بل کھاتے فرش پر دیکھا، پاؤں بیگ سے ٹکرایا تھا۔ اسنے اپنے ذہن پر زور دیا تو یاد آیا کہ یہاں دو اور بیگ بھی تھے۔ جو یقیناً سکینہ سیال کے تھے اور وہ مائع کھانے والی لڑکی اپنے اندر رکھ چکی تھی۔ کیا تھا جو اسکا بھی رکھ دیتی۔ بات برابری کی نہیں تھی ، بات ہمت کی تھی۔ اگر اسنے ہمت کرکے اپنے دو وزنی بیگ اٹھا کر اندر رکھے تھے تو اسکا بھی رکھا جاسکتا تھا۔ لیکن نہیں، اگر ایسا کرتی تو اسکی عزت میں کمی آجاتی۔ لب دباتے اسنے اپنا بیگ اٹھایا اور کمرے میں جا رکھا۔ چہرے پر سنجیدگی ابھی بھی ویسی ہی تھی۔کچھ دیر قبل والی۔
فریش ہونے کیلئے واشروم کا رخ کرنے لگا تو یاد آیا جس کی پریشانی میں اتنی عجلت سے گاڑی دوڑاتا آیا تھا اسے تو دیکھا ہی نہیں۔ اسکے لیے دل میں ایسا کوئی جذبہ تو تھا نہیں۔ لہٰذا دل ہی دل میں یہ بات اخذ کی کہ وہ رورہی ہوگی، اور عارب سیال کو ایسے کونسے الفاظ استعمال کرنے چاہیے جس سے اسکی تکلیف میں کمی آتی۔ چھوٹی موٹی “تقریر” تیار کرکے وہ مطلوبہ کمرے کی طرف بڑھا۔ جس کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا۔ اندر آکر اسنے روشنی جلائی۔
“یہ کیا؟” عارب کا منہ مارے حیرت کے کھل گیا تھا۔ زیرو بلب کی روشنی میں سکینہ بی بی منہ سر لپیٹ کر بڑے بڑے خراٹے لے رہی تھیں۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر وہ گہری نیند میں تھی۔ عارب چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر بیڈ کے قریب آیا، پورا وجود لحاف میں قید تھا، سواۓ ایک ہاتھ کے جس میں لحاف پکڑا ہوا تھا، اور آدھے چہرے کے۔ جس پر گہرے بھورے بال بکھرے پڑے تھے۔ عارب اذیت سے اسے دیکھ کر رہ گیا۔
“سیلفش عورت!” بڑبڑا کر وہ جھکا، اور دو انگلیوں سے اسکی ناک دبائی۔ اتنی دیر کے سکینہ کو کھانسنا پڑا اور ہاتھ مار کر اسکے ہاتھ کو جھٹکنا پڑا۔
“اٹھو! ” لیکن وہ نہیں اٹھی۔ اسکے بارہا اٹھانے پر بھی وہ کروٹ بدل کر سوگئی۔
Shab E Gham Ki Seher by Zainab Khan Episode 6
