“ میٹھا پکائی کی رسم۔ یعنی نئی دلہنوں کو کچن وغیرہ کی ذمہ داری سونپنے سے پہلے ان سے کوئی میٹھا پکوایا جاتا ہے۔” اس نے تفصیل سے آگاہ کیا۔
“ہمم۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ ایک فضول سی رسم کے سوا کچھ نہیں۔ اور دوسری بات کہ ایسے کھڑاک وہاں پالے جاتے ہیں جن کے لمبے چوڑے سسرالی رشتے موجود ہوں۔ خیر سے تمہیں نہ تو ساس سسر کی جھنجھٹ ہے اور نہ ہی دیورانی جیٹھانی والے مسئلے ہیں۔ رہی بات میٹھے میں ہاتھ ڈالنے کی تو یہ لو۔ ہوگئی تمہاری بھی رسم۔ اب تو کوئی مسئلہ نہیں نا۔” ابراہیم نے کہتے ساتھ ہی اس کا ہاتھ پکڑا اور میز پر موجود شکردان میں ڈال دیا۔
اس کے بعد وہ کرسی دھکیل کر اٹھا اور اسے چائے بنانے کا کہہ کر اپنےکمرے میں چلا گیا۔ پیچھے زینب دم سادھے بیٹھی رہ گئی۔ کتنے لمحے بےیقینی میں گزر گئے کہ آیا ابراہیم نے جو حرکت اس کے ساتھ کی ہے۔ وہ سچ ہے یا مخض ایک خواب؟ کیا ایسی ہوتی ہیں شادیاں؟
آج تیسرا دن تھا اور ابراہیم نے اسے کوئی بھی بات کرنے کا بالکل موقع نہیں دیا تھا۔ اپنی تمام پسند ناپسند کے بارے میں آگاہ کرکے زینب کے بارے میں کسی ایک بات کو جاننا بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔
پتا نہیں وہ کون سی لڑکیاں ہوتی ہیں جن کے سُسرال میں نخرے اٹھائے جاتے ہیں۔ خیر اس کے سُسرال میں ہے ہی کون سوائے ایک عدد شوہر کے۔ ابھی تو اس کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں اتری تھی کہ اسے باورچی خانے کا راستہ دکھادیا گیا تھا۔ اسے کھانا بنانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بلکہ اسے شروع سے ہی نت نئے پکوان پکانے کا بہت شوق تھا۔
اور ویسے بھی “مرد کے دل کا راستہ اس کے معدے سے ہوکر جاتا ہے۔” تمام منفی سوچوں کو جھٹک کر اس نے بھی اپنے دل کو تسلی دی اور چائے بنانے کیلئے باورچی خانے کا رخ کیا تاکہ اچھی سی چائے بناکر وہ ابراہیم سے داد وصول کرسکے۔
ابراہیم کے چائے پینے تک وہ تعریف کے دو بولوں کیلئے منتظر ہی رہی مگر اس نے کہا تو فقط اتنا کہ ” آئندہ چینی کم اور پتی تھوڑی زیادہ ڈالنا۔” اور وہ صرف دل مسوس کر رہ گئی۔
جاری ہے