اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اسے اندر لے آیا تھا ۔۔صد شکر ہے کہ کسی نے نہیں دیکھا تھا ۔۔اور نایاب سے بھی بچ نکلے تھے۔۔
”یہ دیکھو۔۔یہ ہے میرا پیارا سا روم ۔۔سویٹ روووووم۔۔۔۔!“اس کے اندر آنے کے بعد دروازہ اچھی طرح سے بند کرتے ہوئے وہ کہتا ہوا آگے آیا ہی تھا کہ پورے کمرے میں پھیلاوا اور جگہ جگہ ایشیاء بکھری دیکھ جملہ منہ میں ہی گونجتا رہ گیا ۔ سارے کمرے میں اس کے کچھ دھلے اور کچھ میلے کپڑے جگہ جگہ فرش اور بستر پر پھیلے ہوئے تھے ۔اس کے جوتے اور جرابیں الگ بکھری اپنے ہونے کا احساس دلا رہی تھیں۔ بستر کے نیچے پڑا اس کا سامان بھی کافی حد تک باہر جھانک رہا تھا۔۔سائیڈ ٹیبل کے کھلے دراز اور سنگھار میز کی اتھل پتھل چیزیں دیکھ کر اس نے شرمندگی سے فاریہ کو دیکھا ۔۔جو پورے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔۔اس کمرے کا جو کمرہ کم اور کباڑ خانہ زیادہ لگ رہا تھا ۔ یہ ساری وہ تباہی تھی جو موصوف خود ہی فارم ڈھونڈنے کے چکروں میں مچا کر گئے تھے ۔ اور اب بری طرح خجل بھی ہو گئے تھے ۔۔
”آئم سوری۔۔وہ یہ دراصل..“اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر چیزوں کو ترتیب دینا شروع کر دیا تھا ۔۔فاریہ کو اس کی خجالت سے سرخ ہوتی رنگت اور ندامت سے جھکا سر دیکھ اچھا لگا تھا ۔۔
”کوئی بات نہیں ۔۔میرے خیال سے لڑکوں کا کمرہ ہمیشہ ایسا ہی رہتا ہے ۔۔“فاریہ سے اس کی خفت دیکھی نہ گئی تو سادگی سے کہہ کر دلاسا دیا ۔۔
”ارے نہیں ۔۔ہمارے گھر کے کمرے اس طرح کبھی نہیں پھیلتے۔۔یہ تو میں نکلنے سے پہلے اپنا فارم ڈھونڈ رہا تھا ۔۔جس کی وجہ سے یہ ہو گیا ۔۔مگر کوئی بات نہیں ۔۔تم یہاں آرام سے بیٹھو۔۔میں سمیٹ دیتا ہوں ابھی چٹکیوں میں ۔۔“اس نے کچھ شرمندگی زائل ہونے پر جلدی سے بستر سے کپڑے کھینچ کر بازوؤں کے حلقے میں بھرے اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔وہ مسکرا دی۔۔
”ارے ایسے کیسے ممکن ہے کہ میں آرام سے بیٹھ جاؤں اور آپ کام کریں۔۔میں آپ کی مدد کر دیتی ہوں۔۔“فاریہ کو اچھا نہیں لگا تھا ۔ اپنی خدمات پیش کرنا چاہی تو اس نے ہاتھ پیچھے کر لیئے۔۔
”اور مجھے تم سے کام کرا کر اچھا نہیں لگے گا ۔۔ویسے بھی ہمارے گھر کا اصول ہے جو چیزیں پھیلاتا ہے وہی سمیٹتا بھی ہے۔۔۔ یہ سلیقہ ہمارے گھر کے ہر لڑکے میں ہیں ۔۔دادو کو سخت ناپسند ہیں جھوٹی شان و شوکت کے بل اور زعم پر گھر کی عورتوں پر بوجھ ڈالنے والے مرد۔۔۔ وہ کہتے ہیں گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہاتھ بٹانا مومن مردوں کی نشانی ہے ۔۔وہ شروع سے کہتے ہیں گھر کے کاموں میں عورت کا ساتھ دینا چاہیے ۔۔وہی مرد اصل مرد کہلاتے ہیں جو ہر موڑ پر عورتوں کے ساتھ اچھے سے اور صلہ رحمی سے پیش آتے ہیں ۔۔“
وہ نان اسٹاپ بولتے ہوئے ساتھ ساتھ پورا کمرہ بھی بڑی مہارت اور سلیقے سے سمیٹ رہا تھا ۔۔ فاریہ کا دل اب شدت سے چاہا تھا اس کے دادا جیسی نیک اور پیاری ہستی کو اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔۔کس قدر عظیم الشان شخصیت ہوگی ان کی۔۔جنہوں نے اتنی پیاری تربیت کر رکھی تھی سب کی۔۔۔ کیا ہی ہوتا گر وہ بھی کسی ایسے ہی گھر کا حصہ ہوتی ۔۔
حصہ؟؟
وہ چونکی۔۔حصہ تو وہ بن چکی تھی۔۔بنا دی گئی تھی۔۔وہ اس کے نکاح میں تھی۔۔کیا وہ اب ان ہی گھر کے افراد کے ساتھ رہ سکے گی ۔۔؟
اس کے دل نے سوال کیا تھا ۔۔
”تمہارا نام کیا ہے؟“ جب وہ پورا کمرہ سمیٹ چکا تھا تو کمرے کے وسط میں کھڑی اس لڑکی کو مخاطب کیا ۔۔اس نے سٹپٹا کے اسے دیکھا تو ذرا چونکی ۔۔پورے کمرے کا نقشہ ہی بدل چکا تھا ۔۔لمحوں میں وہ کمرہ لطافت اور نفاست کی جاگیر بنا چمک رہا تھا ۔۔اور اب فاریہ نے دیکھا تھا وہ کمرہ کھلا سا تھا اور ضرورت کی ہر شے موجود تھی اس میں ۔۔قیمتی سازوں سامان سے لدا ہُوا کمرہ بہت اچھے سے سیٹ تھا۔۔۔اور فاریہ کے لئے تو کسی جنت سے کم نہیں تھا ۔۔ اس گھر اور پھر اس کمرے نے حقیقتاً اس کی نظروں کو خیرہ کیا تھا ۔۔ آسائشات تھیں ۔ سہولتیں تھیں ۔۔۔ اور سب سے زیادہ ایک اچھے دل کا لڑکا تھا ۔۔جو اب اس کا تھا ۔۔
کیا واقعی میں اس کا؟
”میرا نام فاریہ ہے!“اس نے کمرے اور اس لڑکے کے کردار کی خوبصورتی میں کھوئے ہوئے اپنا نام بتایا تھا ۔۔ذلت و رسوائی کے بدلے میں ایک انمول نگینہ ہاتھ آیا تھا ۔
”اوکے نائس نیم فاریہ جی۔۔! مطلب کیا ہے اس کا..؟“اس نے اپنی بے ترتیب کتابوں کو درست کرتے ہوئے دوستانہ ماحول پیدا کرنا چاہا تھا ۔۔تاکہ اس کی جھجک کچھ زائل ہو سکے ۔۔وہ دیکھ رہا تھا اس کے کمرے میں وہ کچھ غیر آرام دہ کھڑی ہے۔۔
”خوشحال خاتون!“ اس نے ہلکے پھلکے انداز میں بتایا تھا ۔۔
”پر تم تو ذرا خوشحال نہیں لگتی۔۔۔“
ذیشان نے اس کے اداس چہرے کو بغور دیکھا تھا ۔۔مار کے باعث اس کی گال سرخ اور سوجے ہوئے تھے۔۔پھٹے ہونٹ پر بھی خون جما ہوا تھا اور ہونٹوں کے گرد بھی خون کے دھبے تھے۔۔ایک طرف سے بائیں آنکھ کے پاس ہلکا سا نیل بھی محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔یہ چوٹیں تو ظاہری تھیں ۔۔جو نظر آ رہی تھیں ۔۔مگر اس کے نازک سراپے پر کتنی مار دھاڑ کے نشان تھے اس کا اندازہ بھی تھا شانی کو۔۔اس کا دل بے اختیار ترحم میں اترا ۔۔
”جتنی محرومیوں کو میں نے دیکھا ہے کوئی بھی دیکھے گا تو خوشحال نہیں رہے گا ۔۔اور ویسے بھی نام کا مطلب ہے یہ تو ۔۔ضروری نہیں آپ اپنے نام سے میل کھائیں ۔۔“اس نے پژمردگی سے کہتے ہوئے بستر پر بیٹھ کر اسے دیکھا تھا ۔۔
”ہاں ہو سکتا ہے ۔۔میرا نام ذیشان ہے ۔۔جس کے معنی ہیں ۔۔عظمت والا، شان و شوکت والا ،بلند مرتبے والا ۔۔اور بھئی میں تو ایسا ہی ہوں..“ اس نے اترا کر بڑے زعم سے کہا تھا ۔۔فاریہ کے لبوں پہ مدھم سی مسکراہٹ رینگ گئی۔۔
”جی بالکل۔۔آپ بالکل اپنے نام کی طرح ہی ہیں ۔۔آپ میں اپنے نام کی ہر خوبی ہے بلاشبہ.“فاریہ نے دل سے اس کی تعریف کی تھی۔وہ جھینپ گیا ۔۔
”ہاں یہ تو ہے ۔۔خیر تم نا ایک کام کرو ۔۔وہ سامنے واش روم ہے ۔تم فریش ہو جاؤ ۔میں اوئنٹمنٹ لے آتا ہوں وہ چوٹوں پر لگا لو ۔۔اور میں کچھ کھانے کو بھی لے آتا ہوں ۔۔تمہیں بھوک تو لگی ہوگی نا۔۔؟“ وہ بے تکلفی سے کہتے ہوئے تقریباً کام ختم کر ہاتھ جھاڑ چکا تھا ۔۔پورا کمرہ لشکارے مار رہا تھا ۔۔اس نے طائرانہ نظر دوڑائی اور خوش ہو کر خود کو شاباشی دی ۔۔شانی کو اپنی کارکردگی پر اٹھلاتے دیکھ فاریہ نے پھر سے ہنسی دبائی اور اٹھ کر واش روم کی سمت چلی گئی ۔۔نئے طرز کا بے حد اسٹائلش واش روم میں قدم رکھتے ہی اس کی آنکھیں ایک بار پھر سے پھیلی تھیں ۔۔وہ اپنی اعصاب پر سوار ان آسائشوں کا سحر ختم کرنے کی کوشش کرتی واش بیسن کی سمت آئی اور نل کھولا ۔۔شفاف پانی کی دھار نکلتے ہی اس نے ہاتھ دھوئے اور جیسے ہی منہ پر چھینٹے مارے تو ایک دم ہی جیسے چوٹوں سے جلن کی ٹھیس اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔اس نے سسکی لبوں میں دبائی تھی۔۔پورا چہرہ نیم گرم پانی کے بہاؤ کے ساتھ جیسے جلنے لگا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے شانی کا رکھا ہی فیس واش اٹھا کر منہ پر اگڑا اور درد دبا کر پھر سے پانی چہرے پر بہایا تھا۔۔۔آئینہ دیکھا تو اپنا سوجا ہوا منہ دیکھ کر اسے ایک دم بہت سا رونا آیا تھا ۔۔۔ دکھ ؤ درد سے اس نے لب دانتوں تلے دبایا اور بیسن پر ہاتھ ٹکا دبی دبی سسکیوں سے رونے لگی ۔۔۔ اتنی دیر سے اسے تنہائی میسر نہیں آئی تھی اب جو آئی تو دل کا درد اور آنکھوں کا پانی ایک ساتھ بہنے لگا تھا ۔۔ اسے باپ بہت یاد آ رہا تھا ۔۔انھیں تو خبر تک نہیں ہوگی اس کے پر کیا کچھ گزر چکا ہے ۔۔وہ آپ بیتی کسے سنائے۔۔۔وہ خوب جی بھر کر رو لینا چاہتی تھی ۔۔بہت عرصے سے جمع گرد و غبار تھا جو اب چھٹنے لگا تھا ۔۔
••••••••••••