”نہیں ۔۔نہیں۔۔ آپ تکلف نہ کریں ۔۔ویسے ہی میری وجہ سے بہت مشکل اٹھا چکے ہیں آپ ۔۔“فاریہ جھٹ بول کر اسے انکار کرنے لگی ۔۔مگر تب تک وہ چل کر اس تک پہنچتا وہ راستہ سمیٹ چکا تھا تو فاریہ نے بڑی مشکلوں سے بنایا تھا ۔۔
”کوئی بات نہیں جہاں اتنی مشکل اٹھا چکا ہوں وہاں تھوڑی اور بھی اٹھا سکتا ہوں ۔۔چلو !“
وہ گمبھیر انداز میں بولنا ہوا اس کی سرعت سے گزر گیا ۔۔فاریہ اس کے مستحکم انداز کو منہ کھولے دیکھتی رہ گئی ۔۔ اس کا ٹھوس لہجہ ایسی طاقت رکھتا تھا کہ فاریہ کے منہ سے آواز نہ نکلی ۔۔بس قدم بے ساختہ اس کی تقلید کرتے گئے۔۔وہ اس سے دو قدم آگے اس اندھیرے میں ڈوبے محلے کی گلیوں میں چلتا جا رہا تھا ۔۔دونوں ہاتھوں کو بڑھتی ٹھنڈ کے باعث جیکٹ کی جیبوں میں ٹھونسے شانی چاند سے سیدھا اترے اس نور کی روشنی میں چل رہا تھا ۔جس کی کچھ روشنی ارد گرد جمگھٹوں کی صورت زمین کی چھاتی پر کھڑے مکانوں کی منڈیروں سے جھانکتی ہوئی بڑی فرحت بخش محسوس ہو رہی تھی۔۔ شانی کا موڈ قدرے پہلے کی نسبت بہتر ہوا تھا ۔۔فاریہ اس سے دو قدم پیچھے چلتی ہوئی اس کے اُٹھتے قدموں کو تک رہی تھی ۔۔گلیوں کی اونچی نیچی کچی زمین اور کچھ فرش دھوئے گھروں کے دروازوں سے نکلے پانی کی وجہ سے کیچڑ بھی جما ہوا تھا۔۔ کہیں کہیں تو نالیاں بھی نظر آ رہی تھیں ۔۔کبھی تنگ تو کبھی بہت وسیع گلیوں کو بنا چہرے پر کوئی شکن لائے وہ پار کر رہا تھا ۔۔ فاریہ کے دل کو کچھ بہت بری طرح لگا۔۔
اس کے اسنیکرز پر کیچڑ لگ چکا تھا ۔۔
”بس ٹھیک ہے اب میں چلی جاؤں گی آگے خود ہی..“ اس نے ایک دم ہی عقب سے اسے پکار لیا ۔۔وہ چونک کر پلٹا۔۔
”تمہارا گھر ابھی مزید دور ہے کیا ۔؟“شانی نے جیسے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا تھا ۔۔
”نہیں بس یہ گلی ٹرن کروں گی تو سامنے ہی گھر ہے میرا۔ “فاریہ نے ناسمجھی سے بتایا۔۔جو کہ اس کی سب سے بڑی غلطی تھی شاید۔۔
”تو پھر میں گھر تک ہی چھوڑ دیتا ہوں۔۔جب یہاں تک آیا ہوں تو ایک گلی مزید ٹرن کر سکتا ہوں ۔ “شانی نے سر جھٹک کر کہا اور چل پڑا ۔۔فاریہ نے متذبذب چہرے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔وہ کیسے اسے کہے وہ اسے گھر تک ہی تو نہیں لے جانا چاہتی ۔۔اس کے گھر والوں کو بھنک لگ گئی یا انھوں نے اسے اتنی رات گئے اس کے ساتھ دیکھ لیا تو ہنگامہ مچ جائے گا ۔۔مگر مرے مرے قدم اٹھاتی جب اپنے گھر تک پہنچی تو سانس رک گیا تھا ۔۔اس کے گھر کا دروازے کھلا ہوا تھا ۔۔اس کی رفتار سست پڑی ۔۔شش و پنج میں مبتلا ہو وہ بھاگ کر شانی کی سرعت سے نکلی اور گھر کے دروازے تک پہنچی ۔۔اپنی دھن میں مگن چلتے شانی نے سٹپٹا کر اسے سامنے موجود مکان کے دروازے پر رکتے دیکھا تھا ۔۔
بڑی ہی کوئی گمبھیر سی صورتحال محسوس ہو رہی تھی ۔۔ شانی کو بھی کچھ کھٹکا تو بے اختیار قدموں کی رفتار بڑھا کر اس کے دروازے پر پہنچا تھا اور پھر وہیں تھم گیا تھا ۔۔اندر کا منظر ناقابلِ یقین حد تک سنگینی میں ڈھلا ہوا تھا ۔۔اس کے گھر کے صحن میں اس کی سوتیلی ماں اور بھائی کھڑا تھا ۔۔جن کے چہرے کے تاثرات بڑے ہی نفرت انگیز اور خوفناک منظر پیش کر رہے تھے ۔۔ان کے سامنے فاریہ کھڑی تھی۔۔اس کے چہرے کے تاثرات تو شانی نہیں دیکھ پایا تھا ۔۔مگر اس کا ساکن سراپا ساری کہانی بیان کر گیا تھا ۔۔اس کا ڈرا سہما وجود بت کی صورت ان کے سامنے کھڑا تھا ۔۔شانی کو اس سنگین نوعیت سے بھری فضا میں کچھ گڑبڑی کا احساس شدت سے ہوا تھا ۔۔اور اپنی غلطی کا بھی۔۔
فاریہ تو پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس سامنے اٹھتے اس طوفان کو دیکھ رہی تھی ۔۔جو کب سے اس پر گزرنے کو تیار کھڑا تھا ۔۔
”اماں وہ دراصل میں….“فاریہ نے منمناتے ہوئے ابھی منہ کھولا ہی تھا کہ وہ عورت چیل کی طرح اس پر جھپٹی تھی۔۔۔
”بے حیا، بے شرم، بے غیرت ۔۔۔! “یکے دیگرے بعد کئی زناٹے دار تھپڑ اس کی نازک گال پر نشان چھوڑتے گئے تھے ۔۔اس کے ہاتھ سے اس کا تھیلا چھوٹ کر فرش پر گرا۔۔اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے کی طرف گر کر زمین بوس ہوئی تھی۔۔اس کی دردناک چینخ نے سکوت میں ڈوبے مکان میں گونج کر شانی کو بے حواس کر دیا تھا ۔۔وہ ہکا بکا کھڑا یہ ظالمانہ سلوک دیکھ رہا تھا ۔۔جہاں اس عورت نے چھوٹتے ہی اس نازک لڑکی کو بھنبھوڑ ڈالا تھا ۔۔۔اس کی آنکھیں بے یقینی کی حد تک پھیلی سامنے افتادہ ؤ خیزہ رونما ہوا منظر دیکھ رہی تھیں اور دماغ صاف سلیٹ تھا۔۔۔
”مجھے پتا تھا تو ایک دن یہ دن دکھائے گی۔۔۔کر آئی منہ کالا ۔۔ اب یہاں کیا لینے آئی ہے ۔۔۔“عورت کسی طرح قابو میں نہیں آ رہی تھی ۔۔زمین پر گری فاریہ زارو زار رو رہی تھی ۔۔اس کی آہوں اور ہچکیوں کو نظر انداز کرتی وہ عورت اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر مکوں اور تھپڑوں سے ادھ موا کر رہی تھی۔۔وہ اپنی ناکردہ گناہ کی معافیاں مانگتی جا رہی تھی۔۔وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتی تھی۔۔وہ مظلوم بنتی تھی اور اس پر ظلم کیا جاتا تھا ۔ اس کی کمزوری اس عورت کو مزید شہ دے رہی تھی۔۔اس پر اپنی طاقت کا استعمال کرنے کی۔۔جب شانی نے فاریہ کے پھٹ چکے ہونٹ اور منہ سے خون نکلتا دیکھا تو اس کی شل ہوئی تمام حسیات اچانک جاگ اٹھی ۔۔۔
وہ برق رفتاری سے ایک دم آگے بڑھ آیا اور زمین پر گری فاریہ پر جھکی اس عورت کو پیچھے دھکیلا اور فاریہ کو فرش سے اٹھاتے ہوئے اس کے ہچکیوں زدہ وجود کو اپنے حصار میں لیا تھا ۔۔
”یہ کیا کر رہی ہیں آپ ۔۔کیا طریقہ ہے یہ پوچھ تاچھ کا۔۔ ایسے کوئی اپنی جوان بیٹی کو مارتا ہے بھلا۔۔۔آپ کو جاننا ہے تو آرام سے بٹھا کر پوچھیں کہ ایٹلسٹ ہوا کیا تھا ۔۔“ شانی نے غصے سے چلا کر کہتے ہوئے اس خاتون کے کانوں کی گھنٹیاں بجا ڈالی تھیں ۔۔