ہفتے کے چھ دن گزرے تو ساتواں دن بھی سر پر پہنچا ۔آج اتوار کا دن تھا اور ہر چھٹی کے دن کی خلاف آج سویرا جلدی ہی ہو گیا تھا ۔۔رات میں نایاب کے نکاح کی رسم تھی۔۔صبح جیسے ہی چڑیوں کی چہکار نے ہوا میں گیت بکھیرے میر ولا میں چہل پہل معمول سے ہٹ کر شروع ہو گئی تھی۔۔۔ بڑی ممانی جان کچن میں گھسی ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں۔۔باقی خواتین بھی ناشتے اور رات کے فنکشن کی تیاریوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں۔۔۔بڑی ممانی جان کے ساتھ ان کی مدد کرنے کو کھانے بنانے کی شوقین نایاب ہمیشہ ہی حاضر و ناظر تھی ۔۔۔
لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی وہ آج کے دن خود کو مصروف رکھنے کے لئے سب کے ساتھ کام میں لگی ہوئی تھی ۔۔ دل تھا کہ عجیب سے بوجھ تلے دبا ہوا تھا ۔۔۔وہ خود کو اس احساس سے دور رکھنا چاہتی تھی ۔۔جس کے لئے ضروری تھا خود کو مصروف کر لیا جائے ۔۔۔اوپر سے وہ جنتی پرسکون نظر آ رہی تھی ۔اندر اتنے ہی طوفان اور خلفشار برپا تھے ۔۔
”نایاب میں تمہیں کل کہتی رہی مہندی لگوانے چلی جاؤ ۔۔مگر نہیں تم نے ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا ۔۔اب ناشتہ کرو اور جاؤ جلدی سے پارلر ۔۔مہندی لگوا کر ساتھ ہی تیار بھی ہو جانا۔۔سات بجے تک سب مہمانوں کو وقت دیا ہے ۔“شمیم ممانی نے اندر آتے ہوئے اس کے ہاتھ سے آملیٹ کا آمیزہ پکڑا اور اسے باہر بھیجا۔۔وہ یاسیت سے انھیں دیکھتی باہر نکل آئی ۔۔
گھر کی دیوار سے لٹکی گھڑی ساڑھے دس کا وقت دکھا رہی تھی۔۔۔ جب مرتضیٰ مظفر صاحب کو چائے کی طلب لاؤنچ میں کھینچ لائی تھی ۔۔وہ نہانے کے بعد تازہ دم ہو کر ٹی وی لاونج میں اپنی مخصوص آرام دہ کرسی پر آ بیٹھے تھے ۔ آج کی اخبار جھٹک کر چہرے کے سامنے کی اور نئی و پرانی خبروں پر نظر ثانی کرنے لگے۔
گھر کی جوان مخلوق میں سے نایاب ،شانی اور بلال ہی تھے جو پہلے اٹھ جایا کرتے تھے۔باقی سب تو اب بھی اپنے اپنے خواب گاہوں میں نیندوں کی وادیوں میں گم تھے۔عام دنوں میں کچن میں نایاب آتے ہی سب سے پہلے دادو کی ادرک والی چائے چڑھا دیا کرتی تھی اور آج بھی اس نے ایسا ہی کرنا تھا۔مگر آج سب خواتین نے زبردستی اسے کچن سے نکال دیا تھا ۔۔اس گھر کے کچھ اصول و معمول تھے جس کو نایاب بڑی ہی دل جمعی اور فرض سمجھ کر نبھاتی تھی ۔کوئی بھی کام کبھی بھول کے بھی نہیں بھولتی تھی۔۔ اس کا روز کا معمول تھا دادو کے آنے کے بعد وہ نہار منہ دیسی دوا پیتے تھے۔ اس کے بعد گڑھ کی ڈلی کھاتے اور پھر ادرک والی چائے پیتے اور نایاب ہر ایک کی مرضی اور منشاء کے مطابق کام کیا کرتی تھی ۔ہر ایک کا خیال رکھا کرتی تھی ۔
ایسی ہی تھی وہ اسکے اپنوں کی پسند کا خیال رکھنا نایاب کی زمےداری کم شوق زیادہ تھا۔۔ اس کی عادت تھی۔۔۔ اور اب اس کے جانے کا سوچ کر ہی ہر دل اداس اور غمگین تھا۔۔۔ پہلا فرد تھا جو میر ولا سے جانے والا تھا ۔۔
”السلام علیکم دادو !“
میر بلال جو کب سے گارڈن میں چہل قدمی کرتے اب ہال میں داخل ہو رہا تھا ۔ دادو کو سامنے اہنماک سے اخبار میں مگن دیکھا تو سعادت مندی سے اپنی جانب متوجہ کیا۔
”وعلیکم السلام ..! کیا حال ہے برخوردار؟“
انہوں نے چونک کر نظروں کو اٹھایا اور خوش دِلی سے مسکرائے ۔اپنے اس پوتے کی تربیت، خلوص ، اور فرمابرداری پر وہ دل سے خوش تھے ۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے اس کے دعا دی تھی۔ سر پر ہاتھ پھیرا۔۔ بلال نے روز مرہ کی طرح ڈھیروں دعائیں لیں۔ اور ناشتے کے ٹیبل کی طرف اُٹھتے قدم رکے ۔کچن کی دہلیز پار کرتی نایاب کو دیکھا تو اسی طرف چلا آیا۔۔
”گڈ مارننگ“وہ سادگی سے محض مسکرایا اور ٹرے میں رکھا چائے کا مگ اٹھا لیا۔۔وہ اپنے لئے چائے لے جا رہی تھی۔۔اس کے کپ اٹھانے پر خفگی سے گھورا ۔
”تم نے ممانی جان سے اس دن بہت روڈلی بےہیو کیا تھا ۔۔یہ کتنا غلط تھا ۔“ نایاب نے دھیرے سے اسے سرزنش کی تھی۔۔
وہ کپ لبوں سے لگاتے ہوئے بے فکری کا تاثر دے کندھے اچکا جیسے اس کی بات نظر انداز کر گیا ۔۔نایاب کو برا لگا ۔۔
”لو اب ۔۔جواب بھی نہیں دیتے.“ وہ ناراضی سے کہہ کر وہاں سے جانے لگی تھی ۔۔
”تو کیا کرتا ۔وہ کتنی غلط حرکت کر رہی تھیں۔۔ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے جانتے بوجھتے ہوئے ۔۔“بلال کو اس کا ناراض ہو کر جانا دل گرفتہ کر گیا ۔۔اور ایسی ہی دل گرفتگی اس وقت نایاب کے چہرے کا بھی حصہ تھی ۔۔
”انھیں اتنی تفصیلات کا علم نہیں تھا اور پھر انھوں نے فوراً معزرت بھی تو کر لی تھی نا.“ نایاب نے ان کا دفاع کیا۔۔۔شمیم ممانی نے اس کے بعد بلال کو نہیں چھیڑا تھا ۔ نہ ہی اس سے بات کر رہی تھیں ۔۔وہ خفا تھیں اس سے ۔۔
”ہاں تو پہلے ساری تفصیلات لینی چاہیے تھی نا۔۔کیوں کی یہ بے وقوفی کہ بعد میں معزرت کرنی پڑی ۔۔“وہ سراسر سارا قصور ہنوز ان ہی کے خاتے میں ڈالے جا رہا تھا ۔۔
”تو تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھا ان سے ایسے بات کرنا ۔۔بڑوں کا معاملہ تھا تمہیں درمیان میں بولنا ہی نہیں چاہئیے تھا۔۔اور آنٹی بھی تو کوئی بےعقل خاتون نہیں تھیں کہ ان کے کہنے پر فوراً سے کنول کا نکاح کر دیتیں۔۔کچھ سوچ سمجھ لیتے تم بھی۔۔“وہ تادیب سے سمجھا رہی تھی ۔۔
اس ہی مختصر سی گفتگو کے دوران اچانک دونوں نے باہر پورچ سے اندر کی طرف قدم اٹھاتے آتے شانی کو دیکھا ۔ اس کے ہاتھوں میں کچھ سمجھ نا آنے والی چیزیں دبی تھیں۔ جنہیں قدرے سنبھالتے اور سب کی نظر سے بچاتے ہوئے لے جا رہا تھا ۔۔اس کے ہاتھوں میں مقید وہ سیاہ شاہر میں جو تھا ۔۔سمجھ نہ آیا۔۔۔دونوں کی آنکھوں میں تشویش لہرائی نایاب نے فکر مندی مگر آنکھ کے اشارے سے بلال سے جاننے کی کوشش کی۔۔۔ پر اس کی جانب سے بھی لا علمی کا اظہار ہوا تھا۔۔۔بلال نے چائے کا سپ بھرتے ہوئے کندھے اچکا دیئے تھے ۔۔
”یہ کچرے کے سیاہ شاپر میں کیا لے گیا ہے اوپر۔۔وہ بھی صبح صبح ۔۔“نایاب نے لب کچلتے ہوئے سوچا تو زوار کی باتوں نے ذہن میں گردش کی تھی ۔۔وہ کہیں ٹھیک ہی تو نہیں کہہ رہا تھا ۔۔ضرور کچھ مسئلہ ہے شانی کے ساتھ ۔
اس نے سوچتے ہوئے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور یونہی الجھی ہوئی اپنے کمرے کا رخ کر گئی تھی ۔۔
•••••••••••••••