وہ ابھی ہی ایک اہم میٹنگ سے لوٹ کر آیا تھا اور اب گاڑی میں بیٹھا سیگریٹ پیتے ہوۓ کچھ سوچ رہی تھا – نظریں بائیں جانب دیکھ رہی تھیں – روڈ کراس کرنے کے لیے لوگوں کو کھڑے دیکھ میرہادی نے ایک معمولی بس ہلکی سی نظر ان پے ڈالی تھی –
لیکن یہ اس ایک نظر نے اس چالیس سالا شخص کو حیران کردیا تھا – حیرت سے اس نے کچھ دور کھڑی آبدار کو دیکھا تھا – وہ جب سے پاکستان سے آیا تھا وہ اس کے دماغ سے چپک کر رہ گئ تھی – اور آج یوں اسے سامنے دیکھ کر اسے حیرت اور خوشی دونوں ہوئ تھی –
اس کے دیکھتے ہی آبدار نے روڈ کراس کرنے کے لیے قدم آگے بڑھاۓ – میرہادی کو ناجانے کیا سوجھا کہ اس نے گاڑی سے نکلتے اسے آواز دی تھی —
آبدار!!!!
اپنے نام کی پکار پر اس نے ایک لمحے کو رکتے گردن موڑ کر دیکھا تھا اور اسی وقت ایک گاڑی ناجانے کہاں سے فل سپیڈ پر چلتی آبدار کی جانب آئ – اس گاڑی کے بریکس فیل تھے یا کوئ ڈرنک کرکے اسے چلا رہا تھا کچھ کہنا فلحال مشکل تھا –
میرہادی نے بس ایک نظر اس گاڑی کو دیکھا تھا اور پھر فل سپیڈ سے بھاگتے آبدار کی طرف بڑھا تھا- ڈرائیور اور گارڈز نے حیرت سے اپنے سر کو یوں بھاگتے دیکھا تھا –
آبدار نے سن دماغ کے ساتھ اس گاڑی کو اپنی طرف آتے دیکھا تھا – اور پھر ایک شخص کو بھی – ” میرہادی ” _ اس کا دماغ بلکل خالی تھا اسے سمجھ نہیں آیا وہ کیا بول رہا ہے یا اسے کیا کرنا چاہیے _ اسکی ذہنی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا _
میر ہادی نے اسکے ہلتے لبوں کو دیکھا تھا اور اگلے ہی لمحے اس نے آبدار کوکمر سے پکڑتے اپنی جانب کھینچا تھا – گاڑی روڈ سائیڈ پر لگے پول میں جالگی تھی _ اور وہ دونوں ایک طرف کو گرے تھے – میرہادی نے لمبی سانس لیتے اپنے سینے پر پڑی لڑکی کو دیکھا تھا اور پھر تیز ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالتے تھوڑا سا اوپر ہوتے اسے سیدھا کیا تھا _
کیا تم ٹھیک ہو لڑکی _؟!!
لیکن اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئ تھیں جب اس نے آبدار کو بےہوش دیکھا تھا اس کے ماتھے سے خون بہتا میرہادی کی شرٹ کو بھگو گیا تھا _ میر ہادی کو پہلی دفعہ کسی کے لیے ڈر لگا تھا – اس نے چہرہ تھتھپاتے اسے اٹھانا چاہا لیکن وہ یونہی چپ چاپ پڑی رہی —
میر ہادی کے گارڈز نے گن دکھا کر لوگوں کو وہاں سے بھگایا – ٹریفک پھر سے چل پڑی _ سر میں ان کو ہوسپیٹل لے کے جاتا ہوں _ ایک گارڈ آگے بڑھا اور آبدار کو اٹھانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاۓ _ میرہادی نے اسے غصے سے گھورتے آبدار کو اپنے سینے سے لگایا تھا _ خبردار دور رہو _ اس کی آواز میں ہلکی سی غراہٹ تھی – گارڈز نے حیرت سے اسے دیکھا –
میر ہادی کے پرسنل اسسٹنٹ ثاقب نے آگے بڑھتے بات کو سنبھالا – سر ہمیں میم کو ہوسپیٹل لے کے جانا پڑے گا ان کا کافی خون بہہ گیا ہے – میرہادی نے سر ہلاتے جلدی سے آبدار کو گود میں اٹھایا اور جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھا – آبدار کو گاڑی کی بیک سیٹ پر لٹاتے جلدی سے پیچھے مڑا اور گارڈز کو اشارہ کیا – یہ شخص مجھے بیسمنٹ میں چاہیے (اشارہ گاڑی چلانے والے کی طرف تھا)_
جی سر
گارڈز گاڑی کی جانب بڑھے – –
آبدار کا سر گود میں رکھتے اس نے جلدی سے ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا کہا – اگلے ہی لمحے وہ پھر سے آبدار کو اٹھاۓ ہوسپیٹل کے اندر جارہا تھا ڈاکٹر اسے دیکھتے جلدی سے اس کی طرف بڑھے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے آبدار کو آئ – سی – یو میں لے جایا گیا _
بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ آئ – سی – یو کے باہر ٹہل رہا تھا – بےچینی اس کے ہر انداز میں نمایا تھی – اس نے اپنے ہاتھ دیکھے جو کے آبدار کے خون سے بھرے ہوۓ تھے – اسکی شرٹ بھی ہرجگہ سے سرخ تھی _
وہ اب اپنے سر کو پکڑے چیئر پر بیٹھا ہوا تھا – دو گھنٹے ہو چکے تھے لیکن ابھی تک آبدار کی کوئ خبر نہیں آئ تھی – ثاقب ایک طرف کھڑا غور سے اپنے سر کی یہ حالت پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا – اسے یقین ہی نا ہوا کہ یہ وہی سرد سا میرہادی ہے-
سر آپ ٹھیک ہیں ؟ ثاقب نے ہچکچاتے ہوۓ پوچھا –
ہممم _ اس کی حالت میں کوئ تبدیلی نہیں آئ تھی —
سر پلیز آپ اپنی بینڈیج کروا لیں – انفیکشن ہوجاۓ گا – اس کی چھلی ہوئ کہنی اور بازو کو دیکھتا وہ پھر سے بولا تھا _
میر ہادی نے ناسمجھی سے اپنے بازو کو دیکھا جو کافی جگہ سے زخمی تھا – اسے احساس ہی نہیں ہوا – میں ٹھیک ہوں _
لیکن سر انفیکشن _!!
میں نے کہا نہ کہ میں ٹھیک ہوں – اب کہ اسکا لہجہ ختمی تھا
کچھ لمحے ہی گزرے ہوں گے آئ – سی – یو کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر آۓ – دروازے کی آواز سنتے ہی میرہادی تیزی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھا – ثاقب بس اسے دیکھ کر رہ گیا _
کیا بات ہے ڈاکٹر کیا ہوا ہے اسے _ ؟! اس کی آواز میں بےچینی محسوس کرتے ڈاکٹر نے ایک نظر ٹہر کر اسے دیکھا تھا اور پھر ایک لمبا سانس لیتے ہوۓ بولا —
آپ کی کون ہیں وہ _ ؟! یہ پوچھنے کی دیر تھی میرہادی نے اسکا گریبان پکڑتے اسے دیوار کے ساتھ لگایا – ثاقب جلدی سے اسکی طرف بڑھا —
میرا ضبط مت آزماؤ ڈاکٹر جو پوچھا ہے اس کا جواب دو اور وہ بھی سہی سہی – وہ میری کیا لگتی ہے اور کیا نہیں یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے – سمجھے تم ——
جی سر – پلیز چھوڑیں مجھے —
جو پوچھا ہے وہ بتاؤ _ اس کا گریبان چھوڑتے وہ جھٹکے سے پیچھے ہوا تھا —
” سر اس لڑکی کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے ” _ ڈاکٹر نے اپنی سانس بحال کرتے جلدی سے کہا تھا-
میرہادی جو چہرے پر کرختگی لیے اسے دیکھ رہا تھا اس کی بات سنتے اس کے چہرے پر حیرانگی پھیلی تھی – اسے یقین نہ ہوا _ نروس بریک ڈاؤن ہونا کوئ چھوٹی بات نہیں تھی _ آخر پچھلے کچھ مہینوں میں ایسا کیا ہوگیا تھا کہ آبدار یہاں تک آن پہنچی تھی – اپنے تاثرات پر قابو پاتے اس نے ناسمجھی سے پوچھا تھا – کیا مطلب _؟!
سر آپ میرے آفس میں آئیں – تب تک ریپورٹس بھی آجائیں گی – وہاں تفصیل سے بات کرتے ہیں –
ہمم لیکن آبدار – اشارہ آئ -سی – یو کی جانب کیا_ اوہ سر وہ اب سٹیبل ہیں شکر ہے زیادہ خون نہیں بہا – لیکن باقی کچھ ہم انکے ہوش میں آنے کے بعد ہی کہہ سکتے ہیں _
اس کے ٹھیک ہونے کا سنتے میرہادی کے چہرے پر ایک دم سے سکون آیا تھا _ ہمم , ثاقب تم یہی رہو میں بات کرکے آتا ہوں – اور یہاں سے ہلنا مت نہیں تو زمین میں گھاڑ دوں گا _
ج – جی سر _ اس نے تھوک نگلتے بمشکل سر ہلایا–
میرہادی ایک آخری نظر بند دروازے پر ڈالتا ڈاکٹر کے پیچھے ہولیا _
دس منٹ گزر چکے تھے – ڈاکٹر اپنی کرسی پر بیٹھا اپنے سامنے پڑی فائل کو دیکھ رہا تھا وہ یقیناً آبدار کی رپورٹس تھیں – جبکہ وہ ٹیبل کی دوسری طرف ٹانگ پر ٹانگ جماۓ بیٹھا تھا _
ڈاکٹر نے ایک لمبا سانس لیا اور چشمہ اتار کر ایک طرف رکھا – ہمم بظاہر تو سب نارمل ہے لیکن پیشنٹ مسلسل ڈیپریشن کا شکار ہے – نیند کا پورا نہ ہونا , کھانا چھوڑ دینا , زیادہ مقدار میں کافی اور مسلسل ڈیپریشن نے انہیں کافی کمزور کردیا ہے
جس طرح کی انکی حالت ہے لگتا ہے کہ انہیں کئ بار پینک اٹیک بھی آچکا ہے – ویسے کیا آپ بتائیں گے کہ آج انہیں ہوا کیا ہے —
ایکسیڈینٹ ہوا ہے – میں نے آواز دی پر اس کے بدلے میں کوئ رئیکشن نہیں ملا مجھے – کیا وہ ٹھیک ہے اب _
وہ شاک میں ہوں گی یقیناً – جس طرح سے ان کی ذہنی حالت ہے شکر ہے کہ وہ بچ گئیں _ بہت مشکل سے انکا شوٹ کرتا بی پی نارمل ہوا ہے – اگر بی پی نارمل نہ ہوتا تو برین کی وینز متاثر ہوسکتی تھیں یا پھر کوئ نبظ پھٹ بھی سکتی تھی _
آپ انہیں خوش رکھنے کی کوشش کریں کوشش کریں کے وہ سٹریس بلکل بھی نہ لیں – باقی جو مسئلہ ہے اسے بھی حل کریں تاکہ وہ پرسکون ہوں_
ہممم, اور اب کوئ پریشانی کی بات تو نہیں ہے _؟! اسکے لہجے سے جھلکتا اضطراب سامنے بیٹھے ڈاکٹر کو صاف صاف نظر آرہا تھا —
سر کی چوٹ زیادہ گہری نہیں ہےلیکن ایک مہینے تک احتیاط ضروری ہے – سر میں درد ہوسکتا ہے جو آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جاۓ گا _ ڈائیٹ کا خیال رکھیں – جلد ٹھیک ہو جائیں گی وہ _
ہمم _ دروازے پر دستک دے کر کوئ اندر داخل ہوا تھا – ڈاکٹر اور میرہادی دونوں نے مڑ کردیکھا تھا – ثاقب تیزی سے اندر آیا – سر میم کو ہوش آگیا ہے –
میرہادی سر ہلاتے تیزی سے چیئر پر سے اٹھتے باہر کی جانب بڑھا تھا اس کے پیچھے ڈاکٹر اور ثاقب بھی تیز قدموں سے آئ -سی – یو کی جانب بھاگے _
ڈاکٹر کو اندر گئے دس منٹ گزر چکے تھے – اور وہ باہر کھڑا انتظار کر رہا تھا – نرس باہر آئ اور انہیں اندر جانے کے لیے کہا – میرہادی تھوڑا ہچکچاتے ہوۓ اندر داخل ہوا اور جو پہلی چیز اس نے دیکھی تھی وہ تھی آبدار – جو سامنے خالی دیوار کو گھور رہی تھی _
اس نے ناسمجھی سے ڈاکٹر کو دیکھا _ سر آپ کچھ بات کریں پیشنٹ سے — کچھ ناسمجھتے ہوۓ بھی اس نے قدم بیڈ کی جانب بڑھاۓ اور آبدار کی دائیں طرف جاکھڑا ہوا – اپنے آس پاس ہلچل محسوس کرتے آبدار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا – اور اگلے ہی لمحے اس نے ابرو اچکاۓ
پہچانا مجھے _ ؟!
میر نے ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر لئے اسکی طرف دیکھا – دونوں ہاتھ بیڈ پر رکھتے تھوڑا سا اسکی جانب جھکا تھا – جو جلدی سے پیچھے ہوئ تھی _ حیرانی ناسمجھی میں بدلی اور پھر ہیزل آنکھوں نے انجان نا سمجھ نظروں سے اپنے سامنے موجود اس اجنبی چہرے کو دیکھا تھا – ہیزل آنکھیں تھوڑا سا سکڑیں اور پھر سر نفی میں ہلایا گیا _
میں نے نہیں پہچانا – کون ہو تم _ ؟ کیا — کیا میں تمہیں جانتی ہوں ؟ تمہیں پتا ہے میں کون ہوں_؟!
کھلے بال کمر پر بکھرے ہوۓ تھے اور ماتھے پر پٹی بندھی تھی – ہلکے سفید رنگ کے کپڑے جن پر سورج مکھی کے پھول بنے ہوۓ تھے – سرخ ہونٹ اور صاف ستھرا چہرہ لئے وہ چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی –
میرہادی بےساختہ کچھ قدم پیچھے ہوا تھا – جبکہ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی – کیا ہوا ہے اور کون ہو تم _ ؟!
اس نے بےساختہ ڈاکٹر کو دیکھا تھا – یہ کیا کہہ رہی ہے کیا ہوا ہے اسکو – تم نے تو کہا تھا کہ وہ بلکل ٹھیک ہے – اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ ڈاکٹر کے گریبان پر تھے – ثاقب جو کبھی بیڈ پر بیٹھی لڑکی کو دیکھ رہا تھا تو کبھی میر کو – میر کے ڈاکٹر پر جھپٹنے سے ہوش میں آیا اور جلدی سے ڈاکٹر کو پیچھے کیا – سر پلیز کالم ڈاؤن – میم کی طبیعت خراب ہو جاۓ گی پلیز ہم باہر چل کر بات کرتے ہیں پلیز _
میر ہادی نے آبدار کو دیکھا جو مسلسل انہیں ہی دیکھے جارہی تھی – وہ لمبا سانس لیتا ہوا پیچھے ہٹا اور جلدی سے باہر کی طرف بڑھا _ ڈاکٹر اور اسکا سیکرٹری بھی جلدی سے اس کے پیچھے لپکے_
تم نے تو کہا تھا کہ وہ ٹھیک ہے لیکن وہ تو مجھے پہچان بھی نہیں رہی _ اس کی آواز سرد تھی برف سے لہجے میں پوچھتا وہ خود پر ضبط کیے ہوۓ تھا —
سر وہ بلکل ٹھیک ہیں – ریپورٹس تو ساری نارمل ہیں ان کی — ان کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہیں کچھ یاد نہیں ہے – میں نے ان سے کچھ سوال کیے ہیں لیکن انہیں اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا — وہ مسلسل یہی کہہ رہی تھیں کہ ان کا نام آبدار ہے لیکن انہیں اور کچھ یاد نہیں –
تو اب کیا – کب تک یاد آۓ گا اسے سب _ ؟!
سر کچھ کہا نہیں جاسکتا – انکا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے اور شاید یہ اسی وجہ سے ہے – انکی میموری لوس ہو چکی ہے اور کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ یہ کتنے وقت تک ہے – ہو سکتا ہے کہ یہ کچھ دنوں میں ٹھیک ہوں جائیں یا پھر کچھ مہینوں میں یا پھر کچھ سال بھی لگ سکتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انکی یاداشت کبھی واپس ہی نہ آۓ –
میر ہادی نے اپنا سر تھامتے ڈاکٹر کو دیکھا _ ہم لوگ گھر کب تک جا سکتے ہیں –؟
وہ اب ٹھیک ہیں تو میں ڈسچارج پیپرز بنوا دیتا ہوں – آپ لوگ گھر جا سکتے ہیں _
ہممم – ڈاکٹر کے جانے کے بعد ثاقب میر ہادی کی طرف مڑا – سر اب کیا کرنا ہے _ ؟!
کرنا کیا ہے روم ریڈی کرواؤ – آبدار سلطان ہمارے ساتھ پیلس جاۓ گی – تیاری کرو _
جی سر – ثاقب کے جانے کے بعد اس نے قدم پھر سے روم کی جانب بڑھاۓ جہاں آبدار موجود تھی_
( باقی آئیندہ )
Listen My Love by ZK Episode 21

Pages: 1 2