Teri Chahat Ki Dhanak by Hira Tahir Episode 9

سردی کی چٹھیاں ہو چکی تھیں۔
میزاب کا دل کہی نہیں لگ رہا تھا۔
فائر وال کی وجہ سے نیٹ کی رفتار نہایت ہی سست ہو چکی تھی، جس کی وجہ سے مہرین سے رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔
وہ بہت زیادہ بور ہو چکی تھی، اس لیے اپنا دھيان بٹانے کے لیے نیا ناول شروع کر چکی تھی۔
وہ روزانہ کئی کئی گھنٹے ناول لکھتی رہتی مگر اس کے باوجود بھی اس کا دل عجیب سی بے چینی میں گرا ہوا تھا۔
آج موسم ابر آلود تھا۔
اس کا دل حد سے زیادہ اُداس اور بے قرار تھا۔
سیاہ گلابوں کے پاس بیٹھی وہ اپنی سیاہ نصیبی پر خاموش آنسو بہا رہی تھی۔
“ٹھیک کہتی تھیں امّاں!”وہ سسكی لے کر خود سے بڑبڑائی تھی۔”مجھے سیاہ رنگ سے محبت کرنی ہی نہیں چاہیئے تھی۔لگتا ہے یہ رنگ میرے نصیب میں تاریکیاں بھرنے لگا ہے۔”وہ انہی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی، جبھی اس کے ساتھ والے گھر سے انعم باجی اپنی ساس کے ساتھ ان کے گھر چلی آئی تھیں۔
وہ جلدی سے آنسو صاف کرکے ان سے ملی۔انہیں برآمدے میں بٹھایا اور پھر کچن میں کام کرتی ہوئیں زرینہ کو بلانے اندر چلی گئی۔
کچھ ہی دیر میں زرینہ باہر چلی آئی تھیں۔
“ارے یہ تو سعدیہ کے ساتھ انعم بھی آئی ہوئی ہے۔”وہ انعم کو دیکھ کر خوشگواریت سے بولیں۔
“خالہ، امی آ رہی تھی تو میں نے سوچا کیوں نا میں بھی چلی آؤں۔ابی سے بھی گپ شپ لگا لوں گی اور آپ کی خیریت بھی معلوم کر لوں گی۔”وہ میز پر سٹیل کا پلیٹ رکھ کر ان سے گلے ملی۔”یہ حلوہ خاص کر بابو جان کے لیے بنایا ہے، انہیں بہت پسند ہے نا۔”
“ہاں مگر امّاں انہیں کب کھانے دیتی ہیں!”میزاب پلیٹ اُٹھا کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔
“ہاں جیسے تم لوگ میرے منع کرنے سے باز آتے ہو۔”وہ دوپٹہ کان کے پیچھے اڑستے ہوئے بولی اور پھر سعدیہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔”کیسی ہو سعدیہ اور تمہاری کمر کا درد اب کیسا ہے؟”
“مت پوچھو زرینہ! کمر کے درد سے تو تنگ آ گئی ہوں۔آئے روز دوائیاں بدلتی رہتی ہوں مگر کوئی فرق ہی نہیں پڑا اب تک۔لگتا ہے جان لے کر ہی رہے گا تو۔”وہ تکلیف بھرے لہجے میں بولیں۔
“اللہ نہ کریں سعدیہ کیسی باتیں کر رہی ہو؟”
“کیا کروں احسن بے چارہ تھک چکا ہے مجھے ڈاکٹروں کے پاس لے جا، لے جا کر۔”
“امی ایسے تو نہ کہیں۔آپ ماں ہیں ان کی، ماؤں کی خدمت کرکے کون تكتا ہے؟”انعم نے پیار بھرے لہجے میں کہا تو سعدیہ کو اس پر بڑا پیار آیا تھا۔
“نہ جانے کس کی دعا قبول ہوئی تھی جو مجھے انعم جیسی بہو مل گئی۔بیٹیوں سے بڑھ کر خیال رکھتی ہے میرا۔”
“یہ تو خوش نصیبی ہے تمہاری ورنہ آج کل کون سی بہو کسی کا خیال رکھتی ہے؟”زرینہ نے انعم کی پشت سہلائی تھی۔
“انعم باجی آپ کا موبائل ذرا مل سکتا ہے۔میں نے مہرو کو فون کرنا ہے۔”میزاب باہر آ کر ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔
“یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ یہ لو!”اس نے خوش اسلوبی سے کہتے ہوئے اسے فون تھمایا تو وہ کچن میں جا کر، عقبی صحن میں كهلنے والے دروازے کو کھول کر باہر چلی گئی۔


Leave a Comment