Classic Web Special

Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Episode 1 online reading

جيسے ہی وہ سب سے ملتا ملاتا ارم کے آفس پہنچا۔ دروازے کے بالکل سامنے والے صوفے پہ ارم جبکہ اسکے سامنے موجود ٹيبل کے اس طرف کرسی رکھے کوئ کالی چادر ميں موجود تھی۔
“شکر تم آگۓ” اسے ديکھ کر ارم کے چہرے پر سکون اور ريم کے چہرے پر تناؤ بکھرا تھا۔
وہ اپنے رف اينڈ ٹف حليے ميں اسکے سامنے موجود صوفے پر ارم کے برابر بيٹھ چکا تھا۔
ٹيبل پر گاڑی کی چابی، لائٹر، سگريٹ کا پيک اور موبائل رکھتے بہت تفصيل سے سامنے بيٹھے وجود کو ديکھا تھا۔ گندمی مگر اس قدر پرکشش چہرہ اس نے شايد ہی کبھی ديکھا تھا۔ خم دار گھنی پلکيں اسکے گندمی رنگ کو اور بھی خوبصورت بناتی تھيں۔
“ہممم” ارم نے اسکی نظروں کے ارتکاز پر گلا کھنکھار کر اسے وارن کيا۔ ريم اپنے چہرے پر اسکی بے باک نگائيں محسوس کرکے شديد غصے سے کھول رہی تھی۔
“کہاں چينجزکروانی ہيں تمہيں” ارم نے اسکرپٹ اسکے آگے رکھا۔
“چينجز بھی کروا ليں گے اتنی کيا جلدی ہے۔ کوئ سلام دعا کا رواج نہيں يہاں” جان بوجھ کر وہ اسے بولنے پر اکسا رہا تھا۔
اب کی بار اس نے خم دار پلکيں اٹھا کر شرربار نگاہوں سے اسے ديکھا۔
“چليں ميں ہی سلام کرليتا ہوں۔ السلام عليکم۔ کيسی ہيں آپ بريلينٹ رائٹر” اب کی بار اسکی آنکھوں ميں براہ راست ديکھتے وہ شرير لہجے ميں بولا۔
“الحمداللہ بالکل ٹھيک۔ ارم آپ مجھے مارک کرديں جہاں جہاں چينجز چاہئيں” شراروں سے پلٹ کر نگام ميں سرسری پن لئے اس پر سے نگاہ ہٹا کر اب کی بار اسے بری طرح اگنور کرکے ارم کی جانب ديکھ کر جملہ مکمل کيا۔
اشاذ کو يوں اگنور ہونا کھولا گيا۔
“ارم چاۓ کا کہہ کر آؤ” اس سے پہلے کہ ارم کچھ کہتی اب وہ نيا آرڈر جاری کر چکا تھا۔
“اوکے ميں کہہ ديتی ہوں” ارم نے فون اٹھا کر ملانا چاہا جس پر وہ اور بھڑک اٹھا۔
“جا کر کہہ کے آؤ۔۔ ڈو يو گيٹ ديث” اب کی بار وہ ايک ايک لفظ چبا کر بولا۔ ارم اسکے تيور ديکھ کر بوکھلا کر اٹھی۔ اور بوکھلا تو ريم بھی گئ تھی کيونکہ اب وہ اس اوباش ڈائريکثر کے ساتھ اکيلے کمرے ميں تھی۔ جس کی حرکتوں کے بہت سے قصے سن رکھے تھے۔
ارم کے جانے کے بعد اس نے پھر سے آنکھيں اس پر گاڑيں۔
“اب جتنی اقساط ريکارڈ ہوں گی۔ آپ اس سيٹ پر موجود ہوں گی” وہ جو اسکے پرسکون چہرے کو ديکھ کر کھول رہا تھا۔ اپنی بات کا متوقع ردعمل ديکھ کرمقابل کو زچ کرنے والے انداز ميں مسکرايا۔
“ميں آج پہلی اور آخری بار آئ ہوں۔ صرف ارم کے کہنے پر۔ ڈو يو گيٹ ديٹ” واہ ۔۔۔ کيا اشاذ نے اسے محظوظ کن مسکراہٹ سے ديکھا۔
جيسے اسکے جواب سے بے حد حظ اٹھايا ہو۔
“يہ تو آپ بھول جائيں مس رائٹر” اب کی بار ٹيبل پہ ہاتھ رکھ کے تھوڑا سا آگے کو جھکتے جيسے اسے چيلنج کيا۔
“آپ کے ساتھ پرابلم کيا ہے جب کريکشن ہی کرنی ہے تو وہ ميں گھر رہ کر بھی کرسکتی ہوں۔” اب کی بار اس نے براہ راست اس سے بات کرنے کا فيصلہ کرليا۔ وہ تو پھيلتا جارہا تھا۔
کچھ بھی کہے بنا وہ بس سامنے رکھی چابی کو گھماۓ جارہا تھا۔ نظريں جھکی تھيں۔ ريم نے کسی قدر تنفر سے اسکے بشاش اور وجيہہ چہرے کو ديکھا۔ پرکشش چہرہ۔۔ ہلکی سی داڑھی۔۔ سفيد نہيں بس صاف رنگت تھی اسکی۔ ماتھے پہ موجود بکھرے الجھے بال اور ہلکی سی داڑھی اسے انتہائ خوبصورت مردانہ کشش کا حامل انسان بناتی تھی۔ اگر لڑکياں اسکے پيچھے پاگل تھيں تو ايسے ہی نہيں تھيں۔
اس کا ڈيل ڈول۔۔ اور لمبا قد اسکے مردانہ حسن ميں چار چاند لگاتا تھا۔ مگر ريم کو اس وقت وہ شخص زہر سے بھی زيادہ برا محسوس ہورہا تھا۔
“پتہ نہيں کيا چاہتا ہے سائيکو” دل ميں اسے لتاڑا۔
“ميں چاہتا ہوں کہ آپ بھی ديکھيں کہ ہم “جيسے” لوگ يہاں کيسے کام کرتے ہيں” اپنی حزن ميں لپٹی آنکھيں اٹھا کر اسکی جانب ديکھتے جيسے پہ زور ديتے کہا۔ ريم کو ياد بھی نہيں تھا کہ وہ کس بات کا حوالہ دے رہا ہے۔ وہ الجھی اسی لمجے ارم ايک چائے والے لڑکے کے ساتھ اندر آچکی تھی۔
اسے اندر آتے ديکھ کر اشاذ نے اب کی بار اسکرپٹ پکڑا۔ تيزی سے اس پر کچھ مارک کرکے ريم کی جانب بڑھايا۔
“يہاں سے يہ سين بالکل اريليوينٹ ہيں۔ ايکپريشنز کو بہت ڈريگ کيا ہے۔ بہتر ہے کا يہاں ڈائيلاگز ڈاليں۔ لوگ ايسے ڈرامے ديکھنا پسند نہيں کرتے۔ جن مين سين خوامخواہ ميں کھينچا جاۓ” وہ بولتے ہوۓ ہاتھ آگے بڑھاۓ تھے۔
ريم نے جيسے ہی اسکرپٹ لينے کے لئے ہاتھ آگے بڑھايا۔ اشاذ کی آنکھيں حيرت کی زيادتی سے کھليں۔۔ اسکرپٹ پر ہاتھ ڈھيلا پڑا۔ ريم نے اسکرپٹ پکڑ کر ہاتھ ميں پين تھام کر چاۓ کا کپ پکڑا اور ايک جانب صوفے پر بيٹھ گئ جيسے تنہائ چاہتی ہو۔
وہ اشاذ کی حيران نظروں سے بے خبر تھی۔
اشاذ نے اسی حيرت سے ارم کو ديکھا۔
“اسکے ہاتھ اور پاؤں نارمل لوگوں کی طرح نہيں ہيں۔ پيدائشی طور پر وہ باقی جسم کی طرح نمو نہيں پا سکے۔ لوگ اسی بات پہ اس کا تمسخر اڑاتے ہيں۔ اور وہ اسی لئے لوگوں کو فيس کرنے سے ڈرتی ہے۔” ارم نے بہت آہستگی سے وہ سب ايسے بتايا کہ ريم تک اسکی آواز نہ پہنچ سکے۔
اب کی بار اشاذ کو اپنی ضد پر افسوس ہوا۔ اور افسوس غصے ميں ڈھل گيا۔ وہ کچھ بھی کہے بغير باہر نکل گيا۔


جاری ہے

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *