Uncategorized

Ye Manzil Asaan Nahin by Kainat Riyaz Episode 5

بے چینی سے برآمدے میں ٹہلتے ہوئے اس نے گھڑی پر وقت دیکھا تھا ۔۔رات کا ایک بج چکا تھا ۔۔سب ہی قریباً کمروں میں سونے گئے ہوئے تھے ۔۔اب اندر کی دنیا سو رہی تھی یا جاگ۔۔۔ اسے خبر نہیں تھی ۔۔مگر وہ جاگ رہی تھی ۔۔وہ ہر بار جاگتی تھی ۔۔جب جب ذکاء میر ولا سے باہر ہوتا تھا ۔۔وہ اس کا انتظار کرتی تھی۔۔۔اور آج تو اسے معمول سے زیادہ ہی دیر ہو گئی تھی ۔۔یہ بات اسے پریشان کر رہی تھی۔۔ایک بار سوچا اسے کال کرلے ۔۔مگر پھر اس کے غصے میں آنے کا سوچ کر ارادہ ملتوی کر دیا ۔۔پھر سوچا منجھلی ممانی کو جا کر بتا آئے ۔۔یہ خیال بھی موزوں نہ لگا تو رد کر دیا ۔۔ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہی تھی کہ گھر کے گیٹ پر اسے گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی تھی ۔۔اور وہ یہ آواز پہچانتی تھی ۔۔ذکاء کی آہٹ بھی جو محسوس کر لیتی تھی۔۔وہ اس کی چیزوں کا ہلکا سا ارتعاش کیسے نہ پہچانے ۔۔۔
وہ آ گیا تھا۔
وہ جھٹ سے پلٹ کر کچن میں گھسی تھی۔۔تاکہ اس کے تیار ہونے تک وہ کھانا گرم کر لے ۔۔۔
تیزی سے اس کے لئے کھانا نکالتے ہوئے وہ اپنی رفتار سے دو گناہ زیادہ تیز رفتاری سے ہاتھ چلا رہی تھی ۔۔بار بار پیچھے مڑ کر دروازے کی سمت دیکھتی وہ اس کی جھلک کی منتظر بھی تھی ۔۔بے قرار دل کو تب قرار ملا تھا جب ذکاء تیزی سے اندر داخل ہوا تھا ۔۔اس نے سکون کا سانس بھرا ۔۔اب جا کر اس کی فکر ختم ہوئی تھی ۔۔۔ اتنی دیر تک جب کوئی باہر رہتا تھا تو اسے عجیب ہی وسوسے اور خدشات سولی پر لٹکائے رکھتے تھے ۔۔ میر ذکاء کو اندر آتے ہوئے سیدھا لمبے لمبے ڈگ بھر کر اوپر جاتے دیکھ اس نے گہری آہ بھری اور پھر وہ مطمئن ہوتی اپنے کام میں ہیجان لگا گئی تھی ۔۔۔
زینے چڑھتے ذکاء نے کچن سے آتی کھٹ پٹ کی آواز پر لمحہ بھر کو رک کر دیکھا تھا۔۔باورچی خانہ کی کھڑکی سے اسے وہ نظر آئی تھی ۔۔وہ خفیف سا سر جھٹک اوپر چلا گیا۔۔
چند سکینڈ بعد وہ ٹرے میں کھانا سجائے اس کے کمرے میں مدھم سی دستک دیئے کھڑی تھی ۔۔اندر سے کوئی جواب نہ پاکر اس نے ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا ۔۔اسے حیرت ہوئی تھی اس کا دروازہ لاک نہیں تھا ۔۔اپنی حیرت پر قابو پاتے اندر آئی تو کمرہ خالی تھا لیکن باتھروم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی ۔ وہ شاور لے رہا تھا ۔۔اس نے خاموشی اور اطمینان سے اندر آ بیڈ پر ٹرے رکھی اور پھر ایک نظر باتھ روم کے بند دروازے کو دیکھ پھر سے ناقدانہ جائزہ ور نگاہوں سے ٹرے کو دیکھا ۔۔ہر لوازمات لطافت اور نفاست سے سجا ہوا تھا ۔ وہ سر ہلا کر مطمئن ہوتی کمرے سے چلی گئی ۔۔
جلدی سے شاور لے کر تولیے سے بال رگڑتا ہوا وہ مگن سا باہر آیا تو بیڈ پر سجا خوان دیکھ اس نے خاموشی سے رخ موڑ لیا۔۔۔ آئینے کے سامنے جا کر پرفیوم چھڑکا ۔۔بال رگڑ کر خشک کئے اور پھر کنگا لگا کر اس فائل کی سمت آیا جس کا کام جوں کا توں ادھورا چھوڑ کر تھانے روانہ ہوا تھا ۔لیپ ٹاپ اور فائل اٹھا کر وہ بیڈ کی سمت آیا ۔۔۔اس کی فلائٹ میں ابھی ٹائم تھا ۔تب تک کے لئے وہ فائل کو فائنل کرنا چاہتا تھا ۔۔ہاتھ میں تھامی دونو چیزیں بستر پر رکھ کر اس نے پر تھکان سانس فضا میں خارج کی اور ٹرے ویسے ہی اٹھا کر روم سے نکل آیا تھا ۔۔۔۔رات کے سناٹے میں چلتے ہوئے آ کر اس نے ویسے ہی ٹیبل پر ٹرے رکھ دی تھی۔۔وہ جانتا تھا نایاب کچھ دیر بعد برتن اٹھانے آئے گی ۔۔تو سمیٹ دے گی۔۔۔ اس کا کھانے کا موڈ نہیں تھا ۔۔ اور ایسا ہی ہوا ۔۔اسکے جانے کے دس منٹ بعد ہی وہ آئی تھی ۔۔ذکاء کھانا کھانے کے بعد کمرے سے نکل کر خالی برتن ٹیبل پر رکھ کر جاتا تھا تاکہ نایاب کو دوبارہ رات کے پہر اس کے کمرے میں نہ آنا پڑے ۔۔وہ اس بات کی سخت ممانعت کرتا تھا ۔۔کہ لڑکی ذات اس کے کمرے میں اس کی موجودگی میں نہ آئے ۔۔اگر اس کے کمرے میں نایاب کو بھی کسی کام سے بھیجا جاتا تھا تو وہ کوشش کرتا تھا کمرے میں نہ رکے اور بعض دفعہ تو وہ اسے واپس بھجوا دیا کرتا تھا ۔۔ملازمہ تک کو اس کے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔۔فائقہ ممانی اس کے جانے کے بعد اس کے روم کی صفائی کراتی تھیں ۔۔
نایاب نے ٹیبل کے قریب رک کر اچنبھے سے جوں کا توں سجا خوان دیکھا تھا ۔
”انھوں نے کھانا کیوں نہیں کھایا ۔۔کہیں طبیعت تو نہیں خراب. “ وہ ایک دم ہی تشویش میں مبتلا ہو گئی ۔۔پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس کے کمرے سے ٹرے ایسے ہی واپس آ گئی تھی ۔۔اس نے انگلی دانتوں میں دبائے الجھی نظروں سے از سرے نو ٹرے کو دیکھا تو اسے فکر ہوئی ۔۔اور پھر ایک دم ہی پلٹ کر اوپر گئی تھی ۔۔اس کا رخ ایک کمرے کی سمت تھا ۔۔سامنے ذکاء کا کمرہ تھا جس کا دروازہ بند تھا ۔۔۔مگر اس کا رخ اس کے ساتھ کچھ فاصلے پر واقع کمرے کی جانب تھا۔۔
”زوار!“وہ دستک دے کر فوراً اندر چلی آئی ۔۔پورے کمرے میں تیزی سے نگاہ دوڑائی تو باتھ روم کے بند دروازے پر نظر پڑی ۔۔اندر سے گرتا پانی اس بات کا گواہ تھا کہ موصوف نہانے میں مصروف ہیں ۔۔وہ سر پر ہاتھ مار کر اس بند دروازے کے سامنے آئی ۔۔تو نظر باتھ روم کے باہر گرے پانی پر پڑی ۔۔
”زوار یہ کیا کر رہے ہو تم؟“وہ ایک دم تپ اٹھی ۔۔پائدان تو گیلا ہو ہی گیا تھا ۔۔اس کے علاؤہ بھی پانی کافی دور تک نقشہ بنائے جا رہا تھا ۔۔نایاب کو غصہ آیا ۔۔۔
اپنی ضروری بات کو بالائے طاق رکھتی وہ کمر پر کینہ پرور انداز میں ہاتھ ٹکائے کھڑی ہو گئی تھی ۔
”ہیییں کیا مطلب ۔۔نہا رہا ہوں ۔۔اور تم اس وقت میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو..؟“اندر سے ہی اس کی حیرت انگیز آواز اُبھری تھی ۔۔پانی کی آواز بند ہوئی ۔۔
”یہ ایسے نہاتے ہیں ۔۔سارا پانی باہر آ رہا ہے ۔۔“
”میں تو ایسے ہی نہاتا ہوں.“اس نے ڈھٹائی سے جواب دیا تھا ۔
”حد ہوتی ہے۔۔یہ تبھی تو روز صوبی (ملازمہ) کہتی ہیں زوای بھائی کے باتھ روم کا پائدان گیلا ہوتا ہے ۔گیلری میں سکھانا پڑتا ہے ۔۔۔ وہ تو اب پتا چلا ہے مجھے ۔ تمہیں نہانے تک کا سینس نہیں ہے ۔ اب یہ صفائی کون کرے گا باہر سے ۔۔“وہ بے نقد سنانے بیٹھ گئی ۔۔اس کی تادیب پر وہ جھنجھلایا۔۔
”تم اس وقت مجھے ڈانٹتے آئی تھی ۔۔“ایک دم دروازہ کھول کو وہ تنک کر کھڑا ہوا تھا ۔چونکہ شرٹ باہر بیڈ پر پڑی تھی ۔۔تبھی جینز پہنے کندھوں پر تولیہ ڈالے کسی حد تک خود کو چھپائے وہ گھور رہا تھا اسے ۔۔
”نہیں میں تو یہ کہنے آئی تھی کہ ذکاء آئے ہیں ابھی ۔۔اور انھوں نے کھانا نہیں کھایا۔۔واپس باہر رکھ کر چلے گئے ہیں ۔۔تم جا کر پوچھو نا ۔۔ ان کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔“وہ جھلا کر سر جھٹک مدعے پر آئی تھی ۔۔زوار کو جھٹکا لگا ۔۔
”تو انھیں بھوک نہیں ہوگی ۔۔اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔۔“
”یہ پریشانی کی بات نہیں ہے کیا۔۔انھوں نے آج دن میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا اور پھر ڈنر کے وقت بھی چلے گئے تھے ۔۔ابھی دیا تو کھایا نہیں ۔۔“وہ سچ میں پریشان ہو رہی تھی۔۔
”کوئی بات نہیں نایاب ۔۔ہو جاتا ہے کبھی کبھی۔۔دل نہیں بھی کرتا بندے کا۔۔اس نے باہر سے کچھ کھا لیا ہوگا ۔ “زوار نے ہلکے پھلکے انداز میں اسے حوصلہ دیا تھا ۔۔اسے اتنی سی بات پر اس کے بے چین ہونے پر ہنسی بھی خوب آ رہی تھی ۔
”نہیں زوی تم پھر بھی پوچھ لو نا ۔اگر طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو میں چائے کے ساتھ ٹیبلیٹ دے دیتی ہوں۔۔وہ لے جاؤ ان کے کمرے میں ۔۔میں ممانی جان سے کہہ دیتی مگر وہ سو رہی ہونگی ۔۔ڈسٹرب ہو جائیں گی ۔۔تم ایک بار چلے جاؤ نا ان کے پاس پوچھنے ۔۔“وہ اصرار کر رہی تھی۔۔
”تم چلی جاؤ نا اس سے پوچھنے ۔۔“زوار نے سینے پر ہاتھ باندھے تیکھے چتون اُٹھائے کہا۔۔
”نہیں ۔۔میں نہیں ۔۔مجھے نہیں جانا۔۔پتا نہیں کیا سوچے ۔۔اور وہ میرا اپنے کمرے میں جانا پسند بھی نہیں کرتے ۔۔تم جاؤ نا پوچھ آؤ ۔تم تو بھائی ہو اس وقت جا سکتے ہو.“وہ قطعی انداز میں تردید کرتی پوری کوشش کر رہی تھی اسے قائل کرنے کی ۔۔اسکا چہرہ بہت اضطراری کیفیت میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔زوار کو ہنسی آ گئی ۔۔
”نایاب کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔۔۔ کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہو تم؟“ وہ حیران تھا ۔
”زوار کچھ دیر بعد ان کی فلائٹ ہے ۔۔اگر خدانخواستہ ان کی طبیعت خراب ہے تو زیادہ بگڑ نہ جائے نا کہیں پلین میں۔۔۔تین سے چار گھنٹے کا سفر ہے ۔ کیسے مینیج ہوگا ۔۔تمہیں ایک دفعہ پوچھ کر آنے میں کیا مسئلہ ہے ۔۔؟“وہ عاجز ہو گئی تھی۔۔اس کی سوچ اس وقت جتنی سنجیدگی سے چل رہی تھی زوار اتنا ہی غیر سنجیدہ تھا۔۔۔
”اچھا ٹھیک ہے جاتا ہوں شرٹ تو پہن لوں نا۔۔کہ ایسے ہی چلا جاؤں منہ اٹھا کر ۔۔پتا ہے نا اس جلاد کا۔۔فوراً ڈانٹنا شروع ہو جائے گا کہ لڑکیوں والے گھر میں ایسے کیوں گھوم رہا ہوں ۔۔تمہارا تو کچھ نہیں جانا میری لگ جانی ہے۔۔“وہ تقریباً ہول کھاتے ہوئے جواز بُنتا بیڈ کی سمت لپکا تھا کہ زمین پر پڑے پانی سے بری طرح پھسلا تھا۔۔
”زوی!!“نایاب نے چلاکر اسے بازو سے پکڑ کر گرنے سے بچا لیا ۔لیکن دروازے سے اندر آتے ذکاء کی نگاہوں سے یہ منظر نہ بچ سکا تھا ۔۔شرٹ لیس زوار کے کندھے سے تولیہ گرا ہوا تھا اور وہ نایاب کے قریب کھڑا تھا ۔۔نایاب نے اس کی بازو پکڑ رکھی تھی ۔۔ذکاء کی آنکھوں میں کچھ جل کر بجھا تھا ۔۔رات کے اس پہر اسے نایاب کے اس کمرے میں ہونے اور زوارکے اس حالت میں ہونے کی قطعاً امید نہیں تھی ۔۔۔جانے کیوں اسے کچھ برا لگا تھا بہت برا۔۔۔۔
”خیال سے ابھی گرتے اتنا برا تم…“نایاب نے اسے تیز لہجے میں ڈانٹا تھا۔۔
”ہاں مگر تم نے پکڑ تو لیا نا تھینکس!“زوار نے سر جھٹک کر ہنستے ہوئے پلٹ کر دیکھا تو دہلیز پہ ساکت کھڑے ذکاء پر نظر پڑی ۔۔
”بھائی آپ ؟؟“زوار کو حیرانی ہوئی اس کی بات پر نایاب نے بھی اس سمت دیکھا تو کچھ شرمندہ سی ہو کر زوار سے فاصلے پر ہوئی تھی ۔۔ذکاء کی زیرک نگاہ نے یہ منظر محسوس کیا تھا ۔۔نایاب اور زوار نے سنجیدگی سے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔
”وہ سوری۔۔۔میں اپنا چارجر لینے آیا تھا ۔۔“برملا اس نے آنے کی وجہ بتائی تھی۔۔
”جی سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہے۔۔تھینک یو!“زوار نے شام میں اس سے چارجر لیا تھا تو لوٹانا بھول گیا تھا ۔۔یہ تو ذکاء نے پیکنگ کو نئے سرے سے چیک کر لیا تھا۔۔ورنہ اس کا چارجر یہی چھوٹ جاتا ۔۔وہ خاموشی سے نظروں کا زاویہ بدل کر اندر آیا اور تیزی سے چارجر اٹھا کر نکلنے کو تھا کہ نایاب کے اشارے پر زوار نے یک دم اسے پکار لیا ۔۔
”بھائی آپ نے کھانا کیوں نہیں کھایا ۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا..؟ آپکی فلائٹ ہے کچھ دیر بعد تو نایاب فکر مند ہو رہی تھی آپ کے لئے ۔۔“آخری جملہ زوار نے نایاب کو چڑانے کے لئے شوخی سے ساتھ لگا لیا تھا ۔۔نایاب کی آنکھیں پوری کی پوری پھیل گئیں ۔۔ذکاء جاتے جاتے نایاب کے نام پر ٹھٹک کر رک گیا تھا ۔۔نایاب کا اس کے رکتے ہی دل ڈرا۔۔ پیچ ؤ تاب کھا کر ساتھ کھڑے زوار کو دیکھا ۔۔جو اب دانت نکال رہا تھا ۔۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔۔اور طبیعت ٹھیک ہے ۔۔ دوسری بات کسی کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔میں خود اپنی فکر کر سکتا ہوں ۔۔“وہ بنا مڑے سرد مہری سے کہتا کمرے کی دہلیز پار کر گیا تھا ۔۔زوار کو اس کا لہجہ عجیب لگا تھا ۔۔جبکہ نایاب کو اس کے لہجے کی چبھن پہلے کی نسبت آج بہت زیادہ گھلی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔۔۔اس نے ناسمجھی سے زوار کو دیکھا۔ جو خود بھی الجھا کھڑا تھا ۔

                     •••••••••••••

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on