ڈرائنگ روم میں صوفے پر ٹانگیں پھیلائے وہ اپنے اردگرد سے بےبہرہ کوئی رسالہ پڑھ رہی تھی۔ اور دوپٹہ لاپرواہی سے شانے پہ جھول رہا تھا۔ جبکہ اس کی قمیض کا کندھا ایک طرف سے سرک کر اس کے کندھے کو عیاں کررہا تھا۔ اس وقت کرنے کو کوئی بھی خاص کام نہیں تھا۔ اور ابراہیم بھی گھر پر نہیں تھا۔ تو وہ مزے سے اپنے کام میں مصروف تھی۔ ورنہ ابراہیم کی موجودگی میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک منٹ کیلئے بھی کچھ اور کرسکے۔
اسی اثناء میں ابراہیم اپنے کسی کولیگ کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔ جانے اس کے ذہن میں کیا سمائی کہ کولیگ کو دروازے میں روک کر وہ پہلے ڈرائنگ روم کی جانب گیا۔ اور سامنے نظر پڑنے پر اشتعال کی ایک لہر نے اس کے سارے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جبکہ وہ اس کے آمد سے بےخبر ہنوز اپنے مشغلے میں مگن تھی۔
ابراہیم کے گلا کھنکارنے پر وہ بوکھلاکر کھڑی ہوئی۔ اور رسالہ بھی ہاتھ سے چھوٹ کر قالین پر جاگرا۔
“یہ کون سا طریقہ ہے بیٹھنے کا؟ ساری تمیز و تہذیب کیا اپنے ماں باپ کے گھر پر چھوڑ آئی تھی تم؟” وہ دبے دبے لہجے میں غرایا۔ جبکہ زینب کے اوسان خطا ہوگئے۔
“اور تمہارا دوپٹہ کہاں ہے؟” اب کے اس کا دھیان دوپٹے کی جانب گیا جو جانے کب کا زمین بوس ہوچکا تھا۔
“سس… سوری۔” اس نے بوکھلا کر دوپٹہ نیچے سے اٹھا کر اپنے اوپر اوڑھایا۔ اور رسالہ بھی اٹھاکر میز پر رکھ دیا۔ جس سے ابراہیم کے اشتعال میں مزید اضافہ ہوا۔ مگر ضبط کرگیا۔
“ باہر میرا ایک کولیگ آیا ہے۔ کچھ دیر ہم دونوں یہیں بیٹھیں گے۔ ایک اہم کیس ڈسکس کرنا ہے۔ اس لیے اپنے کمرے میں جاؤ۔ اور باہر مت نکلنا۔ مجھے جو بھی بنانا ہوگا میں خود بنالوں گا۔” اسے خبردار کرتا باہر کی جانب چل دیا۔ زینب بھی سست روی سے اس کے پیچھے چل دی۔