ایل سی ڈی کی سکرین پر نظریں جمائے بڑے ہی بگڑے موڈ سے چینل سرچنگ کرتے زکاء کا دھیان کھٹ پٹ کے ناگوار سے شور پر پہلے بھٹکا، پھر الجھا اور پھر اسے کوفت سی محسوس ہوئی تو ضبط سے گردن موڑ دیکھنے لگا ۔۔۔الماری کے سامنے کھڑی شادی کے بے تحاشا گفٹس اور نئے سامان میں الجھی نایاب اسے بھی زیادہ پریشان لگی۔وہ بے حد تیزی سے کام ختم کرنے کی فراق میں تھی۔۔۔۔اسکے اچانک رک کر ایسے سنجیدگی سے دیکھنے پر وہ بھی تھم گئی ۔اس کا مطلب صاف تھا کہ اس کا کام کے دوران بھی سارا دھیان ذکاء کی طرف تھا۔۔۔ ذکاء نے خفگی سے پہلے اسے دیکھا پھر بیڈ کے کافی حد کی سطح پر بکھرے سامان کو اور پھر اسکے پیچھے تمام الماری کے کھلے دروازوں کو۔۔جس میں سے ایک الماری وہ فائقہ ممانی کے کہنے پر اپنے سامان کے لئے خالی کر رہی تھی۔۔اس کی محسوس کن سی گھوریوں پر وہ قدرے محفوظ ہوئی اور تھوڑی حیران بھی۔۔۔پھیکا سا مسکرانے کی ادنی سی کوشش کی۔حقیقت میں وہ پزل ہونے لگی تھی ۔۔۔۔تیزی سے مصروف سے انداز میں یہاں وہاں تمام چیزوں پر یونہی نگاہ گھمائی تھی۔۔۔جھک کر کچھ اٹھایا تھا ۔حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی وہ بس خود کو نارمل کرنا چاہتی تھی ۔ذکاء نے اسی سنجیدگی و خاموشی سے سامنے دیکھ لیا اس نے سکھ کا سانس لیا ۔مگر خفا سی نگاہ اس پر اٹھی تھی۔۔۔پہلے ہی کمرے میں اس کی موجودگی سے تذبذب کا شکار تھی۔۔۔ اور اسی موجودگی کی وجہ سے ہی تیزی سے سب کچھ سمیٹ کر کمرے سے نکل جانا چاہتی تھی۔۔۔شادی کے اس مہنگے ترین سامان کو اپنی اپنی جگہ پر سنبھالنا بھی آج ہی تھا کیونکہ فائقہ ممانی کی سخت تاکید تھی کے جیولری ، کپڑے ، اور مزید قیمتی چیزیں۔۔۔۔خراب ہو سکتی ہیں۔۔۔سو آج ہی کے دن سب کچھ کر لیا جائے تو بہتر ہے ۔اور اسی دن اتفاق سے ان حضرات کی بھی چھٹی کرا دی تھی انھوں نے۔۔جس کے باعث موصوف کا موڈ برہم تھا۔۔۔اور صبح سے اپنی ہی آرام گاہ میں بند تھا۔۔۔۔وہ تو بری پھنسی۔۔۔۔
ہچکچاتے ہوئے لرزتے ہاتھوں سے ایک دوسرا سوٹ کیس گھسیٹ کر سامنے کیا اور کھول کر اس کی چیزیں نکال نکال کر بیڈ پر رکھنے لگی ۔یہ بھی شاید اسے نظر انداز کر نے کے لیے تھا۔۔۔
ذکاء لب بھینچے سامنے ہی دیکھ رہا تھا ۔چہرے پر بلا کی سنجیدگی اب بھی جھلک رہی تھی۔۔چینل سرچنگ کا سلسلہ رکا نہیں تھا ۔۔بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے ٹانگے دراز کیے بیٹھا وہ بار بار ضبط کے گھونٹ بھر رہا تھا ۔۔
نایاب نے اپنے نکاح کا جوڑا بڑی ہی احتیاط سے باکس میں ڈالتے ایک غیر ارادہ سی نظر سکرین پر ڈالی وہاں کچھ چینل آگے پیچھے ہو رہے تھے۔۔۔کہ اچانک سے ایک جگہ سکرین رک گئی وہ کوئی انگلش مووی تھی اور فلم کا اینڈ چل رہا تھا ۔ہیروئین ہیرو کا قدرے رومانی منظر دیکھایا جا رہا تھا۔۔۔۔جسے دیکھ نایاب کے کانوں سے دھواں نکلا تھا۔۔
”اوہ میرے خدا…..!“ برجستہ اس کی زبان سے پھسلا ،افسوس اور شرمندگی سے آنکھیں میچی اور پھر سرخ پڑتے ہوئے مڑ کر ذکاء کو دیکھا۔۔ اس کا دھیان ٹی وی پر نہیں تھا۔۔لیپ ٹاپ پر ابھی ہی آئے میل پر تھا۔۔جسے بے دھیانی میں سرچنگ چھوڑ وہ چیک کر رہا تھا۔۔ مطلب اس نے بالکل دھیان نہیں دیا تھا وہ کس چینل پر سرچنگ روکے لیپ ٹاپ میں لگ چکا ہے ۔۔مگر نایاب کے تو کان گرم ہوگئے تھے۔۔ سمجھ نا آیا کیا کرے کہاں دیکھے ؟
وہ بے چاری تو اپنی جگہ ہی سن ہوگئی۔۔۔
خفت مٹانے کو تیزی سے ایک باکس اٹھا کر پلٹی اور کپکپاتے ہاتھ سے کچھ چھوٹ کر گرا۔۔ وہ عطر کی شیشی تھی جو ایک چھناکے سے زمین پر گر کر ٹوٹ چکی تھی ۔۔مسحور کن مہک سے پورا کمرا مہک اٹھا۔۔ذکاء کی ایک دم سخت نظر پھر اس پر اٹھی تھی۔وہ جھنجھنا کر بول اٹھا ۔
” نایاب! کیا تم یہ چاہ رہی ہو کہ میں روم سے باہر چلا جاؤں ؟“ وہ گھبرا کر پلٹی.
”جی ! “ نا سمجھی سے گویا ہوئی ۔۔۔۔ذکاء نے اس کی غائب دماغی پر لب بھینچے۔۔ لہجے میں طنز سمٹا۔۔۔
”تمہارے اس فضول کام سے اور اس شور شرابے سے میں پریشان ہو رہا ہوں ، تمہاری مہربانی ہوگی اگر تم مجھے کچھ وقت کے لئے اکیلا چھوڑ کر کمرے سے باہر چلی جاؤ ۔“
” فضول کام نہیں ہے ، یہ ضروری ہے۔ ممانی جان نے کہا ہے اسے سمٹنے کے لیے.“
وہ صاف گوئی سے بتا رہی تھی۔۔۔وہ مزید چڑ گیا ۔
”وہ میرا مسئلہ نہیں ہے ماما نے تمہیں جو بھی کہا ہے ۔۔فی الحال مجھے تمہارا کام اور تم ڈسٹرب کر رہی ہو ۔بہتر ہوگا مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔۔۔۔“
وہ سخت ناگواری سے بولا تھا. مگر اس کا لہجہ نایاب کو جانے کیوں کانٹے کی طرح چبھا تھا۔۔۔اور بس وہ بھی پھٹ پڑی تھی۔۔
”ہاں تو میں بھی شوق سے نہیں ہوں یہاں ۔۔یہ تو ممانی جان نے کہا تو سامان سمیٹ رہی ہوں.“
”وہ میرا پرابلم نہیں ہے.“وہ غرایا ۔۔
”تو یہ مہنگا سامان ہے سارا خراب ہو جائے گا باہر۔۔“اس نے دل برداشتہ ہو کر بکھرے سامان کی سمت اشارہ کیا ۔۔
”یہ بھی میرا پرابلم نہیں ہے ۔“وہ تپا تھا۔
”نہ سمیٹا تو ممانی جان تو مجھے ہی کہیں گی ۔۔“اس نے جھنجھلا کر وجوہات رکھیں۔۔
”نایاب وہ بھی میرا پرابلم نہیں ہے ۔۔“اس نے دانت چبا کر سخت تاثرات سے جتایا ۔۔
”تو پھر کیا پرابلم ہے آپ کا؟“نایاب نے بپھڑ کر ہاتھ میں پکڑا باکس بستر پر پھینک دیا تھا ۔۔اس سوال میں ذکاء کی اب تک کی تمام بے اعتنائی کی اذیت کا عنصر نمایاں ہوا تھا ۔۔وہ اس کی بے نیازی اور خاموشی سے عاجز آ چکی تھی۔۔۔ذکاء نے ٹھہر کر اسے دیکھا ۔۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتری ہوئی تھی ۔۔
”اس وقت تو صرف تم ہو میرا پرابلم ۔۔“اس نے چند ثانیے بغور اس کا چہرہ سنجیدگی سے دیکھا اور پھر دوٹوک انداز میں جواب دیا تھا ۔۔اس نے روہانسی نظروں سے اسے دیکھا اور سب کچھ یونہی چھوڑ چھاڑ کر کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔۔ذکاء نے سر جھٹکا اور پھر سے لیپ ٹاپ میں لگ گیا ۔۔
•••••••••••••
شانی باہر سے آیا تو کسی انہونی کا احساس ہوا تھا۔۔۔زوار اسی کے انتظار میں سیڑھیوں پر بیٹھا تھا اور اس کے کمرے کی چابی انگلی میں گھماتے ہوئے مسکرا رہا تھا ۔۔شانی نے اپنی چابی اس کے ہاتھ میں دیکھی تو ٹھٹکا۔۔تیزی سے جیب ٹٹولی ۔۔مگر جیب خالی نکلی ۔۔وہ گھبرایا ۔۔
”کیسے ہو شانی۔۔ اوہ میں تمہیں بتانا بھول گیا تھا ۔۔مجھے رات میں ہی تائی امی نے کمرے میں بلا کر حکم دیا تھا کہ صبح میں تمہاری چابی چرا لوں ۔تاکہ وہ آج تمہارے کمرے کی اچھی سی صفائی کرانے کا ٹارگٹ پورا کر پائیں ۔۔اور میں نے صبح ہی ناشتے کی ٹیبل پر تمہارے کمرے کی چابی پر ہاتھ صاف کر لیا تھا۔۔اور تمہارا کمرہ بھی کھول کر دے دیا ہے اُنھیں ۔۔وہ اچھے سے صفائی کرا رہی ہیں اب تمہارے کمرے کی۔۔“زوار نے شیریں لب و لہجے میں طنز کر اس کے اوسان خطا کر دیئے تھے۔۔اس کے چہرے کا رنگ ایک دم اڑا اور بوکھلا کر وہ سو کی اسپیڈ سے اوپر بھاگا تھا۔۔۔جہاں سامنے ہی اپنے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھ اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا ۔۔اقراء ممانی ملازمہ کے ساتھ اس کے کمرے کے وسط میں کھڑیں اسے صفائی کی ہدایات جاری کر رہی تھیں۔۔شانی گرتا پڑتا کمرے میں گھسا تھا۔۔۔بنا کچھ کہے اس نے پورے کمرے میں فاریہ کو تلاشا ۔۔اس کا حلق خشک تھا سانس اٹکی ہوئی تھی ۔۔فاریہ اسے کہیں نظر نہ آئی ۔وہ باتھ روم کی سمت لپکا ۔۔باتھ روم پورا اندر تک دیکھ کر آیا ۔۔مگر وہ وہاں بھی نہیں تھی۔دفعتاً اس نے اسی طرح پھولی ہوئی سانسوں سے کمرے کا ہر کونا چھان مارا تھا ۔۔دروازوں ،پردوں کے پیچھے ۔۔الماری اور بیڈ کے نیچے ۔۔۔ملازمہ کو صفائی کی تلقین کرتے ہوئے اقراء ممانی نے اس کی بے چینی دیکھی ۔۔وہ بستر کے نیچے جھکا ہوا تھا ۔۔
”کیا ڈھونڈ رہے ہو اب تم ؟“انھوں نے سخت لہجے میں دریافت کیا ۔۔
”وہ لڑکی..؟“اس کے چہرے پر اتنی گھبراہٹ ؤ بوکھلاہٹ تھی کہ بے اختیار منہ سے نکل گیا ۔۔پھر آنکھیں میچ کر فوراً نفی کی ۔
”نہیں وہ..“
”یہ آج کل لڑکیوں کو بہت ڈھونڈنے لگے ہو ہر کہیں۔۔کیا چکر ہے؟“اقراء ممانی کے چھتوں اٹھے۔۔وہ گڑبڑا گیا ۔۔
”نن نہیں ماما ۔میں یہ کہہ رہا تھا یہ کیا آپ لڑکی کو لے کر میرے کمرے میں ہلہ بول آئی ہیں ۔۔میرا ہزار سامان بکھرا پڑا ہو سکتا تھا ۔۔آپ کو کچھ تو لحاظ کرنا چاہیے ۔۔لڑکوں کے کمرے میں لڑکیوں کو لے کر ایسے تھوڑی گھس آتے ہیں ۔۔“وہ بات بناتا الٹا ان پر چڑھ دوڑا۔۔
” کوئی سامان نہیں بکھرا ہوا تھا تمہارا ۔۔ اور کمرے کی صفائی آج کرانی ہی کرانی تھی میں نے۔۔اب ہٹو اور باہر چلے جاؤ ۔۔صفائی ہونے دو۔۔“انھوں نے غصے سے جھڑک دیا اور اسے پیچھے دھکیلا۔۔۔ اس کا اضطراب کسی طور کم نہ ہوا ۔۔یہ فاریہ اچانک کہاں گئی تھی۔۔اس کا دل تیزی سے خوفزدہ ہو سینے میں اتھل پتھل ہو رہا تھا ۔۔ ایک بار پھر اس نے تسلی کے لئے پورا کمرہ چھان مارا۔۔۔
” شانی تم نے سنا نہیں.“اقراء ممانی کو اس کا صفائی کے دوران بار بار سامنے آنا غصہ دلا گیا ۔۔
”ماما ۔۔آپ دونوں چھوڑیں میرے کمرے کی جان اور باہر جائیں ۔۔“وہ ان کی ان سنی کرتا محض اپنی ہانک رہا تھا ۔۔اقراء ممانی نے آنکھیں ماتھے پر سجا لیں۔۔
”تم باہر جاؤ اور ہمیں ہمارا کام کرنے دو ۔۔حد ہوگئی ہے۔۔پورے ایک ماہ سے کمرے کی صفائی نہیں ہوئی۔۔اور تم۔۔“انھوں نے غصے سے اس کے لتے لیئے۔۔
”ماما میرا سامان ۔۔۔“وہ ٹھنکا۔۔
”زوی نے سمیٹ دیا تھا پہلے ہی تمہارا کمرہ۔۔“
”کیا زوی؟“اسے دھڑکا لگا ۔۔مطلب زوار ۔۔اوہ نہیں۔۔۔وہ سن پڑتے دماغ سے پلٹا تو زوار کو دروازے کے بیچوں بیچ ترچھے چھتوں اُٹھائے کھڑا دیکھ تھوک نگلا۔۔۔اس کے تاثرات بڑے ہی خطرناک تھے ۔
”زوار اسے باہر لے جاؤ ۔۔یہاں کھڑے ہمارا سر کھائے جا رہا ہے ۔۔“اقراء ممانی نے اسے دیکھ حکم دیا تھا اور وہ بنا کچھ مزید کہے بدحواس شانی کو کھینچ کر سیدھا اپنے کمرے میں لے گیا تھا ۔۔کمرے کے وسط میں ہی اسے فاریہ گھبرائی ہوئی سی کھڑی نظر آئی ۔۔شانی بے اختیار اس کی سمت تشویش سے لپکا۔۔۔
”فاریہ تم یہاں ۔۔یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟“اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔جب زوار نے اس کا رخ اپنی جانب موڑا ۔۔
”یہی تو میں جاننا چاہتا ہوں شانی یہ سب کیا ہے۔۔تم نے اپنے کمرے میں لڑکی چھپا کر رکھی ہوئی ہے ۔۔یہ تو اچھا ہوا تائی جان نے مجھ سے کہا تھا۔۔اگر وہ خود چابی لے کر تمہارا کمرہ کھولتی تو جانتے ہو کیا ہوتا۔۔ یہ تو میں نے پہلے ہی کمرہ کھول لیا تھا اور اسے وقت سے پہلے نکال کر یہاں لے آیا ۔۔ورنہ آج تو تمہارا بھانڈا پھوٹ ہی جاتا۔۔اب تم مجھے بتاؤ ۔۔یہ کون ہے اور کیوں چھپا کر رکھا ہوا ہے تم نے اسے۔۔؟“زوار پہلی بار شانی کو اتنا سنجیدہ لگا تھا ۔۔
”زوی وہ دراصل ۔۔۔“شانی نے شروع سے آخر تک ساری تفصیل اس کے گوش گزار کر دی تھی ۔جسے سنتے ہی وہ شاک میں آیا تھا ۔۔
”مطلب تم دونوں کا نکاح ہو چکا ہے اور تم نے یہ بات ابھی تک کسی کو بتائی ہی نہیں ۔۔اور ذکاء بھائی بھی چھپے رستم نکلے۔۔تمہارا نکاح کروا کر انجان بنے پھر رہے ہیں ۔۔“
زوار کو افسوس ہوا تھا ۔۔
”ہاں وہ تو ہے ہی میرا صدا کا دشمن۔۔مجھے پھنسا کر اب فری ہی نہیں مل رہا مجھے کہ آگے کا کچھ سوچیں ۔۔“شانی اس صورتحال میں بھی ذکاء پر جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے سے چوکا نہیں تھا ۔۔
”شانی تم ایک کام کرو ۔۔ہم لوگ مل کر دادو کو سب بتا دیتے ہیں ۔۔وہ ضرور کوئی حل نکال لیں گے۔۔“ زوار نے مخلصانہ مشورہ دیا تھا ۔۔شانی نے نفی میں سر ہلایا ۔۔
”نہیں یار۔۔وہ پہلے ہی مجھ سے ناراض رہتے ہیں ۔۔یہ بات سن کر پتا نہیں کیا ردعمل ہوگا ان کا ۔۔اور میں کچھ کر لوں گا آج کل میں ہی۔۔تم بس کسی کو یہ بات مت بتانا.“
”میں تو نہیں بتاؤں گا لیکن آخر کب تک یہ بات ہم چھپا کر رکھ سکتے ہیں ۔۔؟“زوار نے ایک پریشان کن نگاہ فاریہ پر ڈالی تھی ۔وہ لب کچلتے ہوئے ان کی گفتگو خاموشی سے سن رہی تھی۔۔
”جب تک چھپا سکتے ہیں تب تک چھپائیں گے ۔۔بس کسی طرح اس کے باپ سے رابطہ ہو جائے میرا۔۔پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔“شانی کو بڑی امیدیں تھیں ۔۔
”لیکن تم انھیں کہاں ڈھونڈو گے ؟ وہ دبئی میں ہوتے ہیں اور تم لوگوں کے پاس تو ان کا فون نمبر تک نہیں ہے ۔۔نا ہی کوئی لیڈ ۔۔“
”وہ مجھے پتا ہے مجھے کیا کرنا ہے ۔۔بس تم اس راز کو سنبھال کر رکھنا۔۔میں ان شاءاللہ ان ہی دنوں میں یہ مسئلہ حل کر لوں گا۔۔“
شانی نے پُر عزم ہو کر ٹھانی تھی۔۔
”اللہ تمہاری مدد کرے آمین!“زوار نے دعا دی تھی۔۔
”اب جب تک تائی اس کے کمرے سے نہیں جاتیں آپ اسی کمرے میں رہیں۔۔“اس کے بعد وہ فاریہ سے کہتا شانی کے ساتھ باہر نکل گیا تھا ۔۔لیکن اپنے پیچھے دروازہ لاک کرنا نہیں بھولا تھا۔۔
••••••••••••