Teri Chahat Ki Dhanak by Hira Tahir Episode 9

چھٹیوں کے بعد میزاب نے یونی ورسٹی کے گیٹ پر قدم رکھا تو دور کھڑی مہرین کو دیکھ کر سیدھا اس کی طرف چلنے لگی۔
مہرین جو باقی دوستوں کے ساتھ کھڑی باتیں کر رہی تھی میزاب کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اس کی جانب دوڑی تھی۔
اس دفعہ سردی شدید تھی جس کی وجہ سے وہ دونوں تمام چھٹیوں میں ایک دوسرے کے گھر نہیں جا سکی تھیں۔
میزاب کا فون بھی خراب تھا سو ان کی بات بھی نہیں ہو پائی تھی۔
میزاب کے قریب آتے ہی وہ اس کے گلے لگ گئی۔
“کیسی ہو یار؟”میزاب نے اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا۔
“بہت خوش!”وہ کھِلکھلائی۔
“میں بھی۔”میزاب بھی ہلکا سا مسکرائی تھی۔
“میری خوشی کی وجہ تو بہت بڑی ہے۔بتاؤ تم کیوں خوش ہو؟”اس نے بھنّویں اُچکا کر کہا۔
“یار سارے سوالات کھڑے کھڑے کر رہی ہو۔آؤ لان میں جا کر بیٹھتے ہیں۔”وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر لان کی طرف بڑھ گئی۔
اسی اثناء میں اسٹاف روم سے مس رقيہ نکل کر ان کی طرف آئی تھیں۔
“مس اسلام علیکم!”دونوں نے انہیں پُرجوش لہجے میں سلام کیا تھا۔
“وعلیکم اسلام!”انہوں نے مہرین کو کوئی پیکٹ پکڑائی۔”مہرو یہ ناپ کے۔ کپڑے ہیں۔”اب کے انہوں نے میزاب کی طرف دیکھا۔
“میزاب کیسی ہو؟ چھٹیاں کیسے گزریں؟”
“بہت بہتر! مس آپ سنائیں، آپ کیسی ہیں”
“الحمد للہ ٹھیک! مجھے فیاض بھائی سے ملنے آنا تھا مگر اچانک بڑے بھائی کی طبیعت ناساز ہو گئی، اس لیے میں وہاں چلی گئی۔”
“اوہو! مس اب کیسے ہیں آپ کے بھائی؟”میزاب نے افسوس  کرتے ہوئے پوچھا۔ 
“الحمدللہ اب بہت بہتر ہیں۔میں آؤں گی فیاض بھائی سے ملنے۔ان سے اک ضروری کام تھا اور فراز کی منگنی کی مٹھائی بھی تو دینی ہے۔”
“ارے یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔بہت بہت مبارک ہو مس!”
“جیتی رہو! کیا تمہیں مہرو نے نہیں بتایا تھا؟”وہ تعجب سے بولیں۔
“وہ میم میری بات نہیں ہوئی تھی ابی سے۔”
“اوہ اچھا! اور سناؤ میزاب! تمہاری پھوپھو آئی تھیں چھٹیوں میں شادی کی تاریخ رکھنے؟”وہ سوالیہ نظریں اس کے چہرے پر گاڑھ کر مستفسر ہوئیں۔
“جی آئی تھی مگر تاریخ نہیں رکھی۔”اس نے یہ کہتے ہوئے سر جھکا دیا تھا۔
“اچھا! مگر کیوں؟ فیاض بھائی تو کہہ رہے تھے کہ شادی جلد کریں گے۔”
“وہ بس اصل میں۔۔۔۔۔۔”وہ ابھی بات پوری بھی نہیں کر پائی تھی جب فراز نے مس رقیہ کو پُکارا تھا۔
“اچھا میزاب میں آج آؤں گی۔باقی باتیں گھر میں۔”
“جی مس! میں انتظار کروں گی۔”وہ مسکراتے ہوئے بولی تو مس رقیہ فراز کی طرف چلی گئیں اور اس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی سر اُٹھانے لگی تھی۔
“اچھا یار بتاؤ نا، اتنا خوش کیوں تھی؟”اس نے بنچ پر بیٹھ کر اُس سے پوچھا تھا۔
“تمہیں پتا ہے ابی! میری بات طے  ہو گئی ہے۔”مہرین نے شرماتے ہوئے کہا۔
“واؤ زبردست! یہ کب ہوا اور کس سے؟”وہ اس کا بازو پکڑ کر جوش سے بولی۔”ویسے میرے پاس بھی ایک خوش خبری ہے۔”
“کیسے خوش خبری؟”اس نے بھنّویں اُچکائیں۔
“بتاتی ہوں۔پہلے تم ان کا نام تو بتاؤ جن کی زندگی اجیرن کرنے والی ہو۔”اس نے شرارت سے آنکھ کا کونہ دبايا تھا۔
“بد تمیز!”مہرین نے اسے چپت ماری۔
“اچھا نام تو بتاؤ!”
“بتاتی ہوں، پہلے پوری بات تو سنو! چھٹیوں میں میں مس کے گھر ٹیوشن کے لیے جاتی تھی۔”وہ کینٹین کی طرف جاتی ہوئیں لڑکیوں کو دیکھنے لگی۔
“تو؟”میزاب اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
“مس مجھ سے بہت اٹیچ ہوگئی تھی اور پھر فراز سے بھی بات چیت ہونے لگی۔”
“تو اس میں ایسی کیا خاص بات ہے؟وہ تو تم پہلے بھی کرتی تھی۔”وہ کندهے اُچکا کر بولی۔
“ہیں نا خاص بات، پہلے تم پوری بات تو سنو!”اس نے میزاب کو ایک عدد گھوری سے نوازا۔
“اچھا سناؤ!”وہ ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر بولی۔
“کل انہوں نے مجھ سے ایک بات کہی تو میں حیران رہ گئی۔”
“لو جی سوال گندم جواب چنا۔”وہ مسکرائی۔
“یار سیرئس ہو جاؤ!”
“لو ہو گئی سیرئس مگر تمہاری اس تقریر سے ثابت ہو رہا ہے کہ تمہارے رشتے میں مس کا بڑا ہاتھ ہے۔”اس نے مہرین کی باتوں سے اندازہ لگایا تھا۔
“سو تو ہے۔وہ نہ ہوتیں تو کیسے ہوتا یہ؟”
“یعنی مس نے کسی جاننے والے کو تمہارے گھر بھیجا؟”وہ اپنی سمجھ کے گھوڑے دوڑانے لگی۔
“جی نہیں۔وہ خود آئی تھیں۔بات ہوگئی ہے اور اتوار کو رنگ سرمنی ہے۔”اس نے خوشی خوشی بتایا۔ 
“مطلب؟”میزاب کچھ سمجھی نہیں تھی۔
“مطلب مس نے مجھے اپنی بہو بنا لیا ہے۔”مہرین نے اسے گلے لگایا تو اسے بے حد خوشی ہوئی تھی۔
“یعنی فراز میرا بہنوئی!”اس کا چہرہ کھِل اُٹھا تھا۔”کون سی منت مانی تھی جو اتنی آسانی سے اپنی محبت پا گئی؟”
“بس دل کی تڑپ تھی جو ملن کا بہانہ بن گئی۔”اس نے آنکھیں میچ لی تھیں۔
“ہمم سو تو ہے۔”
“اب تم بتاؤ۔تمہارے پاس کیا خوش خبری ہے؟”اس سے پہلے کہ میزاب منہ کھولتی گھنٹی بج گئی تو وہ دونوں کلاس لینے چلی گئیں کیونکہ اگلا پیریڈ ہسٹری کا تھا اور ہسٹری کی ٹیچر کلاس میں دیر سے آنا بالکل بھی پسند نہیں کرتی تھی۔ 


Leave a Comment