”تم۔۔۔؟“شانی کا قدم جیسے ہی ہال میں پڑا تو سامنے کا منظر اس کے اوسان خطا کر گیا تھا ۔۔
اس کے منہ سے نکلی چینخ میں بے یقینی اور صدمے کی کیفیت تھی جبکہ چہرے پر خوشی اور مسرت کا تاثر جھلکا تھا۔۔۔
پیچھے گاڑی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد اندر آیا زوار بھی اس منظر کو دیکھ سن رہ گیا تھا ۔۔۔
نایاب اور ذکاء کے علاؤہ باقی سب میر ولا کے مکین دادو سمیت اس وقت ہال میں بیٹھے ہوئے تھے اور ساتھ ہی ان کے درمیان وہ نیا وجود بھی تھا۔۔جسے کل ہی اس مائنر سے ایکسڈنٹ کے بعد اٹھا کر میر ولا لایا گیا تھا ۔۔۔اور وہ وجود فاریہ کا تھا۔۔ شانی کو دیکھ کر وہ بھی آنکھیں میچ گئی تھی ۔۔شانی کے تاثرات بالکل ویسے ہی ہونق تھے ۔۔جیسے اس نے سوچ رکھے تھے۔۔۔وہ وہاں سے نکلی تھی واپس کبھی نہ آنے کے لئے اور انجانے میں وہیں آ گئی تھی۔۔اس کے ہوش میں آنے کے بعد اندھیروں سے رشتہ بنا آئی آنکھوں کے سامنے سب سے پہلے جو چہرہ آیا تھا ۔۔وہ دادو کا تھا۔جنہیں دیکھتے ہی وہ گنگ رہ گئی تھی۔۔۔اور اس کے یکے دیگرے بعد جو میر ولا کے چہرے اسکے سامنے آتے گئے تو شک کی کوئی گنجائش نہ بچی تھی کہ وہ کہاں واپس آ چکی ہے۔۔۔۔انھیں اپنے گرد مجمع کی صورت فکر مندی سے کھڑے دیکھ وہ کچھ بول تک نہ پائی ۔۔لیکن میر ولا کے اخلاق پسند لوگوں کی دیکھ بھال اور خیال نے اسے کچھ بولنے کی ہمت دلائی تھی۔۔۔ سب نے اس سے چند مختصر سوال پوچھے تھے جن کا جواب وہ آسانی سے دے پائی تھی۔۔اس میں شانی یا اس سے ہوئے حادثاتی نکاح کا کوئی قصہ شامل نہیں تھا۔۔اور فاریہ کو یہی ٹھیک لگا تھا۔۔اسے اس بات کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔وہ چاہتی تھی ان کے ساتھ ان کے احسانات کے بدلے کچھ اچھا وقت گزر کر وہ نکل جائے وہاں سے اور پھر کبھی وہاں نہ آئے۔۔وہ شانی کے یا ذکاء کے لئے اب کوئی مشکل نہیں کھڑی کرنا چاہتی تھی۔۔۔ اور وہ نکل بھی جاتی لیکن یہ شانی۔۔۔۔۔! فاریہ نے اعصاب ڈھیلے چھوڑ کر اس شخص کو دیکھا جو ہال کے وسط میں سکتے کی حالت میں کھڑا اس کے ارادے پر پانی پھیر چکا تھا ۔۔
”کہاں چلی گئی تھی تم۔۔۔؟ کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا میں نے تمہیں ۔۔۔اس طرح بھلا کوئی چھوڑ کر جاتا ہے ۔۔میں کتنا پریشان ہو گیا تھا ۔۔تمہیں ذرا بھی اندازہ ہے۔۔“وہ ہال میں موجود ہر فرد کو بھول کر فکر اور کچھ شکوے سے اس کی سمت لپکا تھا اور اسے کندھوں سے جھنجھوڑ کر سوال کر رہا تھا ۔۔۔پورا میر ولا ہکا بکا کھڑا اچنبھے کی حالت میں شانی کو اس لڑکی سے بے تکلفی سے بات کرتے دیکھ رہا تھا۔۔۔دادو کے چہرے پر بھی حیرت اور پیشانی پر بل نمودار ہوئے تھے ۔۔۔تینوں ماموں تعجب سے معاملہ کی نوعیت کی سمجھنے کی کوشش میں سرگرداں تھے ۔۔جبکہ زوار نے گہری آہ بھری تھی۔۔
”اب تو بھانڈا پھوٹا.“اس نے تاسف سے شانی کی پشت دیکھی ۔۔وہ ہنوز فاریہ کو جھنجھوڑتے ہوئے فکر ؤ اندیشوں سے بھرا سوال پر سوال کرتا آپے سے باہر ہو رہا تھا ۔۔اس کے سامنے وہ لڑکی کھڑی تھی جس کی یاد نے چوبیس گھنٹوں کے وقفے میں ہی اسے نچوڑ کر رکھ دیا تھا ۔۔وہ اس کی آنکھوں کے سامنے کسی معجزے کی طرح پیش کر دی گئی تھی اور اسے کچھ نہیں دیکھنا تھا۔۔۔پچھلے کچھ ہی وقت میں اس پر بڑے دل دہلا دینے والے انکشاف کھلے تھے۔۔۔جن میں سب سے جانلیوا محبت کا افشا ہونا تھا۔۔وہ اتنے دنوں سے اس کے ساتھ تھی اور شانی کو پتا نہیں چل سکا تھا ۔۔اور کچھ دیر کی دوری نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا ۔۔
”اب بولو بھی چپ کیوں ہو ۔۔ میری اجازت کے بغیر تم نے گھر سے قدم باہر کیسے نکال فاریہ ۔۔تم نے میرے ساتھ ایسا کیسے کر دیا۔۔ تم بہت بری ہو۔۔“وہ روہانسا ہو کر شکوے شکایت کر رہا تھا ۔۔فاریہ نے بے حواسی سے اسے دیکھتے ہوئے اپنے ارد گرد خوفزدہ ہو کر دیکھا۔۔ اس کے اطراف میں کھڑا ہر وجود الجھا کھڑا یہ ماجرا ملاحظہ کر رہا تھا ۔۔پھر ایک دم اقراء ممانی سب کے بیچ اپنے بیٹے کے پاگل پن پر کچھ شرمندہ ہو کر غصے میں آتی اس کے پاس چلی آئیں ۔۔
”شانی پیچھے ہٹو ! یہ کیا پاگل پن ہے۔۔کیوں تم اس بچی کو پریشان کر رہے ہو۔۔؟“انھوں نے برافروختگی سے دانت پیس کر خشونت سے بیٹے کو گھور پیچھے دھکیلا تھا ۔۔
”ماما میں نے اس بچی کو پریشان کر دیا یا اس نے مجھے پریشان کیا ہے۔۔“شانی جھلایا ۔۔
”کیا مطلب ہے شانی۔۔تم جانتے ہو اسے ۔۔یہ کون ہے؟“اقراء ممانی کا بس نہ چلا بیٹے کے سر پر سوار یہ نافہم بھوت اتار پھینکے۔۔جس نے لمحوں میں ہر ایک کو پریشان ؤ حیران کر چھوڑا تھا ۔
”ماما آپ جانتی ہیں یہ کون ہے ؟؟؟“شانی نے سنجیدگی سے لب بھینچ کر پوچھ کیا۔۔
”نہیں۔۔کون ہے؟“انھیں شانی کا عجیب سوال کھٹکا تھا ۔۔شش و پنج میں پڑ کر برملا سوال کیا۔
”یہ آپ کی بہو ہے۔۔یعنی کہ میری بیوی ۔۔“
شانی نے بہت مستحکم انداز میں آرام سے آج پورے میر ولا کے سامنے اس بات کا اعتراف کر سب کے سروں پر گھر کا ملبہ گرا دیا تھا ۔۔بڑا ہی زور دار جھٹکا لگا تھا جس نے سب کے وجود ہلا کر رکھ دیئے تھے۔۔۔انھوں نے انگشت بدنداں ہو کر شانی کے منہ سے نکلے الفاظ سنے تھے۔۔اقراء ممانی کے قدموں سے تو زمین ہی نکل گئی تھی ۔۔باقی خاتون خانہ کے دل ؤ منہ پر ہاتھ پڑے تھے۔
”یہ کیا بکواس کر رہے ہو شانی ۔۔ہوش میں ہو تم..؟“بڑے ماموں یک دم غصے سے بھنا کر دھاڑے تھے۔۔ان کی دھاڑ پر فاریہ دہل گئی تھی۔۔دادو کو گھبرا کر دیکھا ۔۔وہ ایک دم چپ لب سیئے کھڑے انھیں ہی تک رہے تھے ۔۔فاریہ کے حوصلے پست ہوئے ۔۔اچانک ہی ہال کی فضا سنگین ہو گئی تھی ۔۔۔
”ابھی ہی تو ہوش میں آیا ہوں پاپا… اور اب مُجھے کوئی ڈر نہیں ہے سب کے سامنے یہ تسلیم کرنے میں کہ یہ لڑکی جو اس وقت اس گھر میں موجود ہے ۔۔آپ کے سامنے کھڑی ہے ۔۔وہ اس گھر کی بہو اور میری بیوی ہے۔۔۔“اس کی بات نے ان پر زلزلے گرا دیئے تھے۔۔۔دادو لڑکھڑا کر صوفے پر گر پڑے تھے ۔۔زوار اور بلال نے دوڑ کر ان تک پہنچ انھیں سہار کر صوفے پر بٹھا دیا تھا ۔۔مہر بھاگ کر ان کے لئے پانی ڈال لائی تھی۔۔۔وہ اس قدر صدمے میں تھے کہ ان کے حلق سے آواز تک نہ نکلی۔۔پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ میر خاندان میں کسی نے چھپ کر شادی کر رکھی تھی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی تھی۔۔۔دادو کو اپنے سب پوتوں پر مان تھا۔۔۔شانی اگرچہ ان کی کوئی بات مانتا نہیں تھا مگر وہ ان کا بے حد پیارا پوتا تھا۔جس نے ان کے دل کو آج پھر ٹھیس پہنچائی تھی۔۔۔اتنا دکھ تو انھیں تب بھی نہیں ہوا تھا جب اس نے ملٹری جوئن کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔۔فاریہ نے نظریں اٹھا کر شانی کو دیکھا ۔۔وہ سب کے بیچ کھڑا مضبوط لہجے میں آج فاریہ کو دل و جاں سے اپنا مان چکا تھا۔۔فاریہ کے دل میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی تھی ۔۔وہ کہیں نہ کہیں یہی تو چاہتی تھی ۔۔شانی اسے یہ مان دلا دے اور اس نے دلا دیا تھا آج ۔۔۔فاریہ کی آنکھیں لمحوں میں بھرا گئیں ۔۔اتنے سال اکیلے پن میں گزار کر آج پہلی بار کوئی ایسا نکلا تھا جس نے اسے دیارِ غیر میں اپنایا تھا۔۔اور دل سے اپنایا تھا ۔۔
”شانی یہ تم ؟؟“اقراء ممانی جملہ مکمل نہ کر پائی تھیں ۔۔شانی اڑیل لڑکا تھا۔۔وہ بچپن سے اپنی بات منواتا آ رہا تھا ۔۔وہ کسی کی مرضی پر نہیں چلتا تھا ۔۔مگر اقراء ممانی کو یہ امید بالکل نہیں تھی کہ ایک دن وہ یہ دن دکھائے گا انھیں ۔۔وہ کیسے خود ہی چھپ کے کسی لڑکی سے شادی کر سکتا تھا ۔۔ان کا دل بری طرح مسمار ہوا تھا ۔۔زرناب پھپھو اور منجھلی ممانی نے انھیں تھام کر سنبھالا تھا ۔۔
”ہاں ماما۔۔میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں ۔۔یہ لڑکی میرے نکاح میں ہے ۔۔ میں یہ سب آپ سب کو بتانا چاہتا تھا ۔۔مگر بتا نہیں پایا کبھی ۔مجھے ڈر تھا۔۔مگر اب کوئی ڈر نہیں ہے ۔۔میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔۔۔ ایک مظلوم اور بے سہارا لڑکی سے نکاح کر کے شریعت کو ذندہ کیا ہے۔۔ اور مجھے خوشی ہے اللہ نے مُجھے اس کام کے لئے چنا ۔۔“شانی نے طائرانہ نظر دوڑاتے ہوئے سب کو تخاطب بنایا تھا ۔۔سب خاموشی سے اسے سن رہے تھے ۔۔ذکاء بھی اب سیڑھیوں اتر کر آتا ان کے درمیان کھڑا ہو گیا تھا ۔۔وہ بخار کی سرخی چہرے پر چھائے ہونے کے باوجود تیار ہو کر سائٹ پر جانے کے لئے نیچے اترا تھا ۔۔مگر یہاں لگی عدالت پر ششدر سا وہیں رک چکا تھا۔۔
”بیٹا یہ سب کیسے ہوا اور کیوں کیا تم نے۔۔کیا مجبوری تھی تمہاری چوری چھپے نکاح کرنے کی؟“فائقہ ممانی بردباری سے چل کر شانی کے پاس آئی تھیں ۔۔
”دراصل چچی اس دن ہوا یہ تھا کہ…“اور پھر شانی نے ہر ایک بات کھلے عام سب کو تفصیل سے بیان کی تھی۔۔۔ جسے سنتے ہوئے سب کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے تھے ۔۔اس نے کچھ نہیں چھپایا تھا ۔۔یہ بھی نہیں کہ وہ کس الزام میں تھانے گیا تھا اور اس کے بعد کیا کچھ ہوا اور کیسے اسے فاریہ سے نکاح کرنا پڑا تھا۔۔ذکاء کے دل کو تسلی ہوئی تھی ۔۔اسے اچھا لگا تھا بالآخر شانی نے سب کے سامنے فاریہ اور اپنا تعلق واضح کر دیا ہے۔۔۔اس کے چہرے پر آسودگی بھری مسکان اتری تھی۔۔سب کچھ واضح کر دینے کے بعد شانی نے مڑ کر دادو کو دیکھا تھا ۔۔وہ سر جھکائے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔ان کے ایک طرف زوار تو دوسری طرف بلال کھڑا تھا۔۔فاریہ کو ان کے لئے بہت برا لگ رہا تھا ۔۔اس کا دل بھرا گیا ۔۔شانی چل کر ان تک گیا اور ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر فرش پر سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔دادو نے نظر نہیں اٹھائی تھی۔۔شانی نے غمزدہ ہو کر ان کا جھریوں زدہ ہاتھ اپنے ہاتھوں سے لیا۔۔
”دادو۔۔! مجھے معاف کر دیں۔۔میں نے سب سے یہ بات چھپا کر سب کو دھوکے میں رکھا۔۔مگر میں خوف میں تھا ۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا مجھے اس سب کو کیسے سنبھالنا ہے۔۔مجھے ذکاء اور زوار نے کہا تھا کہ میں آپ کو اعتماد میں لے کر سب سچ بتا دوں۔۔مگر مجھ سے یہ نہیں ہو پا رہا تھا ۔۔اور پھر اتنا سب کچھ بگڑ گیا کہ سنبھل نہیں پایا مجھ سے ۔۔۔ کاش میں اسی دن فاریہ کو لاکر آپ کے سامنے کھڑا کر کے سب کچھ بتا دیتا تو آج یہ دن کسی کو نہیں دیکھنا پڑتا۔۔نہ ذکاء اور نایاب کے درمیان یہ بدگمانی آتی ۔۔دادو ذکاء بے قصور ہے ۔۔نایاب کو بہت بڑی غلط فہمی ہو گئی تھی ۔۔اس دن نایاب نے جس لڑکی کو ذکاء کے ساتھ دیکھا تھا وہ یہی لڑکی تھی۔۔فاریہ! اس گھر کی بہو ۔۔لیکن نایاب یہ نہیں دیکھ پائی تھی کہ اس دن ذکاء اور فاریہ کے ساتھ میں بھی تھا۔۔۔میں ذکاء کی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا دادو۔۔۔ نایاب سے یہی پر غلطی ہو گئی کہ اس نے مجھے نہیں دیکھا اور بے بنیاد شک کی وجہ سے بنا تفتیش اس نے پورے گھر میں ہنگامہ کھڑا کردیا ۔۔۔یہاں بلا شبہ نایاب ہی غلط تھی ۔۔ جس کا منفی اثر ان کے تعلق پر پڑا۔۔۔لیکن اس سے بھی زیادہ اور سب سے پہلا قصور میرا نکلتا ہے۔۔اگر میں وقت پر فاریہ کا تعارف اس گھر میں اپنی شریکِ حیات کی حیثیت سے کرا چکا ہوتا تو یہ بد گمانی سرے سے آتی ہی نہیں ان کے تعلقات میں ۔۔۔میں ہر جگہ غلط تھا ۔۔غلط کرتا آ رہا تھا ۔۔اور شاید اب بھی میں نے غلط وقت پر اس راز کو کھولا ہے۔۔مگر یہ بوجھ میں اب اور زیادہ اپنے کندھوں پر لے کر نہیں جی سکتا تھا ۔ذکاء نے شروع دن سے مجھے کہا تھا میں کم از کم آپ کو یہ بات بتا دوں مگر یہ میرا خوف تھا جس نے مجھے وقت پر کوئی صحیح فیصلہ نہیں کرنے دیا۔۔“وہ ندامت سے اپنی غلطیوں کا ازالہ کر رہا تھا ۔۔دادو نے ایک نظر اٹھا کر شانی کے بجائے ساتھ کھڑے زوار کو دیکھا تھا ۔
”تو تم یہ بات جانتے تھے زوی اور تم نے بھی مجھے خبر نہیں کی۔۔“ان کے تیز تاثرات پر زوار کا حلق خشک ہو گیا ۔۔
”نہیں دادو۔۔قسم سے مجھے تو ابھی کچھ دن پہلے ہی یہ بات پتا چلی تھی لیکن ذکی بھائی کو تو شروع سے علم تھا ۔۔ان کا نکاح بھی تو انہوں نے ہی کروایا تھا ۔۔“زوار نے بوکھلاتے ہوئے اپنا دفاع کر سارا ملبہ پیچھے کھڑے ذکاء پر ڈال دیا تھا ۔۔مطمئن سے کھڑے ذکاء کا اطمینان لمحوں میں عنقاء ہوا۔۔دانت پیس کر زوار کو دیکھ اس نے دادو کی ملامتی نظروں سے خائف ہو چہرے پر ہاتھ رکھ منہ چھپا لیا تھا۔۔۔دادو کی شکوے سے بھری نگاہیں اسی پر مرکوز رہیں ۔۔
”دادو۔۔مجھے لگا تھا شان خود ہی آپ کو موقع دیکھ کر بتا دے گا ۔۔اسی لئے کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔“اب کچھ تو اپنی وضاحت میں کہنا ہی تھا ۔۔اس نے جھجکتے ہوئے صفائی دی تھی۔۔دادو نے خفگی سے رخ موڑ لیا۔۔ان کے تینوں پوتوں نے زندگی میں پہلی بار انھیں اتنی بڑی بات سے انجان رکھ کر مایوس کیا تھا ۔۔شانی نے ان کی خفگی کو دل سے محسوس کیا۔۔
”پلیززز دادو مجھے معاف کر دیں۔۔۔اور مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے فاریہ کو میر ولا کی بہو قبول کر لیں۔۔اس کا کوئی نہیں ہے اس دنیا میں سوائے میرے۔۔ “شانی نے ملتجیانہ آواز میں انھیں پکارا تھا۔۔
”کون کہتا ہے کوئی نہیں ہے فاریہ کا۔۔میں ابھی زندہ ہوں۔۔!“دادو نے ایک دم سخت لہجے میں شانی کو ٹوک دیا تھا ۔۔فاریہ نے ٹھٹک کر انھیں دیکھا۔۔۔
”تم سب کی طرح اب وہ بھی میرے بچوں کی طرح ہے اور اس گھر کا اہم حصہ بھی۔۔۔مجھے اس بچی سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ہاں لیکن تم سے ضرور ہے۔۔“وہ بولے تو شانی کے ساتھ فاریہ کے چہرے پر بھی خوشی کی لہر اٹھی تھی ۔۔شانی نے بے یقینی کے عالم میں چہرہ موڑ فاریہ کو دیکھا تھا۔۔۔اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوں جھلملا رہے تھے۔۔دادو نے سب کو حیران کر دیا تھا۔۔۔یہاں تک کہ بڑے ماموں اور ممانی کو بھی۔۔جن کو بیٹھے بٹھائے دوسری بہو مل گئی تھی۔۔۔بڑے بیٹے ذمان اور زیبی کی رخصتی کے متعلق وہ سوچ رہی تھیں اور ساتھ ہی اب چھوٹے بیٹے شانی اور فاریہ کا معاملہ بھی چل پڑا تھا ۔۔انھیں سمجھ نہ آیا وہ کیا ردعمل ظاہر کریں۔۔۔
”آج سے فاریہ یہی رہے گی ہم سب کے ساتھ اس گھر کی بہو بن کر۔۔اور میں چاہتا ہوں اس خوشی کو ہم سب مل کر منائیں ۔۔اور جلد از جلد ولیمے کی شاندار سی تقریب رکھ کر ذمان اور شانی کو ایک ساتھ ہی نپٹا لیں۔۔۔تاکہ ذیبی کے ساتھ سب کے سامنے فاریہ کو بھی میر ولا کی بہو کی حیثیت دی جا سکے۔۔۔۔بیٹا شاہ میر !
انھوں نے اعلان کرتے ہوئے بڑے بیٹے کو پکارا تھا ۔
”جی بابا!“وہ تابعداری سے پاس چلے آئے ۔۔
”تیاریاں شروع کر دو۔۔اگلے ایک ہفتے کے اندر تقریب ہو جانی چاہیے ۔۔“انھوں نے مسکراتے ہوئے حکم صادر کیا تھا اور ان کی حکم عدولی کرنے کی جرات آج تک کسی بہو بیٹے کی نہیں ہو سکی تھی۔۔۔وہ جو کہہ دیتے تھے وہ پتھر پر لکیر ہو جایا کرتا تھا ۔۔
”جیسا آپ ٹھیک سمجھیں بابا!“انھوں نے سر خم کر دیا تھا ۔۔
”اقراء بہو کوئی اعتراض تو نہیں؟“انھوں نے سنجیدگی سے ٹھہرے ہوئے انداز میں ان کو دیکھا تھا۔۔
”آج تک بھلا کب اعتراض کیا ہے بابا۔۔آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر!“انھوں نے ہمیشہ کی طرح ہی تابعدار بہو ہونے کا ثبوت دیا تھا ۔۔مگر ایک خفا نظر شانی پر ضرور ڈالی تھی۔۔انھیں بس بیٹے پر غصہ تھا ۔۔جس نے ماں کو بھی انجان رکھا تھا ۔۔ فاریہ کے لئے تو وہ دل گداز کر چکی تھیں ۔۔
”تھینک یو دادو!“شانی ایک دم ان کے بغل گیر ہو کر انھیں بھینچ گیا ۔۔۔سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئیں ۔۔
”ارے میری بوڑھی ہڈیوں پر رحم کھاؤ!“وہ اسے ڈپٹ کر پیچھے دھکیل کر ہنسے تھے۔۔وہ خجل ہو کر سر کی پشت پر ہاتھ پھیر گیا ۔۔اقراء ممانی نے فاریہ کو مسکراتے ہوئے گلے سے لگا لیا تھا ۔۔بڑے ماموں نے سر پر ہاتھ پھیرا تھا ۔۔زوار اور بلال کی چھیڑتی نظروں کا تاثر شانی پر بندھ گیا تھا ۔۔
”لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے ۔۔“انھوں نے جتانا لازمی سمجھا ۔۔وہ بے اختیار ہنس پڑا ۔۔
”ناراض رہنے پر آپ حق بجانب ہیں دادو! میں کوشش کروں گا اس ناراضگی کو جلد از جلد ختم کر سکوں۔۔“اس نے فیاضی سے ان کا شکوہ قبولا تھا۔۔
دادو اٹھ کر جانے لگے تھے پھر کچھ سوچ کر شمیم ممانی کی سمت دیکھا ۔۔
”شمیم بہو آپ کل تیار رہیئے گا!“ان کی بات پر وہ چونکیں ۔۔
”کس لیئے بابا؟“انھوں نے ناسمجھی سے پوچھا ۔۔
”ہمیں کل کنول کا ہاتھ مانگنے جانا ہے ۔۔بلال کے لئے!“الفاظ تھے یا صور جو دادو نے اچانک ان کے کانوں میں پھونک دیا تھا ۔۔انھوں نے ششدر نظروں سے پہلے انھیں اور پھر بلال کو دیکھا تھا۔۔وہ دادو کے اچانک سنائے فیصلے پر ٹھیک سے خوش بھی نہ ہو پایا تھا کہ ماں کی نظروں کی تاب نہ لاتے سر جھکانا پڑ گیا تھا ۔۔ان کی نظریں ورطہ حیرت کا شکار ہو بیٹے پر جم گئی تھیں۔۔۔انھیں بالکل امید نہیں تھی کہ بلال اپنا مقدمہ لے جا کر دادو کی عدالت میں رکھ آئے گا۔۔۔اور پھر دادو کی عدالت میں ہوئے فیصلے پر تو انکار ممنوع تھا ۔۔۔
وہ کوئی اعتراض زبان پر نہ لا سکیں ۔۔
”میں نے ان سے کل بات کر لی تھی۔۔۔مگر کنول کی ماں چاہتی ہے اگر تم خود جا کر اس سے کنول کا ہاتھ مانگو گی تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔اور میں فیصلہ کر چکا ہوں ۔۔کنول ہی بلال کی بیوی بن کر میر ولا آئے گی ۔۔ذمان اور شانی کے ساتھ ان کا بھی نکاح کرنے کا ارادہ ہے میرا ۔۔کوئی اعتراض ہے تو ابھی بتا دو؟“انھوں نے تنے ہوئے مگر تحمل بھرے تاثرات سے ان کے سامنے بات رکھی تھی۔۔
”نہیں بابا کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔مگر کنول کی پہلے ایک طلاق ۔۔۔۔“وہ فرمانبرداری سے کہنے لگی تھیں کہ شاہ زیب ماموں نے آنکھیں نکالی تھیں۔۔وہ کیسے دادو کے سامنے اعتراض اٹھا سکتی تھیں ۔۔۔شوہر کی گھوریاں دیکھ ان کی بات ادھوری چھوٹ گئی ۔۔دادو نے بھی بیٹے کی گھوریاں دیکھ لی تھیں ۔۔مگر وہ چھوٹی بہو کو نرمی سے سمجھانا چاہتے تھے ۔۔ان پر اپنا فیصلہ تھوپنا نہیں ۔۔جو رشتے دل سے قبولے جائیں وہیں پائدار رہ سکتے ہیں ۔۔
”اپنے دل کو دوسروں کی بچیوں کے لئے وسیع کر لو شمیم ۔۔! تمہاری بھی بچی ہے اللہ اس کے نصیب بلند کرے مگر ڈرو کسی کی بچیوں پر بات کرنے سے ۔۔اللہ بہت بے نیاز ہے ۔۔پناہ مانگا کرو! طلاق یافتہ عورتوں کو گھر کی عزت بنانا، اس کی کفالت کی ذمےداری اٹھانا ہمارے نبی کریم کی نظروں میں افضل ترین کاموں میں شامل رہا ہے ۔۔طلاق یافتہ لڑکی کے نکاح میں رکاوٹ بننا زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا اور آج تک ہوتا آ رہا ہے ۔اب تو نکل آؤ اس زمانے کے بنائے دقیانوسی رسم و روایت سے۔۔۔۔ہمارے قرآن میں اس بات کی ممانعت کی گئی ہے۔۔اور یہ مرد پر بڑی خصوصی نعمت ہوتی ہے جسے اللہ کسی مطلقہ عورت کے لیے چن لیتا ہے۔۔بہت بہترین اور اعلیٰ عمل ہے یہ اللّہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قریب۔۔ اس لیئے شکر ادا کرو اس کام کے لئے اللہ نے تمہارا گھر چنا ہے،تمہارا بیٹا چنا ہے ۔۔ اپنا دل اس بچی کے لئے صاف کر لو اور فراخ دلی سے اسے بلال کے لئے قبول کرو۔۔۔ میں امید کرتا ہوں تم مجھے ہمیشہ کی طرح ہی مایوس نہیں کرو گی۔۔اور کل خوشدلی سے چلو گی اپنے بیٹے کے لئے اس بچی کا ہاتھ مانگنے ۔۔۔“دادو نے بڑے ہی سبھاؤ اور رسانیت سے انھیں سمجھایا تھا کہ وہ دانت سے دانت بھی نہ اٹھا پائیں ۔۔مہر کو دیکھ کر ان کا دل کانپ اٹھا تھا۔۔۔اپنے رویے پر انھیں عبرت سے پہلے فلاح مل گئی تھی۔۔اور اسی لمحے انھوں نے کنول کے لئے دل میں چھپی سارے کدورت مٹا دی تھی ۔۔وہ اللّہ سے ڈر گئی تھیں ۔۔انھیں رستگاری مل گئی تھی۔۔۔اور اب بات کا گواہ ان کے کانپتے ہاتھ اور جھکا سر تھا۔۔بلال نے دادو کو دیکھ کر ماں کو نم آنکھوں سے دیکھا تھا ۔۔اس کے اندر جو اندیشے پنپ رہے تھے اب کہیں جا کر انھوں نے سکون پایا تھا ۔۔۔دادو وہاں سے چلے گئے تھے۔۔پیچھے موجود ہر دل کے ساتھ تسکین لپٹ گئی تھی۔۔گھروں میں بزرگوار کا ہونا بھی بڑی نعمت ہوتی ہے ۔۔
•••••••••••••
جاری ہے
Ye Manzil Asaan Nahin by Kainat Riyaz Last Episode Part 1
