Uncategorized

Dil O Janam Fida E Tu by Aniqa Ana Episode 50 Online Reading


عبدالمعید کی گاڑی جس وقت کھلے پھاٹک سے اندر داخل ہوئی اس نے سفید کرولا کو وہاں سے نکلتے دیکھا تھا۔ البتہ گاڑی کے شیشے اوپر ہونے کی وجہ سے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کو دیکھ نہیں پایا تھا۔ وہ ذہن پہ زور دیتے ہوئے کہ اس نے ایسی کار پہلے کہاں دیکھی تھی، گاڑی سے اترا تو لہیم جاہ کو بھاگتے ہوئے اپنی طرف آتے دیکھا تھا۔
”کیا ہوا لہیم؟ سب ٹھیک۔۔۔“ وہ کہتے کہتے رکا تھا۔ جن حالات میں وہ یہاں آیا تھا اور جس تکلیف سے لہیم جاہ گزر رہا تھا ایسے میں یہ سوال قطعی غیر ضروری تھا۔
”کیا تم نے یہاں سے ابھی کسی آدمی کو جاتے دیکھا ہے؟“ اس کے ادھورے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے استفسار کیا تھا۔
”آدمی کو تو نہیں، البتہ ایک سفید کار ضرور یہاں سے نکلی ہے؟ میں تم سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ کون تھا؟“ وہ لہیم کے ساتھ داخلہ دروازے پہ کھڑا اسی گاڑی کے متعلق بات کر رہا تھا۔
”مجھے نہیں معلوم! خود کو کسی اخبار کا نمائندہ بتا رہا تھا۔“ لہیم جاہ بے بسی سے مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا۔ جب کہ عبدالمعید نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
”ہاں ہاں! میں جانتا ہوں تم کیا سوچ رہے ہو؟ میں نے سوائے تمھارے کسی کو اطلاع نہیں دی۔“ وہ اس کے چہرے پر در آئی حیرت کو بخوبی پڑھ چکا تھا۔
”تم سے ہزار بار کہا تھا کہ اپنے گھر کی سیکیورٹی کا کچھ انتظام کرو مگر تم کسی کی سنتے ہی کب ہو۔“ وہ اس موقعے پر بھی اسے ڈانٹنے سے باز نہیں آیا تھا۔
”اب جو ہونا ہوتا ہے وہ حفاظتی انتظامات مکمل ہونے کے بعد بھی ہو جاتا ہے۔“ لہیم جاہ نے سر جھٹکا تھا۔ اور اندر کی طرف مڑا تھا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ مانا کہ سب تقدیر کا لکھا ہوتا ہے لیکن تدبیر بھی کوئی شے ہوتی ہے۔“ لہیم جاہ اس کی بات سن کر رکا، پلٹا اور سختی سے بولا تھا:
”اپنے اعمال کو تقدیر کا لکھا کَہ کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنا بےوقوفی ہے۔ ویسے بھی تقدیر و قسمت وغیرہ کچھ نہیں ہوتے، جو ہوتا ہے انسان کی اپنی کوشش اور محنت سے ہوتا ہے۔“
”تو اب جو کچھ ہوا، اس میں تمھاری کون سی کوشش یا محنت شامل تھی؟ کیا اس کی وضاحت کرنا پسند کرو گے؟“ وہ اس کے لہجے کی سختی کو خاطر میں نہیں لایا تھا۔ اور لاتا بھی کیوں؟ وہ اس سے ڈرتا نہیں تھا۔ وہ ہر بات کا اس سے برملا اظہار کرنے کا یارا رکھتا تھا۔ ایک وہی تھا جو اسے آئینہ دکھانے کی ہمت بھی رکھتا تھا۔
”مجھے ان سب باتوں میں الجھا کر اپنا یہاں آنے کا مقصد مت بھولو۔“ وہ اسی انداز سے کہتا اندر کی طرف بڑھا تھا۔
”جب تم اپنا دنیا میں آنے کا مقصد بھول سکتے ہو تو میں یہاں آنے کا مقصد کیوں نہیں بھول سکتا۔“ پتا نہیں وہ اس وقت پہ موضوع کیوں چھیڑ بیٹھا تھا۔
”اس سوال کا جواب تمھیں اسفند جاہ یا ایلسی جاہ سے پوچھنا چاہیے۔“ وہ کھا جانے والے انداز میں بولا تھا۔
”مجھے اس کا جواب تم سے چاہیے۔“ لہیم جاہ کو ناچار پھر رک جانا پڑا تھا۔
”عبدالمعید! کیوں میرے ضبط کو آزما رہے ہو؟“ وہ غصے کو ضبط کرتا کڑے تیور لیے اس کے سامنے رکا تھا۔
”کم از کم تمھیں تو میری ذہنی کیفیت کا احساس ہونا چاہیے۔“ عبدالمعید کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ اس نے لہیم جاہ کو اتنا ٹوٹا ہوا پہلے نہیں دیکھا تھا۔
”میں یہی کَہ رہا ہوں کہ تمھیں کم از کم سی سی ٹی وی لگوا لینا چاہیے۔“ اس نے بات کا رخ بدلا۔ اور بڑے غیر محسوس انداز میں موضوع بدل دیا تھا۔ وہ تسلی کا کوئی بھی لفظ کَہ کر اسے مزید بکھرا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ آج بھی وہ اگر یہ سب کہنے پر مجبور ہوا تھا تو عبدالمعید اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ وہ کس کرب سے گزر رہا تھا۔
”سر! یہ کارڈ۔۔“ شجاع فرید نے زمین پہ گرا کارڈ اٹھا کر اس کے حوالے کیا تھا۔
”ضربان کرمانی“ سفید رنگ کے کارڈ پہ سوائے نام کے کچھ نہیں لکھا تھا۔ عبدالمعید نے وہ کارڈ اس کے ہاتھ سے لیا تھا۔ لہیم جاہ کی طرح بہت دیر تک اس کے ذہن میں بھی شناسائی کی کوئی شبیہ نہیں ابھری تھی۔ وہ نام اس کے لیے بھی اتنا ہی اجنبی تھا جتنا لہیم جاہ کے لیے۔۔۔
”تمھیں کس پر شک ہے لہیم؟“ اس نے پوچھا تھا۔
”مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا معید!“ وہ سر کے بال ہاتھوں میں جکڑتے پریشانی کی سراپا تصویر بنا ہوا تھا۔
”لیکن جس کسی نے بھی یہ کیا ہے، میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔“ بےبسی و خود ترسی کا وہ لمحہ بڑا مختصر تھا۔ اگلے ہی پل وہ مجرم کو سزا دینے کے درپے ہوا تھا۔
”مجھے بس یہ پتا چل جائے کہ شہاب پہ چلنے والی گولی کس پستول سے چلی تھی؟“ عبدالمعید کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ وہ شجاع فرید کو لہیم جاہ کو وہیں روکے رکھنے کا اشارہ کرتا اصطبل کی طرف گیا تھا۔ لہیم جاہ سے کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ اس شخص کو ڈھونڈ نکالے اور قانون کو ہاتھ میں لے بیٹھے۔ اسے ڈاکٹر کو ضروری ہدایات دینی تھیں۔
”سر! گولی زیادہ قریب سے نہیں چلی ہو گی۔ البتہ مارنے والے کا نشانہ پختہ رہا ہو گا۔ دو فائر کیے اور عین دل کے مقام پر، پہلی گولی نے ہی دل کے چیتھڑے اڑا دیے ہوں گے۔“ وہ اندر آیا ہی تھا جب ڈاکٹر خود اس سے بات کرنے کے لیے باہر آ رہا تھا۔ وہ دونوں وہیں رک گئے تھے۔
”اور دوسری گولی۔۔۔؟“ اس نے پوچھا اور مردہ پڑے شہاب پہ ایک نظر ڈالی تھی۔ عبدالمعید کے لیے بھی شہاب کو بے جان پڑے دیکھنا ایک کڑا مرحلہ تھا۔ ابھی کل کی ہی تو بات تھی جب وہ اس کی پشت پر سوار ہوا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ شہاب نے بڑی مشکل سے اسے خود پر سوار ہونے دیا تھا۔ قریب ہی تھا کہ وہ اچھل اچھل کر اسے اپنی پیٹھ پر سے گرا دیتا جب لہیم جاہ نے اس کی پیٹھ تھپک تھپک کر اسے رام کرتے ہوئے بڑے پیار سے سمجھایا تھا۔
”ملازم تو ملازم، تمھارے تو جانور بھی تمھاری ہی زبان سمجھتے ہیں۔“ اس کا اشارہ شجاع فرید کی طرف تھا۔وہ ہنستا ہوا جلدی ہی اس کی پیٹھ سے اتر آیا تھا۔

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,