میں کہانی کا دوسرا کردار میرا نام ہے حنظلہ میر میں بھی آپ کی طرح ایک عام سا لڑکا جس سے اس مڈل کلاس زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا کہتے ہیں جو چیز اچھے اور برے کی تمیز بھلا دے اس سے دور ہی رہنا چاہیے یہی تو غلطی ہوئی تھی مجھ سے تو جاننا چاہیں گے آپ لوگ میں کیسے ایک عام لڑکے سے فیمس ٹک ٹاکر بنا اور پھر کیسے میں نے اپنے اس سفر میں اچھے برے کی تمیز بھلا دی تو چلتے ہیں کہانی کی طرف۔ ۔
آج اتوار کا دن تھا سب کی چھٹی تھی اس لیے بڑے چھوٹے ہر کوئی گھر پہ موجود تھا اس وقت گھر میں تہلکہ مچا ہوا تھا لڑتے جھگڑتے ہیں آپس میں باتیں کرتے ہنستے مسکراتے وہ لوگ ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔۔۔
“ماما یہ کیا ہے۔۔؟ آج اتوار تھا آج تو کچھ ڈھنکہ کھلا دیتیں پراٹھے کے ساتھ یہ کل والی سبزی، مجھے نہیں کرنا یہ ناشتہ اس سے اچھا تو میں بھوکی ہی رہہ لوں۔۔ ” برآمدے میں زمین پر دسترخوان لگا ہوا تھا کچن سے گرما گرم پراٹھے تعبیر ایک کہ بعد ایک لا کر رکھ رہی تھی اتوار والے دن دونوں فیملیز ساتھ ہی ناشتہ کرتی تھی مرزا صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ باقی سب زمین پہ لگے دسترخوان کے پاس بیٹھے ناشتے میں مشغول تھے جب کل کی بچی ہوئی سبزی کو دیکھ کر یشل نے منہ بگاڑا تھا۔ ۔
” تم کون سی محل کی رانی ہو کہ تمہارے لیے 26 قسم کے پکوان بنوائے جائیں شکر کرو یہ سبزی بھی تمہیں کھانے کو مل رہی ہے ورنہ ان لوگوں سے پوچھو جن کو کچھ کھانے کو نہیں ملتا .شاہین بیگم کچن نے سے ہی آواز لگا دی یشل کو ڈانٹ رہی تھیں اور وہ بات کو اگنور کرتی اپنے ٹوٹے پھوٹے موبائل کو چلا رہی تھی..
تعبیر بیٹا تم بھی اب ناشتہ کر لو میں نے کر لیا ہے میں کروا لیتی ہوں شاہین کے ساتھ کام۔ “تاںٔی امی چائے کا آخری گھونٹ بھرتی دسترخوان سے کچھ پلیٹیں سمیٹتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی یشل کے سامنے ہی حنظلہ بیٹھا موبائل یوز کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ ناشتہ بھی کر رہا تھا میر شاہ اخبار پڑھتے پڑھتے چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے یوسف اور اسماعیل صاحب دونوں گھر پر نہیں تھے تعبیر تائی کی بات سنتے ہوئے دسترخوان پر حنظلہ کے ساتھ بیٹھ گئی تھی….
“اپنا ہاتھ ہٹا لو بندر یہ میرےلیے لاںٔی ہیں بڑی ماما۔۔ ” یشل کی زور دار آواز پر سب اُس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ شاہین بیگم نے ایک آنڈا فراںٔی کر کے لا دیا تھا اب اُس پر یشل اور حنظلہ دونو نظر جماںٔے بیٹھے تھے۔۔
“تم اپنا ہاتھ ہٹا لو بندریا پہلے میں نے اس پلیٹ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ ” اپنے موبائل کو سںٔیڈ پر رکھ کر حنظلہ نے بھی دوبدو جواب دیا تھا ان دونوں کو ایسے لڑتے دیکھ سب مُسکرا رہے تھے۔۔
“حنظلہ بُری بات یہ یشل کو دے دو تم تو کر چُکے ہو ناشتہ۔۔ ” انعم بیگم حنظلہ کو سمجھا رہیں تھیں جو کہ ناممکن تھا کہ وہ سمجھ جاںٔے۔۔۔
“نہیں ماما میں یہ تعبیر کو دے دونگا پر اس بندریا کو نہیں اب تو میری عزت کا سوال ہے۔۔ ” تعبیر کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔۔
“پھر شروع ہوگںٔے تم دونوں، بڑے ہوگںٔے ہیں پر دونوں میں عقل نہیں آرہی۔۔ ” انعم بیگم باقی کے برتن سمیٹ رہیں تھیں۔۔
“ہاں بھابھی حنظلہ تو پھر بھی لڑکا ہے پر یشل کو دیکھے مجھے تو ڈر لگتا ہے کل کو اسے اپنے سسرال بھی جانا ہے کیا کریگی وہاں یہ پگلی۔۔ ” شاہین بیگم نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا تھا وہ دونوں آپس میں لڑ جاتی تھیں پھر کچھ وقت بعد ساتھ بیٹھیں باتیں بنا رہی ہوتیں تھیں۔
“میں کر ہی نہیں رہی ناشتہ رکھے آپ لوگ۔۔ ” یشل غصے میں اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ۔۔
“ناراض کر دیا نہ تم نے یشل کو۔۔ ” تعبیر افسوس بھری نظر ڈالتی آنڈا پراٹھا لے کر یشل کے پاس گئی تھی۔۔ حنظلہ نے کندھے اچکاںٔے تھے۔۔ ناشتے کا سلسلہ ختم ہوگیا تھا۔۔
“یشل تو ضدی ہے تم کیوں اُسے پریشان کرتے ہو؟ ” حنظلہ اب ددّا کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔
“ددّا! مزہ آتا ہے اُسے تنگ کر کے، ویسے آپ کی پوتی کوئی کم نہیں ہے ہر چیز کا بدلہ برابر سے لیتی ہے اب دیکھتے نہ کیسے کمرے میں چلی گئی کیونکہ وہ جانتی تھی جب وہ ایسے جاںٔے گی تو میڈم نور جہاں کا ناشتہ اُن تک پہنچ جائے گا۔، آپ سب سے زیادہ جانتا ہوں میں یشل کو۔۔” وہ مُسلسل موبائل چلا رہا تھا پر ساتھ ساتھ گفتگو بھی جاری تھی۔۔
“کیا یہ ہر وقت موبائل میں گُھسے رہتے ہو۔۔؟ ” ددّا نے ٹوکا تھا۔۔
“ددّا دیکھیں نہ میں کتنا فیمس ہوتا جارہا ہوں ٹِک ٹُک پر دیکھیے گیا آپ کچھ دنوں کی بات ہے پھر میں ٹِک ٹُک اسٹار بن جاؤنگا۔۔ ” حنظلہ اپنا موبائل میر شاہ کے سامنے کر گیا تھا اُس نے ابھی کچھ دن پہلے ہی تو ٹِک ٹُک اکاؤنٹ ایک دوست کے کہنے پر بنایا جو اب چلنے لگا تھا۔۔
“یہ سب تو تم بچے لوگ ہی جانو ہم تو چلے آرام کرنے۔۔” وہ حنظلہ کے سر پر ہاتھ پھرتے نکل گئے تھے۔۔