The last nightZainab nasar khan
__________
ظہیر احمد آغا بخش کو اپنے آفس لے گئے تھے۔ وہ جانتے تھے آغا بخش کسی انسان کا لحاظ کرنے والے ہرگز نہ تھے، خصوصاً جب بات ان کے پوتے کی ہوتی۔ دوپہر دو بجے کے قریب وہ دونوں ظہیر احمد کے آفیس میں کافی پی رہے تھے جب دروازے پر ناک ہوئی اور آہستگی سے دھکیلتے ہوئی وہ اندر آئی۔ اس کے پیچھے حمزہ، بختاور، عِزہ اور یعقوب جیلانی بھی تھے۔ آغا بخش نے جب اسے دیکھا تو سرد نظریں اس میں گاڑھ دیں۔”تمہاری بڑھکیں تو بہت بڑی بڑی تھیں۔ پھر اتنی لاپرواہی کا مظاہرہ کیسے کیا؟ یا کام کرنا تم لوگوں کو سرے سے آتا ہی نہیں ہے؟” وہ شاید اسے کوڑے میں پھینکی ہوئی چیز سے بھی زیادہ حقیر سمجھتے تھے یا ان کا رویہ ہر دوسرے انسان کیلیے ایسا ہی تھا۔ ان کی بات کو برداشت کرتی وہ اس قدر لب بھینچ گئی کہ جبڑے کی ہڈی نظر آنے لگی، گردن کی نسیں ابھرنے لگیں۔”سر ہماری ڈیوٹی کے اوقات کار آج نو بجے سے شروع ہوۓ ہیں۔ اس سے قبل آپ کا پوتا آپ کی سرپرستی میں تھا۔ یہ سوال خود اپنے آپ سے یا اپنے نوکروں سے کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔” کمالہ ہاشم کے جواب پر آغا بخش گنگ رہ گئے۔ اندر کہیں نا کہیں اسکی جرات کو سراہا بھی تھا۔”کمالہ!” ظہیر احمد نے اسے خاموش کروانا چاہا۔ مگر وہ کمالہ ہاشم تھی، اڑیل گھوڑی ! وہ رکنے والی نہ تھی۔”جیسے ہی ہماری ڈیوٹی شروع ہوئی میری ٹیم کے تمام افسران اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔ بھگوڑا آپ کا پوتا ہے۔۔۔” وہ آگے بڑھی۔ چند قدموں کا فاصلہ تھا آغا حیدر بخش اور اس کے درمیان۔ وہ فاصلہ ختم کرتی، ان کے مدِ مقابل جاکر سرد آواز میں بولی۔ “میری ٹیم نہیں! نہ ہی میں ان کے خلاف ایک لفظ بھی سنوں گی۔ کارکردگی اچھی نہ ہو تو الگ بات ہے۔ جب وہ سب اپنا سو فیصد دے رہے ہیں تو میں یہ حق آپ کو ہرگز نہیں دوں گی سر کہ آپ میری یا میری ٹیم کے کسی فرد کی تذلیل کریں۔” آغا حیدر اس کی ہمت پر عش عش کر اٹھے تھے۔ اس سے قبل کہ وہ کوئی جوابی کاروائی کرتے اچانک دروازہ کھلا اور رپورٹ ورکر ہڑبڑی میں اندر آئی۔”سر آپ کو نیوز دیکھنی چاہیے۔” جلدی میں وہ لڑکی اندر آئی اور ظہیر احمد سے مخاطب ہوئی۔ پھر بغیر کسی کی سنے فوراً آگے بڑھی اور ایل ای ڈی آن کردی۔ نیوز چینل لگا ہوا تھا۔ سامنے بار بار ایک ہی خبر آرہی تھی۔ سبھی کے چلتے ہاتھ رکے۔ آغا بخش کے پاس عینک نہ تھی۔ آنکھوں کو ہلکا سا میچ کر وہ ٹی وی کے قریب آۓ۔