ارحاب غصے میں گاڑی لیکر گاؤں سے نکل کر ہائی وے پر ہی نکل آیا تھا.
اپنے باپ کے ساتھ گزرے وہ چند بچپن کے پل جو بمشکل اسے دھندلے یاد تھے وہ اس کے ذہن میں بار بار آرہے تھے.
“بابا! کاش آپ کبھی نہ جاتے.” ارحاب خیالوں ہی خیالوں میں اپنے باپ سے مخاطب ہوا.
موبائل کی رنگ نے ارحاب کے خیالوں کی گاڑی کو بریک لگائی تھی.
موبائل کی اسکرین پر فاتح کا نام دیکھ یکدم تاثر بدلے تھے.
“ہاں جلدی بولو میرا موڈ خراب پہلے سے ہی ہے سو تم کوئی بری نیوز مت دینا.” موبائل کان سے لگاتے ارحاب نے فاتح کے بولنے کا انتظار کئے بغیر بول دیا.
“وہ تو مجھے پتا پہلے ہی لگ چکا ہے مگر ایک اور مسئلہ در پیش آگیا ہے.” فاتح کو ارحام نے پہلے ہی آج ہونے والے واقعے کی خبر کردی تھی.
“فاتح تو سچ میں میرا دوست ہے؟” ارحاب نے اس کی بات پر غصہ ہوتے سوال کیا.
“ہاں! اس میں کوئی شک نہیں ہے.” فاتح نے عام انداز میں جواب دیا.
“فاتح..اچھا جو مسئلہ ہے جلدی بتاؤ.” ارحاب کو غصہ بہت آیا لیکن اس نے سنجیدگی سے پوچھا.
“ہمارے یونی سے ایک ٹیچر کی کال آئی تھی جس کے تم فیورٹ تھے وہ چاہتے ہیں تم یونی آکر اپنی کامیابی کی کہانی سناؤ.” فاتح نے جلدی سے پوری بات بتائی.
“فاتح….کیا تم مجھے جانتے نہیں ہو…..مجھے شو آف کرنا پسند نہیں ہے.” ارحاب کو فاتح کی بات پسند نہیں آئی تھی.
“جانتا ہوں اس لیے پوچھ رہا ہوں میں نے اُنہیں ابھی ہاں نہیں کی ہے.” فاتح اسے اچھے سے جانتا تھا.
“یار..ایک تو اُنہیں منع کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.” ارحاب نے گاڑی ایک طرف روک کر بے بسی سے کہا.
“مت کرو پھر منع بلکہ لازمی نہیں تم اپنا قصہ بتاؤ اس کے بجائے تم انہیں پریزنٹ مارکٹ کی باتیں بتاکر انہیں طرز عمل بتاؤ کے انہیں اس فیلڈ میں آنے کے بعد کیسے کامیاب ہونا ہے سمپل.” فاتح نے جیسے پہلے ہی سارے مسائل کا حل نکال لیا تھا.
“اچھا یہ ٹھیک ہے پھر سیٹ کرلینا کل کی ایک ہی کلاس بس اور کچھ؟” ارحاب نے رضامندی دے دی.
“اور پیرس والے کلائنٹ مسٹر منیب اور ان کی وائف کل پاکستان آرہے اور تم سے میٹنگ چاہتے ہیں.” فاتح نے جیسے اس کے سر پر بم پھوڑا ہو.
“مت کیا کرو ایسے مذاق کل پہلے ہی بہت کام ہے اور پھر آج رات میں سٹی سے باہر ہوں گا ایسا نہیں ہوسکے گا.” ارحاب ایکدم سے اتنے سارے کام پر پہلی بار کترا رہا تھا.
“ٹھیک ہے پرسوں رکھ لیتے ہیں.” فاتح نے جلدی سے کہا کیونکہ یہ ان کا بہت اچھا پراجیکٹ تھا.
“تم نے اگر پہلے ہی سب کچھ سیٹ کردیا تھا تو مجھے کال ہی کیوں کی ہے.” ارحاب نے اس کی بات پر چڑ کر کہا.
“ہاہاہاہا بس چاہتا تھا تم سے بات کرکے تمہارا دھیان بدلاؤں اور اس میں کامیاب ہوچکا ہوں میں سو اب رکھتا ہوں.” فاتح نے اس کے اندازے پر قہقہہ لگایا تھا.
کال منقطع ہونے کے بعد ارحاب نے ایک گہری سانس لی تھی اور گاڑی پھر سے اسٹارٹ کرکے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا.
**************************
جاری ہے