میرہادی سے ملنا ہے کیا وہ یہیں آفس میں ہیں _؟
ریسیپشنسٹ نے اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا جو حولیے سے گارڈ معلوم ہوتا تھا _
جی وہ آفس میں ہی ہیں لیکن کیا آپ نے اپائٹمنٹ لی ہوئ ہے یا سر آپکو جانتے ہیں _
دونوں ہی نہیں لیکن آپ ان سے کہیں زاویارسلطان ملنے آیا ہے – خاور اور وہ میر ہادی سے ملنے اس کے آفس آۓ تھے —
اوہ سر آپ زاویار سلطان ہیں تو آپ جاسکتے ہیں سر نے پہلے ہی کہہ دیا ہوا ہے کہ آپ کو نہ روکا جاۓ _
this way sir …..
دروازے کو ہلکا سا نوک کیے اجازت کا انتظار کیے بغیر زاویار اندر داخل ہوا اور ٹیبل کے سامنے رکھے ہوۓ صوفے پر جا بیٹھا _ جبکہ خاور ایک طرف کو کھڑا ہوگیا —
میرہادی نے اپنی آنکھوں کو چھوٹا کیے کئ لمحے اسے دیکھا تھا اور پھر شاطر سا مسکرایا جیسے اپنی ہی سوچ سے محفوظ ہوا ہو – ” تو کہیں کیسے آنا ہوا مسٹر زاویار – کیا مدد کر سکتا ہوں میں آپ کی” -؟!
زاویار نے سنجیدہ تاثرات لیے سر پیچھے صوفے سے لگایا ہاتھ صوفے کی بیک پر رکھے جبکہ نظریں اب بھی سامنے میرہادی کو دیکھ رہی تھیں_
” آبدار سلطان ” – ؟!!
کھل کر بولو سلطان میں تمہاری بات سمجھا نہیں- مسکراہٹ کچھ اور بڑھی جسے میرہادی نے چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی —
زاویار صوفے سے اٹھا اور اب قدم قدم چلتا ہوا جا کہ اس کے سامنے رکا – یوں کہ درمیان میں بس میز تھی _ ایک طرف میرہادی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور دوسری طرف زاویار سلطان کھڑا ہوا تھا –
اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ میرہادی کے چہرے سے وہ منحوس سی مسکراہٹ کھینچ کر ہٹا دے –
پر وہ صبر کے گھونٹ بھر کے رہ گیا تھا آخر اسے ابھی انفارمیشن چاہیے تھی – میرے ساتھ کھیل مت کھیلو میر – تم یہ اچھی طرح جانتے ہو کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں –
نہیں میں نہیں جانتا – مجھے سہی سے سمجھاؤ زاویار – میں اب اکثر چیزیں بھول جاتا ہوں – کیا کروں -؟ یہ کہتے ہوۓ اس کہ چہرے پرایسی معصومیت تھی کہ واللہ جو میرہادی کو نہ جانتا ہوتا وہ اس پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتا – اور خود کو ایک دو تھپڑ بھی مارتا کہ کیوں آخر کیوں اس نے اس معصوم سے شخص پر شک کیا تھا –
زاویار نے ہنکارا بھرتے اسے غصے سے چبھاجانے والی نظروں سے گھورا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھتے تھوڑا سا اس کی طرف جھکا تھا _
” آبدار سلطان ” دلھاد سلطان کی نواسی اور زاویار سلطان یعنی کے میری محبت
” my Çiçeğim ♡”
اس کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں میں _
اوہ اچھا تو یوں کہو نہ سلطان – اب سمجھ میں آئ ہے نہ تمہاری بات مجھے _ ہمم تو تم آبی کی بات کر رہے ہو _؟!
آبدار – زاویار نے فوراً ٹوکا
ہاں وہی آبدار _ لیکن تم جاننا کیا چاہتے ہو –؟ اب کہ اس کا قہقہ اس کے آفس روم میں گونجا تھا _
زاویار نے مٹھیاں بھینچتے خود پر قابو پایا _ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کا منہ توڑ دے – میر ہادی سچ میں اس کا ضبط آزما رہا تھا –
اوکے اوکے _ تو کہانی کچھ یوں ہے کہ آج سے تین- نہیں نہیں ساڑھے تین سال پہلے ہی میں آبدار سے ملا تھا – ہوا کچھ یوں تھا کہ —
(فلیش بیک) ⌚
آبدار کو یہاں آۓ پانچ مہینے ہو چکے تھے – جیسا کہ اس نے سوچا تھا کہ زاویار یا کسی کا بھی دھیان اس اپارٹمنٹ کی طرف نہیں جاۓ گا جو کہ زاویار نے خود خریدا تھا تو ایسا ہی ہوا تھا – اب تک تو کسی کو اس کا خیال نہیں آیا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ کچھ عرصے تک ایسا ہی رہے –
وہ جانتی تھی کہ زاویار کی حرکت کے پیچھے پورا پورا ہاتھ اس کے پیارے ناناجان کا ہے – لیکن اس کو اس بات پر حیرت تھی کہ زاویار جیسا سمجھدار شخص کیسے اس طرح اپنے فیصلے بدل سکتا ہے – کوئ کیسے اسے manipulate کر سکتا ہے اور کیا وہ اتنی جلدی گمراہ ہوجانے والوں میں سے تھا _
وہ زاویار کے لیے سب سے لڑ سکتی تھی لیکن خود زاویار سے نہیں _ اسکو سب سے زیادہ پیاری اپنی عزت نفس تھی – یہ نہیں تھا کہ سلطان سے اس کی محبت کم ہو گئ تھی یا ختم ہو گئ تھی – نہیں وہ اب بھی اسے یاد آتا تھا اب بھی اگر جب وہ آۓ گا تو وہ اس کے ساتھ چلی جاۓ گی اسکی
دنیا میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر – بات یہ تھی کہ وہ خود آۓ اپنا دماغ اور اپنا دل استعمال کرکے –
وہ ہنی بی کیفے سے کافی پی کر نکلی تھی – اس کیفے کی مالکن کافی اچھی تھی اور اس نے آبدار کو یہاں کام کرنے کی بھی آفر کی تھی کہ ایسے آبدار کا ٹائم پاس ہوجاتا – آبدار نے سوچا کہ یہ بھی سہی ہے خود کو تھوڑا مصروف کرلینے سے ہوسکتا ہے کچھ یادیں اسکا پیچھا چھوڑ دیں – اس لیے آج وہ ہاں کر آئ تھی —
دونوں ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ڈالے وہ روڈ کی سائیڈ پے چل رہی تھی – یادوں سے نکلتے اس نے گلے میں پہنے swans کو دیکھا تھا اور پھر سر جھٹکتے ٹریفک کے رکنے کا انتظار کرنے لگی –
اس کا دماغ ناجانے کیوں آج کل سن سا رہنے لگا تھا – وہ چیزیں رکھ کے بھول جاتی – اور بھی بہت کچھ تھا آبدار کو لگ رہا تھا کہ وہ پاگل ہوتی جارہی ہے – کچھ ہی دن پہلے اسے پینک اٹیک ہوا تھا شکر تھا کہ وہ کیفے میں تھی اس وقت تو کیفے کی اونر صوفیہ اسے جلدی سے ہوسپیٹل لے گئ تھی –
ڈاکٹر نے کہا تھا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہے اور اگر اس نے اپنا خیال نہیں رکھا تو اس کا نروس بریک ڈاؤن بھی ہوسکتا ہے – اس کی ذہنی حالت بری طرح متاثر ہورہی تھی – آبدار حیران تھی کہ وہ شخص وہ ایک شخص اس قدر اہم تھا _
\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\.