رات کے سنسان اندھیرے کو چیرتے ہوئے ذکاء کی گاڑی کو سڑکوں پر دوڑاتے ہوئے وہ فاریہ کو لیئے محو سفر تھا ۔۔۔ذکاء کو گھر چھوڑنے کے بعد اس نے فاریہ سے اس کا ایڈریس معلوم کیا تھا اور پھر جلد از جلد اسے لیئے اس سفر پر نکل پڑا تھا جو اس کی زندگی کا سنگین سفر بننے جا رہا تھا ۔۔گود میں خالی ہتھیلیوں کو رکھ کر بے مقصد دیکھتی فاریہ کی سوچ جانے کہاں کہاں کی سیر کر رہی تھی ۔ رات کے دو بج چکے تھے اور وہ گھر سے باہر تھی ۔۔جانے اب گھر پہنچ کر وہ کیسے سنبھالتی معاملہ اسے کچھ اندازہ نہیں تھا۔۔مگر اتنا ضرور پتا تھا کہ گھر میں موجود وہ دو افراد تو بالکل بھی اس کے ساتھ آج رعایت نہیں کرنے والے تھے۔۔۔جانے کیا کچھ سننا پڑتا اسے ۔ اور وہ کہتی کیا انھیں ۔۔کیا وجہ بتاتی اپنے لیٹ ہونے کی ۔۔وہ جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہتی تھی اور سچ اس قدر ہولناک تھا کہ آگے کی سوچ سے ہی اس کا دل کسی شکنجے میں سکڑا جا رہا تھا ۔۔جھوٹ ہی بولنا پڑنا تھا شاید اسے ۔۔سچ پر کون اعتبار کرتا۔ ۔مگر وہ جھوٹ بھی کیا بولے گی۔۔عام طور پہ استعمال ہوئے عزر تو دو تین گھنٹے کی دیری پر ہی ختم ہوجاتے ہیں ۔۔مگر سات گھنٹے ۔۔۔؟
سات گھنٹوں کا وہ کیا ٹھوس بہانہ بنائے گی۔۔سوچ سوچ کر اس کے دماغ کی نس پھٹنے لگی تھی ۔۔مگر کوئی چارہ نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔۔چہرہ تو کب سے سفید پڑا ہوا تھا ۔۔جیسے خون کی شدید کمی ہو اسے۔۔اس کے ہونٹ بھی خوف کے مارے خشک ہو کر پاپڑی بنے ہوئے تھے ۔۔عجیب سا دل بیٹھا ہوا تھا۔۔تھانے کی دیواروں سے ٹپکتی وحشت پہلے ہی اس کا خون جلا چکی تھی۔۔اور اب تشویش نے رہا سہا خون بھی نچوڑ لیا تھا ۔۔
”اب بتائیں اس گلی میں ٹرن کروں ؟“اچانک دھیمی رفتار کر کے شانی نے محلے کے باہر لگے بلبوں کی محدود سی روشنی میں جھانک کر پیچھے بیٹھی اس لڑکی سے تصدیقی انداز میں پوچھا تھا ۔۔وہ ایک دم گھبرا کر اپنی سوچوں سے باہر نکلی اور خشک لبوں پہ زبان پھیرتے ہوئے گڑبڑا کر باہر جھانکا تھا ۔۔یہ اسی کا محلہ تھا ۔۔اسے کچھ ڈھارس بندھی تھی ۔۔مگر اتنی بھی نہیں کہ مطمئن ہو جاتی ۔۔ابھی تو اسے گھر میں منتظر سوتیلی ماں اور بھائی کی جنگ کا بھی سامنا کرنا تھا۔۔۔۔ جس کے لئے اس نے ایک گہری آہ بھر کر خود کو ذہنی طور پر تیار کیا تھا اور پھر اس شخص سے مخاطب ہوئی ۔۔
”آپ مجھے یہی پر اتار دیں ۔۔اندر میں خود چلی جاؤں گی ۔ دراصل آگے گلیاں چھوٹی ہیں اور راستہ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔کچھ کدھائی کا کام چل رہا ہے ۔۔آپ کو پریشانی ہوگی ۔۔آپ چلے جائیں ۔۔“اس نے جھجکتے ہوئے تفصیلی جواب دیا تھا ۔۔وہ سچ میں نہیں چاہتی تھی یہ شاندار گاڑی محلے میں جائے اور کوئی رات کے اس پہر اسے گاڑی سے اترتا ہوا دیکھے ۔ اس معاملے میں وہ بہت احتیاط کرنے والی لڑکی تھی۔۔لوگ تو بہتان باندھنے میں ذرا دیر نہیں کرتے ۔۔اور ویسے بھی لڑکیوں کی ذرا سی خطائیں ان کی زندگی بھر کا روگ بنا دی جاتی ہیں ۔۔اسی لئے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے ۔۔یہ دنیا بڑی ظالم ہے ۔ رعایت نہیں دیتی ۔
”ارے ! تمہیں یہی اتار کر چلا جاؤں ؟ رات کا وقت ہے۔۔۔پورا علاقہ تنہا ہے۔۔نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔۔ میں ایسے کیسے اتار دوں ۔۔۔ یہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے اور اگر ذکاء کو پتا چلا کہ میں نے تمہیں آدھے راستے میں اتارا تو وہ میری عزت کرنے میں ایک سکینڈ نہیں لگائے گا۔ ۔ اسی لئے آپ بتائیں کہاں جانا ہے میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں گھر کے سامنے ہی اتاروں گا آپ کو۔۔اس وقت آپ ہو نہ ہو میری ذمےداری ہیں۔۔۔اور اس وقت اللّہ نہ کرے کوئی بھی حادثہ پیش آ سکتا ہے ۔ “
وہ کوفت سے کہتا ہوا بس اس لڑکی کو اس کے گھر چھوڑ کر وہاں سے نکل جانے کے لئے بےتاب سا لگ رہا تھا ۔۔فاریہ نے اس کے چہرے پر پنپتی بے زاری فوراً بھانپ لی تھی ۔۔اسے برا لگا اس لڑکے کے لیے ۔۔وہ بھی بلا وجہ ہی مشکل کا شکار تھا ۔۔
”نہیں اللّہ نہ کرے کوئی حادثہ اب ہو ہمارے ساتھ ۔۔آپ فکر نہ کریں۔۔یہ میرا محلہ ہے۔۔سب جانتے ہیں مجھے ۔۔میرا بچپن گزرا ہے یہاں ۔۔مجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا ۔۔آپ جائیں ۔۔میں محفوظ ہوں یہاں ۔۔۔میں خود چلی جاؤں گی ۔۔“فاریہ نے لجاتے ہوئے دھیمی آواز میں اسے وہاں سے کسی طرح ٹالنے کے لئے کہا تھا۔۔
”نہیں پھر بھی۔۔چلیں میں چھوڑ دیتا ہوں گھر کے سامنے!“شانی نے سنجیدہ آواز میں کہہ کر پھر سے انجن اسٹارٹ کیا تھا جو وہ باتوں کے دوران بند کر چکا تھا ۔۔انجن کی آواز نے ساکت فضا میں انتشار مچایا تھا اور ہیڈ لائٹس کی تیز روشنی نے سامنے کے گھروں پر سنہری روشنی کی چادر چڑھا دی تھی۔۔۔فاریہ اس کی تیزی پر بوکھلا گئی ۔۔
”نہیں میں کہہ رہی ہوں نا میں چلی جاؤں گی ۔۔۔ آپ تکلف نہ کریں۔۔اندر کا ویسے ہی راستہ خراب ہے ۔۔آپکو گاڑی چلانے میں دقت ہوگی۔۔میں پیدل ہی اندر چلی جاتی ہوں آپ مجھے یہی پر اتار دیں۔۔لاک کھولیں !“وہ ایک دم ہی کچھ جھنجھلا کر کہتی یوں رخ دروازے کی سمت کر کے بیٹھ گئی تھی جیسے ابھی وہ دروازہ کھول دے گا اور وہ اچھل کر باہر کود جائے گی ۔۔
شانی نے حیرانی سے اسے گردن موڑ کر دیکھا تھا ۔۔ اچانک اس کے انداز ؤ اطوار میں ضد اتری تھی۔۔اس نے لاک کھولا تو فاریہ فوراً اپنا تھیلا پکڑتی باہر نکل کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔
”شکریہ بہت بہت۔۔اب آپ بھی جائیں ۔۔“فاریہ نے ممنونیت سے کہہ کر الوداعی انداز میں سر ہلایا اور پلٹی۔۔
”رکو ذرا..!“شانی نے کچھ سوچا اور لب کچل کر تیزی سے باہر نکلا۔۔۔ وہ ٹھٹک کر رکی ۔۔
”چلو پیدل ہی اندر چل کر چھوڑ آتا ہوں ۔۔راستہ خراب ہے۔۔گاڑی اندر نہیں جا سکتی میں تو جا سکتا ہوں نا۔۔اور پھر پتا نہیں تمہارے گھر اندر کتنی دور ہو ۔۔ میرا دل نہیں مان رہا تمہیں اس طرح بے سہارا چھوڑ کر جانے کو۔ “وہ تیزی سے کہہ کر جیکٹ سیٹ سے اٹھا کر پہنتا چابی کھینچ کر گاڑی لاک کر رہا تھا ۔۔فاریہ نے روہانسی ہو کر اسے دیکھا ۔۔وہ یہی تو چاہتی نہیں تھی اسے گھر تک لے جائے ۔۔مگر یہ شخص اف۔۔۔۔۔!