Teri Chahat Ki Dhanak by Hira Tahir Episode 9

منگنی کی ساری تیاری میزاب نے خود کی تھی۔ 
اس نے ہال کے بیچ و بیچ نیلے صوفے پر فیروزی چمکیلا کپڑا پھیلایا ہوا تھا۔اسٹیج کے ارد گرد نیلے اور فیروزی ستارے لگائے تھے۔صوفے کے پیچھے لكڑی کا دلكش اسٹینڈ کھڑا کیا تھا۔ جس کے ساتھ فیروزی پرده اور نیلے غبارے لگائے ہوئے تھے۔
چونکہ فنکشن مختصر تھا اس لیے سجاؤٹ کو بس ہال تک ہی محدود کیا تھا۔
وہ مہرین کو ہاتھ سے تھامے باہر لے آئی تو فراز مہرین کی جگہ اسے تکنے لگا تھا، جس پر رقیہ نے اس کا بازو پکڑ کر اسے کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
اس نے سر ہاں میں ہلا کر مہرین کی طرف دیکھا تو مسکرا دیا تھا۔
وہ فیروزی رنگ کی میكسی میں بے حد حسین لگ رہی تھی۔سب نے اُسے ستائشی نظروں سے دیکھا تھا۔
میزاب مہرین کو فراز کے قریب لے آئی تو وہ کچھ دیر کھڑی رہی۔میزاب اسے بیٹھنے کا اشارہ کر رہی تھی مگر اس کی نظریں تو فراز کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔
“بیٹھیئے نا!”فراز نے اس کی نظریں خود پر پا کر اسے اپنے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ سر جھکا کر بیٹھ گئی تھی۔”بہت پیاری لگ رہی ہو۔”فراز نے اس کے کان کے پاس منہ لے جا کر کہا تو وہ شرمانے لگی تھی۔
“اوئے مہرو! تم کچھ زیادہ نہیں شرما رہی؟”میزاب اسے چھیڑنے لگی۔
“ابی!”مہرین نے پلکیں اُٹھا کر اسے گھُورا تھا۔
“اچھا تو یہ دن بھی دیکھنے تھے۔کبھی ہم مہرو کو گھُورا کرتے تھے۔”وہ کھلکھلائی تو فراز نے سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں دکھ کے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے تھے۔
اُسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی۔
وہ دوسری طرف چہرہ موڑ کرآنکھ کے کونے میں اُترنے والی نمی کو ہتھیلی کی پشت میں جذب کرنے لگا تھا۔
“بہت بہت مبارک ہو آپ کو میری پاگل سی سہیلی!”میزاب موقع کی نزاکت جان کر چہچہاتی ہوئی بولی اور ٹوکری سے گلاب جامن اُٹھا کر فراز کو کھلانے لگی۔
اس وقت فراز کے دل میں درد کی ایک لہر سی اٹھی تھی مگر اس نے بہت خوب صورتی سے اپنے چہرے پر مسكان سجا دی تھی۔
“خیر مبارک سالی جی!”وہ اپنی اُداسی پر شوخی کا غلاف چڑھا کر مسکرایا تھا۔”ویسے آپ کی یہ دوست آج کچھ زیادہ ہی چپ نہیں ہے؟”
“بات تو آپ کی بالکل ٹھیک ہے۔لگتا ہے خوشی سے گنگ ہوئی ہے۔ کیوں مہرو! میں ٹھیک کہہ رہی نا؟”
اس کے سوال کے جواب میں مہرین بس مسکرا کر رہ گئی تھی کیونکہ اس کے دل پر بہت بڑا بوجھ آن ٹھہرا تھا۔وہ فراز کے نام کی انگوٹھی پہننے سے پہلے اسے میزاب کے بارے میں بتانا چاہتی تھی کہ اگر اب بھی وہ اپنا ارادہ بدلنا چاہے تو وہ اس کا ساتھ دے گی تاکہ بعد میں اسے کوئی پچھتاوا نہ ہو۔
“آپ کو پتا ہے؟ ابی کی منگنی ٹوٹ گئی ہے۔”مہرین نے بنا اس کی طرف دیکھے ہمّت کرکے کہا تو اس کے چہرے کی رنگت متغیّر ہونے لگی تھی۔
جبھی میزاب نے میزاب کے سر پر چپت ماری۔
“تم آج کے دن یہ بات کیوں لے کر بیٹھ گئی ہو؟”
“مجھے لگا اس کا ذکر آج بہت ضروری ہے۔اگر فراز ارادہ بدلنا چاہے تو . . . . . . “اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی کیونکہ فراز نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔
“ارادہ تب بدلتا جب محبت دو طرفہ ہوتی۔یک طرفہ محبت کے لیے میں تمہارا محبت کرنے والا دل تو نہیں دکھا سکتا۔”اس نے پلکیں جھپکا کر آنکھوں میں اترنے والی نمی کو جذب کیا تھا۔
“مگر پھر بھی اگر . . . . “وہ یکدم چپ ہوئی۔
“مہرو!”میزاب نے اسے گھورا تھا۔
“مجھے تمہاری فکر ہے ابی! فراز جیسا انسان شاید پھر تمہیں نہ ملے۔”
“ارے تم فکر نہ کرو، جیسے مجھے تم مل گئی، انہیں بھی مجھ سے کئی درجے بہتر ہم سفر مل جائے گا۔”وہ یہ کہہ کر زیرلب مسکرایا تھا۔
“کیوں آپ میں کیا کمی ہے؟”
“کمی نہیں شاید کمیاں!”اس نے میزاب کی طرف دیکھ کر گلہ آمیز لہجے۔ میں کہا تو وہ پلیٹ میز سے اُٹھانے جھک گئی۔
ایسی تو کوئی بات نہیں۔”آپ بہت اچھے انسان ہیں۔مہرو بہت خوش نصیب ہے جسے آپ ملے۔”وہ مسکراتی ہوئی گویا ہوئی اور پھر مہرین کو برفی کھلانے لگی۔
“آپ دونوں کو اللہ ہمیشہ خوش رکھے۔”
“آمین!”فراز اور مہرین نے یک زبان ہو کر کہا تو میزاب کا چہرہ کھِل اُٹھا تھا۔


Leave a Comment