جولائی کے آخری دن تھے۔سمندر کی جانب سے چلتی ہوا میں نمی کی خوشبو تھی جو کچن کی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی۔باہر چڑیا کوے شور مچاتے ہوئے اڑ رہے تھے۔
فاز عالم جب کچن میں آیا تو فاطمہ،ہاجرہ کے ساتھ ناشتہ تیار کر رہی تھی۔چولہے پر چائے کا پانی جوش کھا رہا تھا، پراٹھے کی سنہری خوشبو فضا میں رچ بس گئی تھی۔مگر اندر کی فضا میں کچھ اور ہی تناؤ تھا۔دونوں کے درمیان خاموشی کی ایک دیوار کھڑی تھی،جو رات کے انکشاف کے بعد مضبوط ہوگئی تھی۔جذبات کا وہ بہاؤ،وہ بے ساختگی، وہ لمحاتی حقیقت۔اب دن کی روشنی میں کچھ اور ہی محسوس ہو رہی تھی۔
”ناشتہ کرلو“۔فاطمہ نے میز پر ناشتے کی اشیاء رکھتے ہوئے کہا۔وہ اب بھی فاز کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔رات کے اندھیرے میں جذبات کی رو میں بہہ کر جو کچھ کہہ دیا تھا،صبح ہوتے ہی وہ ان الفاظ کے بوجھ تلے بے چین ہو گئے تھے۔کل رات کہے گئے الفاظ اس کے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح بج رہے تھے۔ “As a wife” کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ صرف “سائیکالوجسٹ” کہنا کافی تھا،فاز عالم نے کس طرح اس دن سیدھا اس کے منہ پر کہہ دیا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا۔
فاز میز پر بیٹھ گیا،مگر روٹین کے برخلاف،اس نے پراٹھا ہاتھ میں لینے کے بجائے صرف چائے کی پیالی پکڑی۔آج نہ معمول کی طرح ناشتہ کرنے کو کہا،نہ ہی اس کے ہاتھ کے بنے پراٹھے کی طرف دیکھا۔پتبھی موبائل کی گھنٹی بجی،اور اسکرین پر نمودار ہوتا نام دیکھ کر فاز نے فوراً کال اٹھائی۔
”یس سر،میں بیس منٹ میں پہنچ جاؤں گا…جی،کمپلیٹ انفارمیشن ہے…سر،میں نے سارے حفاظتی اقدامات کر لیے ہیں،کوئی نقصان نہیں ہو سکتا“۔۔اس کے لہجے میں اعتماد اور پروفیشنل ازم تھا، مگر کرنل عامر کے اگلے جملے میں ایک عجیب سی نرمی تھی،جو بالخصوص فاز عالم کے لیے تھی۔
”بی کئیرفل، جینٹل مین“۔
”آئی ول، ڈونٹ وری سر“۔
”بیسٹ آف لک“۔
کال ختم ہوتے ہی وہ اسٹڈی کی طرف بڑھا،اپنے مخصوص انداز میں،جہاں ہر قدم حساب سے رکھا گیا تھا۔اپنا حلیہ تبدیل کیا۔اب وہ وائے ڈی کے روپ میں تھا۔کراچی کے اس بنگلے کے اندر،جہاں ہر چیز منظم تھی،اسٹڈی روم ایک رازوں کا گڑھ تھا۔صوفے کو ہٹایا اور لکڑی کے فرش پر بوٹ سے ہلکی ضرب لگائی،اور نیچے سے ایک خفیہ خانہ نمودار ہوا۔اس میں کئی دستاویزات رکھی تھیں،جن میں سے ایک سیاہ فائل اس نے اٹھائی۔
اپنی چیزیں سمیٹ کر وہ باہر پورچ میں آیا،جہاں گرمی اور نمی کے باوجود ہوا میں ہلکی خنکی تھی۔شاید سمندر کی سمت سے چلنے والی ہوا کچھ مہربان ہو گئی تھی۔مگر اس لمحے،اس کی مہربانی فاطمہ کے تیز قدموں میں دفن ہو گئی۔
”فاز عالم، رکو“۔پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ اس نے پوری قوت سے آواز دی۔فاز،جو گاڑی کا دروازہ کھولنے والا تھا، چونک کر رکا۔فاطمہ تیزی سے اس کی طرف بھاگ رہی تھی۔پونی ٹیل پینڈولم کی طرح ہل رہی تھی،چہرے پر صبح کی روشنی کی نرم چمک تھی۔
”بس ایک آخری سوال کا جواب چاہیے۔تم نے مجھ سے نکاح کیوں کیا تھا؟“۔پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان اس نے استفسار کیا۔فاز نے ضبط سے اسے دیکھا۔پیشانی پر بل پڑ گئے۔یہ سوال اس وقت؟جب وہ ایک اہم کام کے لیے جا رہا تھا؟
”میں اس وقت بہت ضروری کام سے جا رہا ہوں،آپ کو جس بھی سوال کا جواب چاہیے،رات میں مل جائے گا“۔پرسکون مگر قطعیت بھرا جواب دے کر وہ دروازہ کھولنے لگا۔
”مجھے ابھی جاننا ہے“۔اس کے بےلچک انداز پر فاز کی آنکھوں میں خفیف سی جھنجھلاہٹ ابھری۔فاز نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں،پھر سانس لے کر دوبارہ کھولی۔
”فاطمہ،آپ اتنی ضدی کیوں ہیں؟کل رات جس فاطمہ سے ملا تھا،وہ واقعی ایک سائیکالوجسٹ لگی تھی،لیکن اب… پھر وہی رویہ؟پلیز،ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ ابھی وقت نہیں ہے“۔اپنے آپ کو پرسکون کرتے ہوئے اس نے تحمل سے کہا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر دروازہ بند کیا۔وہ غصے کے بجائے تحمل مزاجی سے کام لے رہا تھا۔کیونکہ فاز عالم فاطمہ کمال پر غصہ نہیں کرسکتا تھا۔چابی گھمائی ہی تھی کہ دوسری طرف کا دروازہ کھلا اور فاطمہ پیسنجر سیٹ پر بےدھڑک بیٹھ گئی۔
”فاطمہ؟“۔بےیقینی سے اپنے برابر بیٹھی فاطمہ کو دیکھتا رہ گیا۔
”فاز عالم،فاطمہ کمال صرف تمہارے معاملے میں ضدی ہے۔ تم نے سچ چھپا کر مجھے ضدی بنایا ہے۔ہر بار کہتے ہو،خود بتاؤ گے،مگر ہر بار ٹال جاتے ہو۔اب بس،میں اپنی زندگی کا آخری سچ جاننا چاہتی ہوں تاکہ آگے بڑھ سکوں۔میں نے بہت ماہ ضائع کرلیے اب مزید وقت نہیں ضائع کر سکتی“۔اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ سنجیدگی سے بولی۔
”آپ جانتی ہیں، میں اس وقت کہاں جا رہا ہوں؟ہیڈکوارٹر، میری میٹنگ ہے،اور میں آج پہلی بار پانچ منٹ لیٹ ہو چکا ہوں“۔فاز نے تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
”واٹ ایور،مجھے نہیں پتہ تم کہاں جا رہے ہو؟کہاں نہیں؟مجھے تم راستے میں بتا کر وہیں اتار دینا۔میں واپس آسکتی ہوں۔اگر نہیں بتانا تو میں یہیں بیٹھی رہوں گی،اور تم لیٹ ہوتے رہو گے“۔
فاز نے ملامتی نگاہوں سے اسے دیکھا،پھر اسٹیرنگ پر گرفت مضبوط کرکے گاڑی پوری اسپیڈ میں ڈال دی۔
گہری خاموشی،بھنچے ہوئے لب،اسپاٹ تاثرات، اور فل اسپیڈ پر دوڑتی گاڑی…فاطمہ کا دل دہل گیا مگر ضد برقرار رہی۔یہ بات تو فاطمہ کمال بھی نہیں سمجھ پاتی تھی کہ وہ فاز عالم کے معاملے میں اتنی ضدی کیوں ہوجاتی تھی؟ جولائی کی گرمی سڑک کے کنارے رکھی دکانوں کے شیشے میں دھندلا رہی تھی۔ہوا میں بائیک کے سلنسر کی آوازیں، ہارن، اور دور کسی ٹھیلے والے کی صدائیں شامل ہو رہی تھیں۔مگر ان سب کے بیچ گاڑی کے اندر صرف خاموشی تھی۔فاطمہ نے کن اکھیوں سے فاز کو دیکھا۔وہ لب بھینچے،سامنے دیکھ رہا تھا۔
”تمہاری خاموشی سننے کے لیے تھوڑی آئی تھی،اب کچھ بولو بھی“۔وہ فقط دل میں ہی کہ سکی۔کیونکہ اس کے اسپاٹ تاثرات اسے کچھ بھی کہنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔کراچی کی جولائی کی گرمی کے بیچ،یہ خاموشی سب سے زیادہ جلانے والی تھی۔
گاڑی کے ٹائر سڑک سے رگڑ کھا کر چڑچڑ کی آواز کے ساتھ رکے۔فاز عالم نے بروقت بریک لگائی تھی،کیونکہ آگے سے ایک سفید پراڈو نے برق رفتاری سے ان کی گاڑی کو اوورٹیک کیا تھا۔لمحے بھر میں جیسے سب کچھ رک سا گیا۔ فاطمہ کی سانسیں بےترتیب ہوئیں،دل ایک لمحے کو زور سے دھڑکا۔اس نے نظر اٹھا کر دیکھا۔سامنے ایک گاڑی راستہ روکے کھڑی تھی،دائیں بائیں دو اور گاڑیاں،اور پیچھے بھی راستہ بند تھا۔ جیسے کوئی جال بچھایا گیا تھا۔
اس نے گھبرا کر فاز کی طرف دیکھا،مگر وہ ہمیشہ کی طرح لب بھینچے،سپاٹ نظریں سامنے جمائے بیٹھا رہا،جیسے یہ سب نیا نہیں تھا،جیسے یہ سب پہلے سے جانتا تھا۔
”فاز… کک… کیا ہے یہ سب؟“۔فاطمہ کا ہاتھ بےاختیار اس کے بازو پر آیا،آواز میں کپکپاہٹ تھی۔
”اسی لیے منع کیا تھا“۔فاز کی آواز میں گہری سنجیدگی تھی۔اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ ہٹایا،ہینڈل پر گرفت مضبوط کی اور دروازہ کھولا۔
”فاز“۔فاطمہ نے گھبرا کر پکارا،مگر وہ گاڑی سے اتر چکا تھا۔
فاطمہ کی آنکھیں لمحے میں بھیگ گئیں۔دل جیسے کسی انجانے خوف سے لرزنے لگا۔
”گاڑی روکنے کی جرات کیسے ہوئی؟“۔فاز کی غضب ناک آواز سنائی دی۔سامنے سے ایک شخص قدم بڑھاتا ہوا آیا،چہرہ سیاہ کپڑے میں لپٹا ہوا،آنکھوں میں خنزیری چمک۔
”مسٹر وائے ڈی،گاڑی روکنی تھی،روک چکے۔اب فائل حوالے کرو اور جانا ہے تو چلے جاؤ“۔اس نے بے نیازی سے کہا۔
”اوہ،تو خبر پہنچ گئی تم لوگوں تک؟جس نے دی ہے،وہ تو جائے گا ہی جائے،مگر اس سے پہلے تم جاؤ گے“۔فاز ہلکا سا مسکرایا،طنزیہ مسکراہٹ۔یہ کہہ کر وہ ایک جھٹکے سے آگے بڑھا،اور ایک بھرپور مکا اس شخص کے چہرے پر دے مارا۔ کپڑے میں لپٹا چہرہ ایک طرف جھکا،اور خون کی دھار زمین پر گری۔
”تم اس وقت مارنے کی پوزیشن میں نہیں ہو،مسٹر عالم“۔ وہ شخص کراہتے ہوئے پیچھے ہٹا،مگر جلد ہی سنبھل کر کھڑا ہوگیا۔”باہر نکالو اسے“۔اس نے غصے سے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا۔اور تب فاز کو جیسے احساس ہوا۔وہ ایک لمحے کے لیے بھول گیا تھا اس کے ساتھ فاطمہ کمال بھی ہے۔اسے نے مٹھیاں بھینچ لیں۔اسے اپنے ہی اوپر غصہ آیا۔لمحے بھر میں سب کچھ واضح ہو چکا تھا۔وہ چھ آدمیوں کے نرغے میں تھا،مگر اسے صرف ایک فکر تھی۔فاطمہ۔
”ہاتھ بھی مت لگانا ورنہ تمہارے ہڈیاں بھی نہیں ملیں گی“۔ اس کی آواز بجلی کی طرح کڑکی،مگر وہ لوگ پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔
”چھوڑو مجھے“۔فاطمہ چیختی ہوئی خود ہی باہر آئی۔وہ تیزی سے فاطمہ کے قریب آیا۔
”آپ کو منع بھی کیا تھا اب بتائیں آپ کو بچاؤں یا فائل کو؟“۔وہ ہلکے غصے سے بولا۔مگر آواز دھیمی تھی۔پھر اس کا ہاتھ تھامے دوبارہ اس شخص کے سامنے آیا۔
”تم بہت غلط شخص سے پنگا لے رہے ہو۔شاہد عباسی سے کہنا اس کے حکومت کے دن ختم ہوئے اب مرنے کی تیاری شروع کردے“۔سرد آواز میں اسے دیکھتے ہوئے کہ رہا تھا۔
”ابھی تو ہار تمہارا مقدر ہے مسٹر وائے ڈی یا تو فائل سے ہاتھ دھو گے یا پھر اپنی پیاری بلبل سے“۔اس نے کہتے ہوئے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔فاز نے قہر برساتی نگاہوں سے اسے دیکھا۔اور اسے مارنے کو آگے بڑھا۔فاز کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا،مگر تین آدمیوں نے ایک ساتھ اس پر دھاوا بول دیا۔اس نے ایک، دو، تین… یکے بعد دیگرے سب پر مکے برسائے۔
”فاز“۔فاطمہ کی تکلیف بھری پکار پر ان تینوں کو چھوڑ کر تیزی سے پلٹا۔فاطمہ کے بال اسی شخص نے پکڑے ہوئے تھے۔فاز غصے سے آگے بڑھا۔فاطمہ مسلسل بال چھڑانے کی کوشش کررہی تھی۔لیکن وہ تین بندے پھر سے اس پر حملہ کیے۔یہی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔وہ اکیلا ہوتا تو ان کو دیکھ لیتا لیکن مسئلہ یہی تھا کہ فاطمہ ساتھ تھی۔ایک دو کو دھیڑ کرنے کے چکر باقی فاطمہ کی طرف بڑھتے،جیسے ابھی ان کا لیڈر۔
”تمہیں فائل چاہیے،مل جائے گی۔خاتون کو چھوڑو“۔اس نے لمحے بھر میں فیصلہ کر لیا۔فیصلہ مشکل تھا لیکن اسے لینا پڑا۔
”پہلے فائل،مسٹر وائے ڈی“۔اس کے مخالف کی مسکراتی آنکھیں زہر میں بجھی ہوئی تھیں۔فاز گاڑی کی طرف بڑھا۔
”بال چھوڑو، جاہل انسان“۔فاطمہ خونخوار لہجے میں غرائی، مزاحمت کرتی رہی۔پھر اچانک،ایک جھٹکے سے اس نے بالوں کی گرفت سے خود کو آزاد کیا اور تیزی سے پیچھے ہٹی۔
”جب کسی جنگ میں ہو،تو عورت کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔وہ ایک لمحے میں سب برباد کر دیتی ہے۔تم جیسے آدمی کو محبت نہیں کرنی چاہیے تھی۔دیکھو، تم ہار گئے“۔یہ کہہ کر وہ شخص طنزیہ قہقہہ لگاتا ہوا،مذاق اڑاتی نگاہوں سے اسے دیکھا اور فائل ہاتھ میں لے کر چلا گیا۔
فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔اس کا دل بوجھل ہوگیا تھا،ندامت نے اسے زمین میں گاڑ دیا تھا۔
”فاز…“وہ مدھم آواز میں بولی،اسے لگا وہ غصہ کرے گا،مگر توقع کے برعکس اس نے بس آہستگی سے اسے اپنے قریب کر لیا۔فاطمہ کمال کی دنیا رک سی گئی.
”آپ ٹھیک ہیں، فاطمہ؟“۔یہ وہی آواز تھی وہی احساس، وہی فکر، وہی نرمی۔نہ غصہ،نہ خفگی،کچھ بھی تو نہیں تھا۔
”ٹھیک ہوں“۔فاطمہ کی آواز اور بھی لرز گئی،شرمندگی کی گہرائی میں اور ڈوب گئی۔
فاز نے نرمی سے اس کے چہرے پر آئے بال پیچھے کیے،اور ساتھ لیے گاڑی میں آ بیٹھا۔فون پر کسی کو اطلاع دی،کچھ مختصر الفاظ کہے،اور پھر گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑ لیا۔
Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 10
