صاعقہ چار بہنوں اور ایک بھائی میں دوسرے نمبر پہ تھی۔ سہیل احمد کو جب ایک حادثے میں معذوری کے سبب فیکٹری سے فارغ کیا گیا تو گھر میں نوبت فاقوں تک آتی اس سے پہلے ہی صاعقہ نے ماں سے لڑ جھگڑ کر نوکری کی اجازت مانگی۔ فیکٹری مالکان نے جو رقم دی تھی وہ اتنی بھی نہیں تھی کہ اسے عمر بھر بیٹھ کر کھایا جاتا۔ صاعقہ سے بڑی بہن فائمہ کی شادی ہو چکی تھی۔ اس کے حالات بھی اتنے اچھے نہیں تھے کہ ماں یا بہنوں کی کفالت کر سکتی۔ بھائی ابھی چھوٹا تھا۔ صاعقہ بی-اے کر کے کسی پرائیویٹ سکول میں نوکری کا سوچ رہی تھی۔ ایک دو جگہ انٹرویو دے کر بھی آئی مگر پرائیویٹ اسکول بھی آخر کتنی تنخواہ دے دیتے؟ اتنی تو قطعاً نہیں کہ گھر کا خرچ اور چھوٹی بہنوں اور بھائی کی پڑھائی کا بوجھ بھی اٹھا سکے۔
”تمھیں آفس میں جاب کر لینی چاہیے۔“ اس کی دوست ثمرہ نے مشورہ دیا ساتھ ہی ایک کارڈ بھی اسے تھمایا تھا۔
”خواجہ ہارون“ اس نے کارڈ ہاتھ میں لے کر دیکھا۔
”میرے کزن ان کی پارٹی کے سپورٹرز میں سے ہیں۔ میں نے ان سے تمھارے لیے جاب کی بات کی تھی تو انھوں نے کہا کہ آج کل انھیں ایک اسسٹنٹ چاہیے تو کل ہی چلی جاؤ۔“ وہ تذبذب کا شکار تھی۔
”تم جانتی ہو ثمرہ! امی اسکول میں نوکری کے لیے مشکل سے مانی ہیں اور یہ تو۔۔۔ آفس جاب بھی نہیں ہے۔“ اس نے کارڈ واپس اسے پکڑا دیا تھا۔
”امی نے صاف کَہ دینا ہے کہ سیاست بری چیز ہے اس میں نہیں پڑنا۔ اور یہ نوکری شروع کی تو خاندان اور محلے والے سو باتیں بنائیں گے۔“ اس نے امی جو اعتراض اٹھاتیں وہ خود ہی بیان کر دیے تھے۔
”ہاں! جب تمھارے ابو کی نوکری گئی تھی تب تو ان رشتہ داروں کو خیال نہیں آیا تھا یا کل جب فاقوں سے مرنے لگو گے تب ان محلے والوں میں سے بھی کوئی بچانے نہیں آئے گا۔ دیکھو صاعقہ! یہ ہماری زندگی ہے اور اپنی زندگی کی بقا و سلامتی کی جنگ ہمیں خود لڑنی پڑتی ہے۔“ ثمرہ نے کارڈ دوبارہ اس کے ہاتھ میں دیا تھا۔
”اور تم سیاست میں قدم نہیں رکھ رہی ہو۔ صرف ایک سیاست دان کے ہاں نوکری کرنے جا رہی ہو۔ بھائی کَہ رہے تھے سیلری پیکج بھی اچھا دیں گے۔ کام اچھا کرو گی تو بونس بھی مل جائے گا اور پک اینڈ ڈراپ بھی ہو گا۔“ اس کے ہاتھ پہ نرمی سے دباؤ بڑھاتی ثمرہ نے اسے سمجھا بلکہ منا کر ہی دم لیا تھا۔ نوکری شروع کی تو اس کی توقع کے مطابق ہر کسی نے بہت باتیں بنائیں۔ شروع میں امی اور بہنیں بھی اس کی مخالف رہیں مگر پھر جب دیکھا کہ اس کی تنخواہ سے گھر کے حالات سنبھل رہے ہیں تو سبھی چپ ہو گئے تھے۔ خواجہ ہارون اپنے کام سے کام رکھنے والے فرد تھے۔ اسے زیادہ تر آفس میں ہی بیٹھنا ہوتا تھا۔ بس ایک دو بار کسی کام سے ان کے گھر جانا ہوا تو پتا چلا کہ ان کی بیوی پچھلے چار سال سے ریڑھ کی ہڈی میں نقص کے باعث صاحب فراش تھی۔ اور ایک بارہ سال کا بیٹا جو ہاسٹل میں ہوتا تھا۔ اتنا بڑا گھر، جائیداد اور دیکھنے سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا۔