گھر کے وسیع سے ڈرائینگ روم میں وہ اَدھیڑ عمرَ بوڑھا شخص، کروفر سے ڈبل سیٹر صوفوں پر براجمان تھا۔۔اسے بس جلد از جلد نکاح کا انتظار تھا۔۔اور اسفند یار آندر گیا تھا اور ابھی تک باہر نہیں آیا تھا۔۔۔
جبھی اسکی نگاہ گھونگھٹ میں ساتھ آتی لڑکی پر پڑی تو ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں۔۔مگر وہ خاموش رہا۔۔
’’اس لڑکی کے چہرے پر گھونگھٹ کیوں ڈال دیا؟‘‘اس نے سوال کیا۔
’’نکاح تو ہوجانے دیں۔ شیخ صاحب!‘‘انھونے کھسیا کر کہا۔تو وہ سر جھٹک گئے۔۔۔
’’جلد از جلد نکاح شروع کرو۔مجھے آج دبئی جانا ہے شام کی فلائٹ سے۔‘‘وہ عجلت میں بولا تھا۔۔۔
جبھی ڈرائینگ روم میں مولوی صاحب کے الفاظ سماعتوں سے ٹکرائے تھے۔۔۔۔ لائبہ جو زبردستی پر یہاں تک آئی تھی۔۔اس کی بس ہوئی تھی۔۔۔ایک جھٹکے سے گھونگھٹ چہرے سے ہٹا یا تھا۔۔روئی روئی آنکھیں،کپکپاتے لب، لرزتا سراپا۔۔۔وہ ایک لمحو کو فریز ہو ا تھا۔۔۔
’’کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟‘‘سماعتوں میں باز گشت کرتے لفظوں پر اِس نے بے بسی سے آنکھیں میچ لی تھیں،یہی الفاظ کچھ روز قبل بھی اُسکی سماعتوں میں گونجے تھے،اور جب سے ہی اسکی آزمائشوں کا آغاز ہوا تھا۔۔
’’بیٹا کیا آپ کو یہ نکاح قبو ل ہے؟‘‘لفظ دوبارہ دُہرائے گئے تھے۔
’’میں یہ نکاح نہیں کر سکتی،میں نکاح پر نکاح کرنے کا گناہ نہیں کر سکتی مولوی صاحب!‘‘وہ خود پر ضبط کھوتی چلا اُٹھی تھی،اور اسفند یار صاحب بُری طرح سے گڑبڑائے تھے۔
’’لائبہ یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟‘‘وہ بُری طریقے سے دھاڑے تھے۔جبکہ شیخ صاحب نے گھور کر دیکھا تھا۔۔۔
’’بکواس؟میں بکواس کر رہی ہوں؟‘‘اُس نے سسکتے لہجے میں استفسار کیا تھا۔
’’تو بہ استغفار یہ کیا ماجرہ ہے،آگر بچی کا پہلے سے کہیں نکاح ہوا ہے تو نکاح پر نکاح کرانے کا گناہ کرنے سے بہتر ہے کہ آپ عزت سے بچی کو اسکے شوہر کے ساتھ رخصت کر دیں۔‘‘مولوی صاحب نے سمجھانے والے لہجے میں کہا تھا۔
’’جھوٹ بول رہی ہے مولوی صاحب!آگر اسکا نکاح ہورکھا ہے تو پوچھیں اسکا شوہر کہاں ہے؟اس لڑکی کا نکاح نامہ کہاں ہے؟‘‘انھونے گھورا۔۔
’’میں نہیں جانتی بابا!مگر پلیز مجھے مجبور مت کریں۔‘‘وہ روہانسو ہوگئی تھی۔
’’آپ اپنی بیٹی کے ساتھ معاملات طے کرلیں،بچی کی رضامندی کے بغیر یہ نکاح نہیں ہوسکتا،مجھے اجازت دیجئے۔‘‘وہ وہاں سے نکل آئے تھے،جبکہ وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
’’یہ کیا ڈرامہ ہے اسفند یار!‘‘ا س بار وہ غُرائے تھے۔جبکہ اِس لڑکی کا غیر معمولی حسن اور کم عمر دیکھ ان کی نیت پہلے ہی خراب ہو چکی تھی۔۔۔
’’ یہ ڈرامہ کر رہی ہے۔۔پڑ گئی ہو گی یونیورسٹی میں کسی بد بخت کے عشق میں۔۔‘‘وہ خود ہی بیٹی کی ذات کے پرخچے اُڑا رہے تھے۔۔۔
’’ تو پہلے اپنی آوارہ بیٹی کو سنبھالوں نا۔۔ اور ہمارے در میان جتنی بھی ڈیلز ہوئیں تھیں،وہ سب کینسل سمجھو۔۔‘‘وہ درشتگی سے بولتے اپنے ساتھ آئے کچھ عزیز و اقارب کو ساتھ لئے وہاں سے نکل آئے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Ye Ishq Tum Na Karna Episode 3
