”شانی تم؟؟“نایاب نے رات کے اس پہر شانی کو پیچھے کے راستے سے اندر آتے دیکھا تو حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گئی ۔۔ڈر کر سہما شانی بوکھلاتے ہوئے مڑا تو فاریہ پیچھے کہیں نہیں تھی ۔۔شاید وہ پہلے ہی چولہے کے پاس کھڑی اس لڑکی کی پشت دیکھ کر فریج کی آڑ میں چھپ گئی تھی ۔۔شانی نے دل پر ہاتھ رکھ کر گہرا سانس بحال کیا تھا ۔۔شکر ہے اس لڑکی نے بروقت دماغ چلا لیا تھا ۔۔ورنہ وہ تو آج لٹک ہی جاتا ۔۔اسے فریج کے پیچھے سے فاریہ کا آنچل نظر آیا تھا ۔۔
”نظر آ رہی ہو۔۔!“ اس نے تپ کر فاریہ کو مخاطب کیا۔۔وہ جھٹکے سے کچھ اور پیچھے دبکی۔۔
”کیا ؟؟“نایاب ناسمجھی سے منہ کھولے آگے آئی ۔شانی گھبرا کر اس کی سمت ہوا۔۔
”نظر آ رہی ہو ؟ مطلب ؟“
”مطلب کہ تم مجھے نظر آ رہی ہو اس وقت ۔۔تو یہ کہ کیوں نظر آ رہی ہو؟“اس نے تیزی سے گڑبڑا کر بات بنائی تھی ۔نایاب نے آنکھیں سکوڑ کر اس کی اداکاریاں ملاحظہ کیں۔
”میں تو جس لئے بھی نظر آ رہی ہوں۔۔مگر تم کیوں نظر آ رہے ہو اس وقت یہاں ۔۔؟ اس طرح چوری چھپے کہیں جا رہے تھے یا کہیں سے آ رہے تھے ؟“نایاب نے متشبہ انداز میں تفتیش کی تھی۔شانی کے حلق میں کچھ پھنسا ۔۔اب کیا بہانہ لگائے ۔۔
”تمہیں کیا لگ رہا ہے ؟“ اس نے ڈر سے ناخن چبا کر الٹا دریافت کیا ۔۔
”تم کہیں سے آ رہے ہو۔۔“اس نے فوراً بھانپ لیا تھا ۔۔شانی نے اعصاب ڈھیلے چھوڑ دیئے ۔۔
”ہاں میں آ ہی رہا تھا ۔۔!“اعتراف کرنے کے علاؤہ اب کوئی چارہ بھی نہ تھا ۔۔
”شانی تم کہاں گئے تھے اس وقت ؟“نایاب کا لہجہ کچھ اور بھی مشکوک ہوا تھا ۔۔
”میں تو جب تین بجے سے گیا تھا آیا ہی اب ہوں.“ وہ جھنجھلا گیا ۔۔نایاب کی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔
”مطلب تم دوپہر کے گئے اب واپس آ رہے ہو۔۔شانی ساری رات تم باہر گزار آئے ہو ۔دادو کو پتا چلا تو ..؟“ وہ تادیب سے جھڑکتی ہوئی اسے کہہ رہی تھی۔۔
”تو تم نہیں بتانا نا۔۔“وہ منمنایا۔۔
”تھے کہاں تم؟؟“نایاب نے آبرو تان کر پوچھا ۔
”میں وہ زوی کو بتا کر تو گیا تھا دوست کی طرف جا رہا ہوں ۔۔نوٹس لینے۔۔ “
”تو نوٹس کہاں ہیں ۔۔؟“نایاب نے تیکھے چتون اُٹھائے بغلوں میں ہاتھ دابے کڑے تیوروں سے اس کے خالی ہاتھ دیکھے تھے ۔۔شانی ہڑبڑا گیا ۔
”وہ تو دوست کے پاس ہی رہ گئے ۔۔“اس نے جھوٹ گھڑا۔۔
”تو تمہیں ایک نوٹس لینے میں اتنا وقت لگ گیا ؟“ نایاب کی آنکھیں تنی ہوئی تھیں ۔۔فاریہ نے جھانک کر اس لڑکی کو دیکھا تھا ۔۔بڑی بڑی آنکھوں کو مزید پھیلا کر کھڑی وہ خوبصورت اور دل چھو لینے کی حد تک معصوم لڑکی بہت پیاری سی تھی۔۔۔ کالے اور بھورے امتزاج کے سوٹ میں کھڑی اپنا وجود سردی کی شدت سے شال سے ڈھانپے کھڑی نایاب اس وقت تادیب سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔جس کے سامنے کھڑا شانی گھبراہٹ سے وضاحتیں کر رہا تھا ۔۔
”نہیں اتنا وقت تو اس لئے لگا تھا کہ اس نے مجھے کہا وہ مجھے کچھ پوائنٹس کی تیاری کروا دیتا ہے تو میں بھی رک گیا ۔۔اور پھر پڑھتے ہوئے کب وقت گزر گیا پتا نہیں چل سکا اور تم بھی بڑی عجیب ہو۔۔ساری ساری رات کیوں گھومتی رہتی ہو گھر میں بدروحوں کی طرح!“
شانی نے جھلاتے ہوئے بے بسی کا فشار اس پر نکالا ۔۔اور ساتھ ہی اس کے لتے بھی لیئے تھے۔۔ اس وقت نایاب کا سامنے آ جانا اسے صحیح معنوں میں جھنجھلاہٹ کا شکار کر رہا تھا ۔۔
”کیا کہا تم نے مجھے ۔۔میں بدروحوں کی طرح گھومتی ہوں ۔۔تو گھر میں ہی گھومتی ہوں۔۔تمہارے طرح باہر سے تو نہیں آتی گھوم کے ساری ساری رات ..“اس نے شانی کی بات پر جل کر طعنہ کسا تھا ۔۔
”ساری رات کہاں گزری ہے ابھی ۔۔ ؟“اس نے اپنا دفاع کرتے ہوئے باہر کے اندھیرے پر نظر ثانی کی اور پھر بے چینی سے چہرہ موڑ فریج کی سمت دیکھا تھا ۔۔جس کی آڑ میں فاریہ ہنوز چھپی ہوئی ان کی باتیں سن مسکرا رہی تھی ۔۔
اسے نایاب کا کردار بہت اچھا لگا تھا ۔۔۔ بلاشبہ وہ بہت پیاری لڑکی تھی۔۔
”گزر گئی ہے۔۔تھوڑی دیر میں فجر ہونے والی ہے۔۔“نایاب نے چلا کر اس کی غلط فہمی دور کی تھی ۔
”ہاں لیکن ابھی ہوئی نہیں ہے ۔۔اور اس وقت پھر بھی کوئی نہیں جاگتا اذان سے پہلے ۔۔یہ تو تم ہی ہو جس کو رات دن سکون نہیں..“شانی کو تپ چڑھ رہی تھی۔۔اس وقت نایاب سے کیوں ٹاکرا ہوا تھا اور نایاب جاگ ہی کیوں رہی تھی۔۔اچھا بھلا فاریہ کو لے کر اوپر چلا جاتا سیدھا۔۔مگر…!
”جن کو نماز پڑھنی ہو نا خضوع و خشوع کے ساتھ ,وہ جاگتے ہیں ۔۔لیکن تمہیں کیا پتا۔۔تم نماز تھوڑی پڑھتے ہو۔۔.“نایاب نے تاک کر اس کی دہکتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔شانی تلملا ہی تو اٹھا تھا ۔نماز کے پابندی میں اگر کوئی ڈنڈی مارتا تھا تو وہ شانی ہی تھا۔۔جس کی وجہ سے وہ اکثر سب سے بے نقد سنا بھی کرتا تھا ۔۔مگر اس وقت بحث کرکے اپنی بے عزتی وہ مزید نہیں کرا سکتا تھا ۔۔۔اس انجان لڑکی کے سامنے تو نایاب نے اس کے اگلے پچھلے گناہ گنوا دینے تھے۔۔ذکاء ٹھیک تھا جس کے سامنے نایاب کی زبان تالو سے چپک جاتی تھی ۔۔وہ محض بے بسی سے سوچ ہی سکا ۔
”اچھا ٹھیک ہے ۔۔جاؤ چائے بناؤ ۔۔اور دو کپ بنانا۔۔“اس نے حلکم مچاتے ہوئے نایاب کو واپس چولہے کی سمت دھکیلا تھا ۔۔تاکہ پیچھے سے فاریہ کو نکال کر اندر لے جا سکے ۔۔
”اچھا ٹھیک ہے میں دودھ تو نکال لوں!“وہ بھی منہ بسور کر سر جھٹکتی نارمل ہوئی اور فریج کی سمت بڑھی ۔۔شانی کے اوسان خطا ہو گئے ۔۔
”تم چھوڑو میں نکال دیتا ہوں۔۔تم جاؤ چائے دیکھو! وہ ابل رہی ہے۔۔“نایاب کو بروقت بیچ راہ میں روکتے ہوئے اس نے چولہے پر ابھرتی چائے کی پتیلی کی سمت توجہ دلائی اور تیزی سے خود فریج کی سمت آیا تھا ۔۔جسے کھول کر اس نے ایک چور نظر فاریہ پر ڈال دودھ کی پتیلی نکالی اور جلدی سے نایاب کو تھمائی ۔۔ساتھ ہی فاریہ کو وہاں سے نکل کر اندر جانے کا اشارہ کر دیا تھا ۔۔
”یہ لو۔۔اچھے سے بناؤ ۔۔میں جاتا ہوں ۔۔“نایاب کو ساتھ لے جا کر چولہے کے پاس روکتے ہوئے وہ کچھ اس انداز میں کھڑا ہوا تھا کہ پیچھے سے گزرتی فاریہ پر نایاب کا دھیان نہ جائے ۔۔اور فاریہ تیزی سے گزر کر اندر چلی گئی تھی ۔۔شانی کی بات سنتی نایاب نے کسی احساس سے چہرہ موڑ کر پیچھے دیکھا تھا۔۔اسے کسی کا گزر کا اندر جانا محسوس ہوا تھا۔۔۔
”کیا ہوا!“شانی نے اس کو پیچھے جھانکتا دیکھ کر چور لہجے میں آہستہ سے پوچھا تھا ۔۔
”نہیں کچھ نہیں ۔۔“نایاب نے اسے واہمہ سمجھ کر سر جھٹک دیا تھا ۔۔اس نے اطمینان سے آہ بھری ۔۔۔
••••••••••••