”ہاں بھئی وہ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔۔اب یہ لڑکی یہاں نہیں رہ سکتی ۔اس کے پیچھے تو اب آئے دن لڑکے آئیں گے۔۔جانے روز کس کس کو لے کر آئے ۔۔ہم ایسے لوگوں کو محلے داری میں رہنے نہیں دے سکتے ۔۔باقر صاحب آپ ہی کوئی مناسب فیصلہ کریں۔۔!“ ایک اور خاتون نے حقارت سے چباتے ہوئے پہلے سے پھیلی آگ میں ایک تنکے کا اضافہ کیا تھا۔۔
”میں بھی اب اس لڑکی کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتی بھئی۔۔اس کے باپ کو بتاؤں گی اس کی کرتوت تو وہ بھی یہی کہے گا ۔میں اب اسکی وجہ سے بدنامی کا ٹھیکرا اپنے سر پر نہیں اٹھا سکتی ۔۔۔میری بلا سے جائے بھاڑ میں یا کسی طوائف خانے میں چلی جائے مجھے اب اس گھٹیا لڑکی کو اپنے گھر میں نہیں رکھنا۔۔!“رخسانہ خاتون نے بھی موقعے پر چوکا مارا تھا ۔۔اس کی من کی پوری ہو ہی رہی تھی تو کیوں نہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی ۔۔یہ گھر تو ویسے بھی فاریہ کے نام تھا ۔۔اچھا تھا بدنام ہو کر نکالی جاتی تو اس کا باپ بھی غصے سے اسے جائیداد سے بے دخل کرتا۔۔اور پھر یہ گھر نام لگ جاتا اس کے ۔وہ تو شروع سے ہی کسی موقعے کی تلاش میں رہتی تھی۔۔آج مل گیا تھا تو فوراً سے اس نے اپنا پہلا وار کر دیا تھا ۔۔
”نہیں۔۔پلیزززز۔۔۔میں کہاں جاؤں گی ۔۔۔ اماں یہ سب الزام ہے جو آپ نے مجھ پر لگایا ہے ۔ خدا کے لئے مُجھے اس طرح رسوا نہ کریں۔۔۔میں آپ کی سگی بیٹی نہ سہی مگر بیٹی جیسی ہوں۔۔آپ جانتی ہیں مجھے اچھی طرح سے ۔۔میں ایسی نہیں ہوں ۔۔پھر کیوں یہ سب کر رہی ہیں ۔“وہ ہاتھ جوڑ کر اس عورت کے قدموں میں گری تھی۔۔اس کی گڑگڑاہٹ سنتی وہ بےحس عورت تنفر سے چہرہ موڑ گئی۔۔۔شانی کو اس لڑکی پر ترس آیا تھا ۔۔کیا دنیا میں اب بھی اتنے ظالم اور بے حس لوگ ہیں ؟ اور یہ لڑکی اسے کس بات کی سزا دی جا رہی تھی ۔۔
”بس کر دو تم ۔۔کیوں سب کے پیروں میں گر گر کر خود کو اتنا مظلوم بنا رہی ہو ۔یہاں سب کے دل مرے ہوئے ہیں ۔۔کسی کو تمہارا احساس نہیں ہونے والا ۔۔“شانی کو اب فاریہ کی بے بسی غصہ دلا رہی تھی۔۔۔
”تمہیں اس کی اتنی فکر ہے تو تم لے جاؤ اسے اپنے ساتھ ۔۔؟“بلو نے طنزاً اُکسایا تھا ۔۔شانی نے غصے سے اسے پچکے ہوئے منہ والے پتلے لڑکے کو گھورا تھا ۔۔جو اس کے ایک مکے سے لڑھک سکتا تھا ۔۔مگر وہ یہاں تماشا لگانے نہیں آیا تھا ۔۔وہ تو یہاں بس انسانی ہمدردی کے لئے اس لڑکی کو چھوڑنے آیا تھا اور ۔۔۔
”ہاں ہاں ۔اتنی ہی فکر ہے اس کی تو لے جاؤ اسے ۔۔رنگ رلیاں منانے کے وقت تو بہت اچھی لگ رہی ہوگی تمہیں ۔۔اب کیا ہوا ہے۔۔“ ایک اور خاتون کی زہریلی زبان کھلی تھی۔۔
”میں تو کہتا ہوں پکڑ کر نکاح کراؤ دونوں کا اور چلتا کرو یہاں سے ۔۔ خس کم جہاں پاک..!“ایک لڑکے نے تو حد ہی کردی تھی ۔۔ان دونوں نے جھٹکا کھا کر اسے دیکھا تھا ۔۔
”کیا بکواس ہے یہ۔۔میں اس لڑکی کو نہیں جانتا ۔۔“شانی کی آواز لڑکھڑائی تھی اس بار۔۔ اس کے اندر کسی انہونی کا احساس شدت سے جاگا تھا ۔۔
”لو اس کے ساتھ رات کے اندھیرے میں پکڑی گئی ہے اور یہ کہہ رہے ہیں ۔۔جانتے نہیں ۔۔خیر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ۔۔سب نے دیکھ ہی لی ہے اصلیت تو۔۔۔اب بھلے انکار کرو یا اعتراف کس کو ماننا ہے یہاں!“ اس خاتون نے نخوت سے منہ پھیر لیا تھا ۔۔
”یہی تو مسئلہ ہے یہاں کسی کو کچھ ماننا ہی نہیں ہے۔ میں بس اسے چھوڑنے آیا تھا یہاں ۔۔میں اسے چھوڑ چکا ہوں۔۔اب آگے یہ جانے اور آپ لوگ ۔۔میں جا رہا ہوں.“ شانی غصے سے کہتے ہوئے مشتعالی قدم اٹھا کر چل پڑا تھا ۔۔یہاں رکا رہتا تو پھر کوئی مصیبت گلے پڑ جاتی ۔۔جیسے یہ لڑکی تھی۔۔نیکی کرنے نکلا تھا اور یہ سب اسے گلے کی پھانس بنانے پر تلے ہوئے تھے۔۔جتنا جلدی ہو سکے اسے اب یہاں سے نکلا ہی بہتر لگ رہا تھا ۔۔فاریہ نے خالہ خالی نظروں سے اسے جاتے دیکھا۔۔دل کسی نے شکنجے میں جکڑا تھا ۔۔جیسے کوئی مضبوط سہارا اس سے دور چلا جا رہا ہو۔۔
”رکو۔۔ اب لڑکی کو بدنام کر کے خود بھاگ رہے ہو ۔۔۔ اس سے تو اب نکاح کرنا ہی پڑے گا ۔۔عیاشیاں کرتے ہو نا تو خمیازہ بھی بھگتو اب.“ ایک لڑکے نے اسے پیچھے سے پکڑ کر روکا تھا ۔۔وہ غصے سے گھوما ۔۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔۔۔ اس لڑکی کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔“
شانی نے غصے سے نتھنے پھلائے اپنا آپ چھڑایا تھا ۔۔
”تو ہم کرا دیتے ہیں نکاح ۔۔بن جائے جا تعلق بھی.“ خاموش تماشائیوں میں کھڑے ایک مرد نے آگے ہو کر بھڑکتے ہوئے اس پر دھاک بٹھانا چاہی تھی ۔
”دیکھو بیٹا ۔۔اس لڑکی کی عزت تمہاری وجہ سے مشکوک ہو گئی ہے ۔۔اسے نہ اب اس کی ماں رکھنے کو تیار ہے اور نہ محلے والے ۔۔اگر تم نکاح کر لیتے ہو تو یہ نیکی اور ثواب کا کام ہے کسی بے سہارا کس سہارا بننا ۔۔“
بزرگ نے اب کے متحمل مزاجی سے ٹھہر ٹھہر کر اسے سمجھایا تھا ۔۔شانی کے اوسان خطا ہو گئے۔۔
”پاگل تو نہیں ہیں آپ سب۔۔میں اس لڑکی سے آج ہی ملا تھا اور وہ بھی حادثاتی طور پہ ۔۔ہم ایک مسئلے میں پھنس گئے تھے۔۔جس سے بڑی مشکلوں سے چھوٹ کر ہم یہاں پہنچے تھے ۔۔میں تو بس عورت ذات کی عزت ؤ ہمدردی میں اسے یہاں چھوڑنے آ گیا تھا ۔۔“شانی چلا چلا کر اپنی بات ان کو سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔۔مگر محلے میں کوئی بھی اس کی سننے کو تیار نہیں تھا۔۔۔سب ادھر ادھر سے غیرت کو نشانہ بنائے اس کے گرد جمگھٹا لگا چکے تھے۔۔۔شانی کو پہلی بار اب ان کے ارادے سنگین لگے تھے۔۔اس نے بوکھلا کر فاریہ کو دیکھا۔۔جس کے چہرے پر بھی سائے لہرا رہے تھے ۔۔ایک عجیب سا خوف دل میں سر اٹھانے لگا تھا ۔۔اس کے حوصلے پست ہونے لگے تھے ۔۔اور حوصلے تو اب شانی کے بھی ڈگمگائے تھے ۔۔۔ اس کے چودہ طبق تو ان سب کی خطرناک ہٹ دھرمی ہی روشن کر گئی تھی۔۔دماغ ایک دم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کر بیٹھا۔۔
”قاضی صاحب نکاح کرانے کی تیاری پکڑیں ان کی ۔ہمارے محلے کی لڑکی کے ساتھ یہ دھوکا دھڑی کر کے اس طرح تو نہیں بھاگ سکتا ۔۔“ایک اور مرد اٹھا تھا ۔۔کرسی پر براجمان بزرگ سے کہتے ہوئے اس نے شانی کو حقارت سے دیکھا تھا ۔۔وہ منہ کھولے ان کو تکنے لگا ۔۔۔جو بلاوجہ ان دونوں کو ایک ساتھ نتھی کرنا چاہ رہے تھے۔۔
”دیکھیئے آپ یوں اس طرح زبردستی نہیں کر سکتے ۔۔میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔میں۔۔۔ہاتھ مت لگائیں مجھے..!“شانی گھبرا کر لڑکھڑاتا ہوا پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔ وہ لوگ اس کی سمت بڑھ رہے تھے۔۔۔
”چل شرافت سے نکاح میں بیٹھ جا ۔۔ورنہ ہمیں مجبوراً تجھے نکاح کے لئے راضی کرنا پڑے گا ۔ “انھوں نے واضح دھمکی دی تھی ۔۔شانی کے اعصاب چٹخنے لگے۔۔
”میں کہ رہا ہوں نا۔۔سنو تم ہی کچھ بتاؤ انھیں ۔۔“وہ ان کے درمیان سے نکل کر فاریہ کی سمت آیا تھا ۔۔
”بتاو انھیں سچ کیا ہے۔۔“ اس نے فاریہ کے سامنے رک کر اسے التجا کی تھی ۔۔وہ بوکھلایا ہوا تھا ۔۔اس کا سر چکرا رہا تھا ۔۔
”آپ لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے ۔۔ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے ۔۔۔ ہمارا کوئی افئیر نہیں چل رہا ۔۔یہ تو بہت اچھے انسان ہیں جنہوں نے میری مدد کی ہے۔۔اور مجھے باحفاظت یہاں چھوڑنے آئے ہیں ۔۔“فاریہ نے سب کو قائل کرنے کی اپنی سی کوشش کی تھی ۔۔مگر اس کی کمزور صدا کوئی سننے والا نہیں تھا۔۔
”ہاں دیکھا ۔۔میں بس اسے یہاں چھوڑنے آیا تھا ۔۔اب کوئی مجھے فضول کے جھنجھٹ میں نہ گھسیٹے ورنہ میں۔۔۔“وہ فاریہ کی گواہی پر کچھ بے فکری محسوس کرتا ہوا واپس مڑا اور سب کو اعتماد میں لیا تھا ۔۔
”ورنہ کیا بے..یہ جھوٹ اب نہیں چلے گا ۔۔“
”ارے میں تو کہتی ہوں وقت کیوں ضائع کر رہے ہو۔۔۔پکڑو دونوں کو اور نکاح پڑھوا دو۔۔“رخسانہ خاتون کے لئے یہ اور بھی مفادات سے بھرا موقع تھا۔۔وہ کیسے گنواتی ۔۔فاریہ سے جان چھوٹ رہی تھی ۔۔جیسے بھی سہی ۔۔
”ہاں یہ میری بہن کے ساتھ غلط کر کے اسے بدنام کر کے بھاگ رہا ہے.“ بلو کی کمینی خصلت نے بھی بروقت انگڑائی لی تھی ۔۔
شانی نے ششدر نظروں سے اسے دیکھا ۔۔اسے کوئی چارہ نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔
”کیا بک رہے ہو۔۔۔تمہاری بہن کی عزت تم نے خود اچھالی ہے محلے میں۔ اور قصور سارا میرے خاتے میں ڈال رہے ہو۔۔اگر اتنی ہی پروا تھی اس کی تو گھر سے باہر کیوں تماشا لگایا تھا ۔ ۔ایک بار تحمل سے بات تو سن لیتے کہ ہم دونوں کس مصیبت میں پھنس گئے تھے ۔۔“تیوراتے ہوئے شانی کا بس نہیں چل رہا تھا اس بلو کی گردن مروڑ ڈالے ۔۔
”دیکھو بھئی ۔۔اب تو جو ہوا سو ہوا۔۔مگر تم بنا اس سے نکاح کیئے واپس نہیں جا سکتے یہاں سے ۔۔اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہاں سے سیدھا جیل جاؤ گے۔۔“
محلے کے مردوں نے یک زبان ہو کر اسے دھمکایا تھا ۔۔”ہاں کرو بھئی پولیس کو کال اور بتاؤ اس کے متعلق ساری بات!“ ایک نے تو باقاعدہ فون نکال بھی لیا تھا ۔۔شانی کا دماغ بھگ سے اڑا ۔۔آنکھیں وحشت سے پھٹ پڑیں ۔۔فاریہ کا دل بھی دوبارہ پولیس کے نام سے کانپا تھا ۔۔اگر پولیس آتی تو وہ بات بھی کھلتی ۔۔یوں فاریہ کی مزید بدنامی ہوتی ۔۔محلے میں سب کو پتا چلتا وہ کس الزام کے تحت پولیس اسٹیشن گئی تھی۔۔یہ بات کبھی کھلنی نہیں چاہئیے تھی۔۔فاریہ نے لرزتے ہوئے ہاتھ منہ پر دبا لیئے تھے۔۔ اس کی کپکپاہٹ اس قدر واضح تھی کہ دیکھنے والا پریشان ہو جاتا ۔۔مگر کسی کے پاس اسے دیکھنے کو وقت نہیں تھا ۔۔اور اس وقت تو کم از کم نہیں تھا ۔
”دیکھیئے آپ پولیس کو نہیں بلا سکتے ۔۔میری بات کا یقین کریں ۔۔ہم دونوں اجنبی ہیں ۔۔“شانی نے زندگی میں پہلی بار ایسی صورتحال دیکھی تھی ۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا اسے کیسے یہ سب سنبھالنا ہے۔۔وہ ہمت چھوڑ رہا تھا ۔۔وہ کسی کو سمجھا نہیں پا رہا تھا ۔۔سب اس کے گرد جمع تھے۔۔پولیس کو بلانے کی بات کر رہے تھے۔۔کوئی سن نہیں رہا تھا ۔۔پورا محلہ ایک طرف ہو گیا تھا ۔۔اور اکثریت نے ہمیشہ اقلیت کو دبایا ہے ۔۔ وہ دونوں انھیں اپنی بات سمجھانے میں سرگراں تھے۔۔وضاحتیں کر رہے تھے ۔مگر سب بے سود تھا۔۔۔اور پھر وہ دونوں ہار گئے تھے۔۔خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔بے بسی سے ۔۔قاضی صاحب نے اسے اس کے گواہوں کو بلانے کے لئے کہا تھا۔۔۔شانی نے ایک گہری آہ بھری۔۔وہ دوبارہ تھانے نہیں جا سکتا تھا ۔۔ذکاء کی پھر نہیں سن سکتا تھا ۔۔میر خاندان کی عزت پھر پامال نہیں ہونے دے سکتا تھا ۔۔اس کا ذہن بند تھا۔۔۔کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔اب تو ذکاء بھی واپس نہیں آنے والا تھا اسے بچانے ۔۔اس کا پورا وجود برف کی لپیٹ میں آ رہا تھا ۔۔اس کی دنیا برف بنتی جا رہی تھی ۔۔وہ کیا کرے ؟ اس کے قدموں تلے سے زمین کوئی دھیرے دھیرے سے کھینچ رہا تھا ۔۔ اس کی ٹانگوں سے جان نکلی رہی تھی ۔ اس کے دل کی دھڑکن جیسے رک رہی تھی۔۔۔یا تو نکاح یا پھر سے تھانے جانا پڑتا۔۔اور اب ذکاء نہیں آنے والا تھا ۔۔وہ گھر سے کسی کو نہیں بلا سکتا تھا ۔۔اس کا دل سکڑ رہا تھا ۔۔دماغ بھاری ہو رہا تھا ۔۔
وہ نکاح کر لے اچانک سے ۔۔کیسے۔۔۔اور کیوں؟
اس کا تو کوئی قصور نہیں تھا ۔۔
اور اب نکاح کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا ۔اسے فی الحال اس مصیبت کا حل نکاح ہی لگ رہا تھا۔۔فاریہ الگ چپ ہو گئی تھی۔۔وہ بولتی بھی تو کون سنتا۔۔اس نے بھی شاید ان کے فیصلے پر ۔۔وہ کمزور تھی۔۔اور کمزور پڑ گئی تھی ۔وہ مضبوط تھا ۔مگر مجبور ہو گیا تھا۔۔۔اور پھر اس نے ایک شخص کو کال کی تھی ۔جو اگلے پندرہ منٹ میں اس کے گواہ کے طور پہ وہاں آیا تھا ۔۔اور پھر اس سے اگلے پندرہ منٹوں میں وہ دو اجنبی بنا کسی منشاء کے نکاح میں باندھ دیئے گئے تھے ۔۔نکاح ؟
کیا کسی کا نکاح ایسے بھی ہوتا ہے ۔۔۔ اس طرح افرا تفری میں۔۔دونوں کی زندگی نے اچانک ہی پلٹا کھایا تھا ۔۔اور ان کی پوری زندگی کا فیصلہ انھوں نے نہیں محلے والوں نے مل کر کر دیا تھا ۔۔اور پولیس کے چکروں میں واپس پڑنے کے خوف نے دونوں کے سروں پر تسلط جما انھیں اس تعلق سے جوڑ دیا تھا۔۔جس میں دونوں ہی خوش نہیں تھے۔۔۔جسے مجبوری کا تعلق کہتے ہیں ۔۔
•••••••••••••••