سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی خان حویلی کے مکین بھی اپنے کمروں سے باہر نکل آئے تھے.
“خیریت آج سویرے اُٹھ آئی ہو؟” حیات خان نے انابیہ کو آج معمول سے ہٹ کر سویرے آتے دیکھ سوال کیا.
“آغا جان آپ کو کیا لگتا ہے میں سویرے نہیں اُٹھ سکتی؟” انابیہ نے ماتھے پر تیور سجاتے پوچھا تھا.
“ہم کیسے اپنی شہزادی کی شان میں ایسی گستاخی کرسکتے ہیں.” حیات خان نے پوتی کی ماتھے کر بوسا دیتے ناز سے کہا.
“انابیہ یہاں آؤ میری مدد کرو ٹیبل سیٹ کرنے میں.” سلمہ بیگم نے کچن سے پوتی کو پکارا تھا.
“دادو میں؟ یہ کیا آج میں کیوں؟” انابیہ کچن کی طرف بڑھتے ناسمجھی سے سوال کیا.
“یہ کس طرح کا سوال ہے انابیہ بیٹا یہ کام تو ہر لڑکی کرتی ہے.” سلمہ بیگم نے مسکراتے انابیہ کے اعتراض پر اسے گُھر کیا.
“دادو مجھ سے نہیں ہوتے ایسے کام سچ بتارہی ہوں.” انابیہ نے ٹیبل پر پلیٹس رکھتے منہ بناتے کہا.
“انابی آپ کو دوسرے گھر بھی جانا ہے, ہر کوئی باپ بھائیوں کی طرح نخرے نہیں اٹھاتا.”مہرالنسا بیٹی کی بات پر چڑ کر بولیں.
وہاں موجود ہر شخص مہرالنساء کی بات پر حیران رہ گیا تھا.
“مما یہ کیا بات ہوئی؟ میں نہیں جاؤں گی کسی دوسرے گھر, میں پہلے ہی بتارہی ہوں.” انابیہ مہرالنساء کی بات پر برا مناتے بولی.
“دوسرے گھر تو ایک نہ ایک دن جانا ہی ہے, ہم بھی اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر آئے تھے.” مہرالنساء آج صبح ہی صبح غصے میں آگئی تھی.
“کیا مطلب ہے اماں اگر بیٹی دوسروں کو ہی دینی ہی تھی تو پھر پیدا ہی کیوں کیا تھا.” انابیہ غصے سے بول کر پاؤں پٹھکتی وہاں سے واک آؤٹ کرگئی۔
“انابی….” مہرالنساء نے غصے سے اسے پُکارا.
“مہرو اتنا سخت ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی.” شبیر صاحب بیوی سے مخاطب ہوئے تھے.
“ہاں تو غلط نہیں کیا تھا میں نے کل کو تم سب یہی کہو گے کے ماں نے تربیت ٹھیک نہیں کی ہے.” مہرالنساء کرسی پر بیٹھ سر ہاتھوں میں گرائے رونا شروع ہوگئیں.
“ارے! مہرو آپا روئیں نہیں بچی ہے وقت کے ساتھ سمجھ جائے گی.” رفعت بیگم نے مہرالنساء کے اس طرح رونے پر گھبراتے اسے تسلی دی.
“ماں آپ کو اس طرح نہیں بولنا چاہیے تھا پہلے ہی وہ اتنی سینسٹو رہنے لگی ہے ایسا نہ ہو وہ خود کو بوجھ ہی سمجھ بیٹھے.”ماہیر نے مہرالنساء کے قریب بیٹھتے محبت سے کہا.
“بیٹا میں اس کی بھلائی چاہتی ہوں ماں ہوں اس کی دشمن تو نہیں ہوں.” مہرالنساء نے ماہیر کی بات پر وضاحت کی تھی.
“دیکھیں پیاری مما جس زندگی کے حصے میں آج وہ ہے اس میں اکثر ایسی باتوں پر بچے برا مان جاتے ہیں, آپ اسے اکیلے میں دوست بن کر سمجھائیے گا وہ سمجھ جائے گی.” ماہیر نے اپنی طرف سے اس معاملے کو بہتر طریقے سے حل کرنا چاہ تھا.
“ٹھیک ہے شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو میں کچھ زیادہ ہی بول گئی ہوں.” مہرالنساء بیٹی کی محبت میں ہار مان گئیں.
“چلیں پھر آپ لوگ ٹیبل سیٹ کردیں تب تک میں اسے مناکر آتا ہوں.” ماہیر پیار سے کہتا وہاں سے چلا آیا.
انابیہ کمرے میں آتے ہی آنسو بھاتی یونی کے لئے تیار ہونا شروع ہوگئی.
“گڑیا.” ماہیر کی پُرجوش آواز پر دل نے پلٹنے کو کہا مگر کچھ دیر پہلے ہوئے واقعے کے بعد وہ بالکل بھی ایسا نہیں کرسکتی تھی.
“میری پیاری انابی کیوں منہ پُھلائے بیٹھی ہے.” ماہیر نے آگے بڑھ کر بہن کو کندھوں سے پکڑ صوفے پر بٹھایا اور خود اس کے پاؤں کے قریب بیٹھ گیا.
“مما کی بات کا برا لگا ہے؟ جانتا ہوں ان کا انداز تھوڑا مناسب نہیں تھا مگر ان کی بات ٹھیک ہے.” ماہیر نے انابیہ کے نرم ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھتے محبت سے سمجھایا.
“لیکن بھائی جب یہاں میں خوش ہوں تو دوسرا گھر لازمی کیوں ہے؟” انابیہ نے معصومانہ سوال کیا.
“میری پیاری بہن جانتا ہوں کے تم خوش ہو مگر دوسرے گھر جانا برا تو نہیں ہوتا جو تم اتنا برا مان گئی ہو.” ماہیر کو کچھ جواب نہ سوجھا تو وہ بات بدل گیا.
“بھائی مجھے ڈر لگتا ہے کیونکہ شادی کے بعد سب کچھ بہت برا ہوتا ہے.” انابیہ کے لہجے میں ڈر ماہیر کو حیرت زدہ کرگیا تھا.
“انابی اب یہ کس نے کہہ دیا ہے کے سب برا ہوتا ہے.” ماہیر کو اس کی اتنی سی عمر میں یہ سب کہنا نارمل نہیں لگا تھا کیونکہ ان لوگوں نے ہمیشہ اسے ایسی چیزوں سے دور رکھا تھا.
“میری ایک دوست ہے جو دوسرے گاؤں سے ہے اس کا شوہر اس کے ساتھ بہت برا پیش آتا ہے, اسے بہت مارتا ہے,اس کی کوئی بات نہیں سنتا زرا زرا سی بات پر بہت مارتا ہے, وہ کہتی ہے کے جوگھر کے لاڈلے بچے ہوتے ہیں ان کا یہی حال ہوتا ہے.” انابیہ نے روتے روتے اپنے ڈر کی داستان سنادی.
یہ بات سن کر ایک پل کو ماہیر کا دل بھی کانپ اٹھا تھا جلدی سے اٹھ کر بہن کو سینے میں چھپایا.
“نہیں ایسا نہیں ہوتا, وہ کریم ذات کبھی ایسا نہیں کرسکتی تمہارے ساتھ.” ماہیر کی آواز کانپ رہی تھی.
“بھائی مجھے نہیں جانا کہیں بھی میں اپنے بابا کے نام کے ساتھ خوش ہوں.” انابیہ نے بھائی کے سینے میں سر چھپالیا.
“میں تمہیں کبھی خود سے دور نہیں کرسکتا میں تمہارے معاملے میں کبھی کسی اور مرد پر بھروسہ نہیں کرسکتا.” ماہیر نے اسے اپنے سینے میں پھینچتے دوسرے ہاتھ سے اپنے آنسو صاف کئے تھے.
وہ دونوں ہی اس معاملے میں بہت زیادہ حساس تھے.
***************************