شانی کمرہ لاک کر کے باہر آیا تھا ۔۔چابی پوکٹ میں ڈال کر اس کا رخ کچن کی سمت تھا ۔۔
نماز کے بعد اب ہلکی پھلکی سحر پھوٹنے کا آغاز ہو چکا تھا ۔۔اندھیرا چھٹنے لگا تھا ۔۔نایاب دادو کو دوا دے کر ان کے لئے سبز چائے بنانے آئی تھی ۔۔جب شانی کو پھر سے کچن میں آتے دیکھا ۔۔
”تمہاری چائے کب سے ڈال کر رکھی ہوئی تھی میں نے۔۔آئے ہی نہیں پھر لینے ۔۔اب تو ساری ٹھنڈی بھی ہو گئی ہوگی ۔۔“ وہ نماز کافی وقت سے پڑھ کر فارغ تھی۔۔لیکن پھر بھی نماز کی چادر اس کے چہرے کے گرد حالے کی صورت لپٹی ہوئی تھی ۔۔
”ہاں سوری بھول گیا تھا ۔۔“اس نے جواب دے کر فریج کھولا تھا ۔۔نایاب نے خفگی سے اسے گھورا ۔۔ساری رات باہر رہ کر آیا تھا اور کسی کو پتا بھی نہیں تھا ۔۔دادو کو پتا چلا تو انھیں کتنا برا لگتا اور شانی کو الگ سننی پڑتی ۔۔
”نایاب کچھ کھانے کو ہیں ؟“
فریج میں کچھ مناسب نہ ملا تو مڑ کر پوچھا ۔
”ابھی تھوڑی دیر میں ناشتہ بنانے لگی ہوں سب کا۔۔پھر آ کر کھا لینا ۔“اس نے دادو کی چائے کپ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔
”نہیں۔۔اتنی دیر کون انتظار کرے گا ۔۔پلیززز تم کچھ بنا دو نا..!“ وہ اصرار کرتے ہوئے منمنایا ۔۔وہ تیز نظروں سے گھوری ۔۔
”میں نے کہا تھا بھوکے پیاسے پوری رات باہر گزارو ۔ اور تمہارا دوست کیا اتنا کم ظرف تھا کہ کھانے تک کو کچھ نہیں دیا تمہیں ۔ہے کون یہ تمہارا کنجوس دوست؟“ نایاب کو پھر سے تاؤ آ گیا تھا ۔۔شانی نے روہانسا ہو کر اسے دیکھا ۔۔
”تم اب بس اعلان کرا دو اس بات کا۔۔ بنا کر دے رہی ہو یا نہیں ۔۔!“ اس نے چڑ کر پوچھا ۔۔
”بنا دیتی ہوں ۔۔۔ جاؤ یہ دادو کو دے آؤ اور ذرا حاضری بھی لگوا آؤ ۔۔پوچھ رہے تھے تمہارا ۔۔“اس نے کپ اس کی سمت بڑھایا ۔ شانی کے اوسان خطا ہوئے ۔۔
”تم نے کچھ بتایا تو نہیں؟“ اس کے چہرے پر خوف در آیا تھا ۔۔
”کچھ نہیں بتایا میں نے۔۔جاؤ خود ہی بتا آؤ جو بتانا ہے ۔کوئی بہانا ہی گھڑو گے۔۔عادت ہے تمہاری ۔بنا آؤ پھر سے انھیں بے وقوف..“وہ طنزیہ انداز میں بولتی ہوئی فریج کی سمت گئی۔ شانی نے منہ بسورا ۔۔
”کیا کھاؤ گے ۔۔“اس نے گھور کر پوچھا ۔۔
”پراٹھا اور آملیٹ بنا دو اور دو کپ چائے!“اس نے دادو کا کپ اُٹھاتے ہوئے بتایا تو نایاب کو جھٹکا لگا ۔۔
”دو کپ کیوں ؟“معقول سوال تھا۔۔وہ گڑبڑا گیا ۔
”وہ میں دو کپ پیؤں گا۔۔کل سے چائے نہیں پی نا تو صدمہ لگ گیا ہے ۔۔“ بمشکل اس نے بات سنبھالی تھی ۔۔ اور پھر تیزی سے کپ اٹھا باہر نکل گیا تھا ۔۔ ۔
”تمہاری وجہ سے نا کسی دن ہمیں صدمہ لگ جائے گا ۔۔“نایاب نے سر جھٹک دیا.
اس نے دادو کے کمرے کے سامنے پہنچ کر گہرا سانس لیا تھا ۔۔ان کے کمرے کا دروازہ بھی رعب و جلال چھلکاتا تھا۔۔۔بند دروازے کے باہر بھی ان کی دحشت چھائی رہتی تھی۔۔شانی نے دل میں جل تو جلال تو کا ورد کیا اور دستک دے کر دروازہ کھولا ۔۔سامنے ہی آرام دہ کرسی پر وہ اسے کتاب میں مگن نظر آئے ۔ وہ کپ احتیاط سے لیئے اندر چلا آیا ۔ ۔ دادو نے عینک کے اوپر سے اسے دیکھا ۔۔شانی کے چہرے پر خوف سوار تھا ۔۔۔
”خیریت برخوردار ۔۔۔آج کیسے صبح صبح وقت مل گیا میرے کمرے میں آنے کا؟“انھوں نے کتاب بند کر کے تپائی پر رکھ دی ۔۔جب کہ طنزیہ انداز بھر پور تھا۔۔
”کیسی بات کر رہے ہیں دادو۔۔میں تو کل بھی آیا تھا آپ کے کمرے میں ۔۔وہ تو آپ کمرے میں تھے نہیں تو ملاقات نہیں ہو سکی ۔۔“اس نے کپ اس کے سامنے چھوٹی ٹیبل پر رکھ دیا ۔ انھوں نے سر ہلایا ۔۔
”ہاں تم تب ہی آتے ہو جب میں نہیں ہوتا ۔۔“انھوں نے سر جھٹک کر کپ اٹھا لیا..
شانی نے ان کے خفا چہرے کو دیکھا ۔۔جانے اور کب تک انھوں نے اس سے ناراض رہنے کی ٹھان رکھی تھی ۔۔اس کے آرمی جوائن نہ کرنے والی بات کو بھی اب تو کافی وقت گزر چکا تھا ۔۔مگر ان کی ناراضگی برقرار تھی۔۔شانی کو افسوس ہوتا تھا۔۔
”رات میں کب آئے تھے دوست کی طرف سے ۔۔؟“انھوں نے گھونٹ بھر کر پوچھا تو شانی کے دماغ میں شارٹ سرکٹ ہوئے ۔۔اسے فوراً اس سوال کی امید نہیں تھی ۔۔اب جواب بنا پانا دوبھر ہوا تھا ۔وہ تو جوابات کی تیاری کر کے بھی نہیں آیا تھا ۔۔ورنہ ہمیشہ دادو کے سامنے حاضری پر وہ ہوم ورک کر کے جاتا تھا ۔
”جی جلدی ہی آ گیا تھا ۔۔؟“ اس نے جھوٹ بولا تھا ۔۔جو بولتے ہوئے بھی اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔
” پھر بھی کب تک؟“ دادو نے کریدا۔۔شانی کی مشکل بڑھی۔۔
”جی یہی کوئی دس گیارہ بجے شاید!“اس نے دماغ پر زور دیتے ہوئے یاد کرنے کی اداکاری کی ۔
”گیارہ بجے تک تو میں باہر لان میں ہی ٹہل رہا تھا ۔۔“انھوں نے بھنویں اچکائیں ۔۔شانی کے حلق میں کچھ اٹک گیا ۔۔
”دادو آپ بھی کمال کرتے ہیں ۔۔یہ بھی کوئی وقت ہوتا ہے ٹہلنے کا ۔۔آپ اتنی سردی میں باہر نہ ٹہلا کریں۔۔بیمار پڑ گئے تو.“شانی نے ہڑبڑا کر فکر مند ہو ان کا ہیجان بھٹکایا تھا ۔۔
”مدعے سے مت ہٹو!“ انھیں غصہ آیا ۔۔
”میں کہاں ہٹ رہا ہوں۔۔بتایا تو ہے ۔۔ہو سکتا ہے آپ کے جانے کے بعد کوئی گیارہ دس یا پندرہ منٹ اوپر ہونگیں ۔۔مگر وقت لگ بھگ یہی تھا۔۔“اس نے لفظوں میں زور بڑھایا تھا ۔۔
”کس دوست کے پاس تھے ۔ ؟“انھوں نے پھر پوچھا ۔۔
”وہ مشتاق ہے نا اس کے پاس ۔۔خیر میں چلتا ہوں ۔۔“اس نے جلدی سے بتا کر جانے کے پر تولے تھے۔۔مبادہ کوئی اور سوال نہ پوچھ لیں وہ ۔۔ورنہ جھوٹ پر جھوٹ بول کر تو اس کے جہنم کے چانسز بڑھ ہی جانے تھے۔۔اس کو کمرے سے بھاگتے دیکھ دادو اس کی پشت ناسمجھی سے تکتے رہ گئے ۔۔
•••••••••••••